چوبیس اور پچیس اکتوبر کی درمیانی رات جب
اکسٹھ جوان دل زندگی کی تمام تر رنگینیوں اور توانائیوں سمیت دھڑک رہے تھے
۔نہ صر ف یہ اکسٹھ بلکہ ان کے ساتھ جڑے ماں ،بہن ،بیٹی ،بیوی ،بچے سب اپنی
اپنی جگہ مطمئن تھے ۔ ان کے بیٹوں ،بھائیوں ،خاوندوں کو نوکری مل گئی تھی
اور عنقریب تنخواہ بھی ملنے والی تھی ۔ایک گھر میں ہی کئی خواہشات تشنہ
ہوتی ہیں یہ تو اکسٹھ گھروں کی مشترکہ داستان ہے کسی نیبہنکے ہاتھ پیلے
کرنے تھے تو کسی کے ماں باپ منتظر تھے بیٹے کی کمائی سے آخری عمر میں پہلی
عمر کی نا آسودہ خواہشات کی تکمیل کے لیے ۔کچھ گھروں میں بچوں کو باپ کی
نوکری کے بعد نت نئے کھلونے اور گھومنے پھرنے کے خواب رات سوتے میں بھی نظر
آتے تھے ۔کہیں اپنے منگیتر کی نوکری لگنے پر خوش ،آنکھوں میں سہانے خواب
بسائے مشرقی روایات کی پروردہ بیٹیاں منتظر تھیں چند ماہ مزید گزرنے کے اور
تو اور سریاب روڈ کوئٹہ پولیس ٹرینگ اکیڈمی کے اندر موجود نوجوان محض پولیس
کیڈٹس نہیں تھے ۔جیتے جاگتے انسان تھے جن کی اپنی بھی خواہشات ،امنگیں ،خواب
،نظریات تھے ۔رات سونے کے لیے بستر پر جانے سے پہلے ہر ایک کے ذہن میں کوئی
نہ کوئی منصوبہ تھا ۔پولیس سروس میں آکر اپنے شہر اپنے وطن کی خدمت کا جذبہ
،گھر والوں کی مالی معاونت ،اپنی ذاتی زندگی کے خوابوں کی تکمیل ۔ٹھیک اس
وقت جب پاکستان کے یہ بیٹے اور ان سے جڑے ان کے خونی رشتے مستقبل کے حسین
خوابوں میں کھوئے ہوئے تھے ۔چند درندے انسانی روپ دھارے آتشیں ہتھیار
اٹھائے نہ جانے کون سی جنت کی تلاش میں پولیس اکیڈ می سریاب روڈ کی جانب
بڑھ رہے تھے ۔واچ ٹارو پر موجود سکیورٹی آفیسر نے چند مشکوک سایوں کو رات
کی تاریکی میں رینگتے دیکھا تو اس کا ماتھا ٹھنکا ۔اس کے ہاتھوں کی گرفت
اپنی رائفل پر مضبوط ہو گئی ۔مشکوک سائے اندھیرے کا حصہ بنے آگے بڑھے ۔گارڈ
کے ماتھے پر شکنیں بڑھ گئیں اس نے رائفل سیدھی کی ۔ اتنے میں گولیوں کی
تڑتڑاہٹ نے رات کے سناٹے کو پاش پاش کر ڈالا ،پہلی گولی کے بعد جیسے کوئی
بند ٹوٹ گیا گولیوں کا مینہ برسنے لگا۔جواب میں واچ ٹاور پر موجود سپاہی نے
بھی آخری گولی اور آخری سانس تک لڑنے کا تہیہ کر لیا ۔فائر نگ کا انداز ،شدت
اور گولیوں کا زاویہ بتا رہا تھا کہ آنے والے ماہر ترین شوٹر ہیں لیکن وطن
کی محبت کا جذبہ اتنا شدید تھا کہ واچ ٹارو سے متواتر جواب دیا جانے لگا ۔
گولیوں کی آواز سن کر سوئے ہوئے کیڈٹ ہڑبڑا کر اٹھے ۔صورتحال کسی کی سمجھ
میں نہیں آرہی تھی ۔اسلحہ بھی پاس نہیں تھا ۔اندازہ ہوتا تھا کہ قریب ہی
کہیں دو متحارب گروہ آپس میں ٹکرا گئے ہیں ۔دوسری طرف واچ ٹارو پرموجود
سپاہی کے پاس ایمونیشن محدود تھا جبکہ ایک کے مقابلے میں تین طرف سے فائر
آرہا تھا ۔کچھ دیر مزاحمت کے بعد گارڈ کو اندازہ ہو گیا کہ ان کو روکنا
ممکن نہیں ہو گا لیکن ابھی ایمونیشن باقی تھا اس نے رائفل کو برسٹ موڈ پر
ایڈجسٹ کیا اورپوری فائر پاور استعمال کرنے لگا ۔جوش میں ہوش کھو دینے کا
نتیجہ بالاآخر وہی نکلا جو عموماََ نکلتا ہے ۔واچ ٹاور پر تعینات سپاہی کے
گرتے ہی دردندے آگے بڑھے ۔ان کے انداز میں عجلت تھی کیونکہ غیر متوقع
مزاحمت نے کافی وقت ان کو روک لیا تھا ۔اسی اثناء میں آرمی کمانڈوز ،ایف سی
اور کوئٹہ پولیس بھی حرکت میں آچکی تھی لیکن تھوڑی سی دیر ہونے کی وجہ سے
درندے نہتے کیڈٹس تک پہنچ گئے ۔نیند سے بیدار ،اسلحہ کے بغیر نوجوان کیا
مقابلہ کرتے ان کے تو ہاتھ بندھے تھے ۔اندر جاتے ہی دہشت گردوں نے بے دریغ
گولیاں چلانا شروع کیں ۔اسی اثناء میں باہر فورسز نے گھیرا مکمل کر لیا اور
کمانڈوز اندر کی جانب بڑھے ۔دشمن نے جب باہر سے دباؤ بڑھتے دیکھا تو ایک
درندے نے نہتے کیڈٹس کے بیچ خود کو دھماکے سے اڑا لیا جبکہ ایک کو فورسز نے
ہٹ کر لیا ۔بچ جانے والے تیسرے دہشت گرد نے بھی اسی وقت خود کو دھماکے سے
اڑا دیا ۔لیکن اس وقت تک 61جانیں جا چکی تھیں ۔زخمیوں کی توداد سینکڑوں میں
تھی ۔بعد میں جو ہوا وہ ہر دہشت گرد حملے کے بعد ہونے والی معمول کی
کارؤائی ہے ۔جو بات نا قابل برداشت ہے وہ 61نوجوانوں کی شہادت ہے ۔یہ ایک
ایک گھر سے اٹھنے والی ایک ایک میت کی بات نہیں یہ پاکستان کے 61بیٹوں کی
شہادت ہے ۔بیٹے خصوصاََ جوان بیٹے کی موت والدین کے لیے نا قابل برداشت
صدمہ ہوتی ہے ۔میں خود کئی ایسے واقعات کا شاہد ہوں جب جوان بیٹے کی موت پر
والدین ذہنی توازن کھو بیٹھے یا عمر بھر کے لیے چارپائی پر پہنچ گئے ۔یہاں
تو ایک بیٹا نہیں مرا ،پاکستان کے 61بیٹے ایک ہی دن میں ظالموں نے ہم سے
چھین لیے ۔قارئین موت کا دکھ وہی جانتا ہے جس کا کوئی عزیز ناگہانی حادثے
میں جاں بحق ہوجائے ۔بطور مسلمان ہمارا ایمان ہے کہ موت کا دن معین ہے اور
موت سے فرار ممکن نہیں لیکن کسی بھی صورت کسی انسان نمادرندے کو ہم یہ
اختیار نہیں دے سکتے کہ وہ اپنے جاہلانہ نظریات کو بنیاد بنا کر ہمارے
بیٹوں کی ہمارے ہم وطنوں کی زندگیوں سے کھیلتا پھرے۔پاکستان میں جو حالات
چل رہے ہیں جنازے اٹھا اٹھا کر ہمارے بازو شل ہو چکے ۔ہماری کمر دوہری ہو
گئی ہے ۔اعصاب ٹوٹ چکے ہیں ، اب اس آگ اور خون کے کھیل کو بند ہونا ہوگا۔
بحثیت پاکستانی اپنے کسی بھی ہم وطن کی موت کا دکھ مجھے ایسے ہی محسوس ہوتا
ہے جیسے کوئی اپنا بچھڑ گیا ہو ۔ اب حکومت کو ،سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو،
ایجنسیوں کو ،تمام سیاست دانوں کو ایک نکتہ پر متفق ہونا ہو گا ۔ قوم کو
آواز اٹھانی ہوگی ۔اب نہیں تو پھر کب تک ہم انتظار کریں گے ؟ آخر کتنے اور
حادثے ،اموات ،کتنے مزید زخم ،کتنے اور جنازے اٹھائیں گے ہم ؟ ہر چیز کی
ایک حد ہوتی ہے اور اب حد ہو چکی ہے ۔اس کے بعد بھی اگر ہم نے بے حسی کی
نیند سونا ہے یا خاموشی سے برداشت کرنا ہے تو فیصلہ کرلیں کہ آنے والے دنوں
میں مزید سانحے ہمارے منتظر ہیں ۔انسان کی جان اتنی سستی نہیں ہوتی اب قوم
کو یہ بات مقتدر قوتوں کو باور کروانی ہو گی اور ان کو بھی اس پر سنجیدگی
سے کام کرنا ہو گا۔ سیاست ،مفاہمت ،چشم پوشی ،گڈ اینڈ بیڈ کے چکر میں قوم
کا نا قابل تلافی نقصان ہو چکا ہے ۔علما دن کو بھی واضح موقف اپنانا ہو
گاکہ کلمہ گو کا خون بہنانے والا کسی صورت مسلمان نہیں اور نہ ہی ایسا کرنا
کسی بھی صورت میں جائز قرار دیا جاسکتا ہے ۔اب وقت آگیا ہے کہ چند بڑے
فیصلے کیے جائیں ۔ طالبان ہوں یا داعش ،کالعدم تنظیمیں ہوں یا ناراض قوتیں
،بیرونی ہاتھ ہو یا دشمن ملک کی ایجنسیاں قوم کے لیے سب سے اہم اپنے ہم
وطنوں کی جانیں ہیں ۔ لہذا نام بدل دینے سے سانحے کی شدت کم نہیں ہو سکتی
جو بھی پاکستان میں پاکستانیوں کا خون بہائے گا وہ قوم کا دشمن اور مجرم ہے
۔خدا کے لیے سیاسی،مذہبی ،فقہی،لسانی اور صوبائی اختلافات مٹا کر یکجا ہو
جائیں اپنے لیے اپنے کل کے لیے اپنے ملک کے لیے ۔ جو آگ آج کسی کا گھر جلا
رہی ہے اس کے شعلوں کے رقص سے لطف اندوز مت ہوں کل آپ کا گھر بھی کسی کی
تفریح کا سامان بن سکتا ہے ۔ |