پرویز رشید کی قربانی

پاکستان شاید دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہے کہ جہاں آئین و قانون کی کبھی کوئی حیثیت نہیں رہی ہے اور نہ ہی موجودہ حالات میں ایسا کوئی امکان نظر آتا ہے کہ کبھی پاکستان میں آئین و قانون کو کبھی کوئی اہمیت دی جائے گی۔ اگر سیاسی حکومتوں کو دیکھا جائے تو وہ کھلے عام آئین کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں اور انھیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ۔ مثال کے طور پر حال ہی میں دو سیاسی حکومتوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ ملک میں بلدیاتی انتخابات نہ ہوں ۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی تھی۔ ملک میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد سپریم کورٹ کے دباؤ پر کیا گیا لیکن آج تک یہ سیاسی حکومتیں بلدیاتی اداروں کی اختیارات اور فنڈز دینے کے لئے تیار نہیں۔ یہ بھی آئین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ اسی سلسلے میں دوسری اہم مثال یہ دی جاسکتی ہے کہ ملک میں مردم شماری نہ کروا کر حکومت آئین و قانون کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔یہ دو چھوٹی سی مثالیں ہیں کہ جن میں واضح طور پر یہ نظر آتا ہے موجودہ اور سابق سیاسی حکومتوں کی نظر میں آئین و قانون کی کتنی اہمیت ہے۔ دوسری طرف ملک میں عکسری اداروں کا رویہ دیکھئے۔ یہ ادارے پاکستان کی تخلیق کے چند سال بعد ہی سے اپنے آپ کو آئین و قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں۔ ملک کے عسکری ادارے جب چاہتے ہیں سیاسی حکومتوں کو ختم کر کے اپنا راج قائم کر لیتے ہیں لیکن ان کے خلاف نہ کوئی قانون حرکت میں آتا ہے اور نہ ہی آئین کی کسی شق کا حوالہ دیکر ان اداروں کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ملکی آئین کے مطابق افواج پاکستان حکومت کے ما تحت ہوتے ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں ۔ گزشتہ چالیس برس سے زائد عرصے سے فوج یا تو خود اقتدار میں رہی یا پھر وہ پس پردہ بیٹھ حکومت کو ڈکٹیشن دیتے رہتی ہے۔ عسکری اداروں کے رویوں سے ایسا لگتا ہے کہ وہ حکومت کے نہیں بلکہ حکومت ان کے ما تحت ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ عسکری ادارے حکومت پاکستان کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور حکومت وقت ان احکامات کو ماننے کی پابند ہوتی ہے۔ یہ آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے لیکن اس حوالے سے خود سیاست دان کبھی کوئی آواز نہیں اٹھاتے اور نہ ہی میڈیا میں اس قسم کی کوئی بحث نظر آتی ہے اور اگر کوئی کبھی اس قسم کی ڈیبیٹ کرنے کا جرم کر بھی لے تو پھر اس کی سزا بھی غیر معمولی ہوتی ہے۔گزشتہ دنوں روزنامہ ڈان میں ایک خبر شائع ہوئی ۔ اس خبر میں مبینہ طو ر پر بعض کالعدم جماعتوں کے حوالے سے فوج کو ملائن کرنے کی کوشش گئی ہے۔ خبر کے متن میں بظاہر کوئی نئی بات نہیں تھی لیکن کچھ حلقوں کا یہ ماننا ہے کہ جس طرح اور جس وقت پر یہ خبر سامنے آئی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ یہ خبر جان بوجھ کر چھپوائی گئی ہے جس کی وجہ سے مبینہ طور پر ملک کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہو گئے ہیں ۔ اس خبر کو ایشو بنا کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کی اور انھوں نے اس حوالے سے وزیر اعظم کو کور کمانڈز کی تشویش سے آگاہ کیا جبکہ بعض ذرائع کے مطابق جنرل صاحب نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا کی خبر لیک کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔کور کمانڈر اجلاس کے بعد جس طرح جنرل راحیل شریف اور میاں محمد نواز شریف کی ملاقات کی خبر میڈیا پر پیش کی گئی اسے دیکھ کر ایسا لگتا تھا جیسے آرمی چیف نے وزیراعظم سے وضاحت طلب کی ہے۔ یہ بھی آئین پاکستان کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ آئین پاکستان کے مطابق آرمی چیف وزیراعظم سے جواب یا وضاحت طلب نہیں کر سکتے لیکن وزیراعظم کے اس اختیار کی نشاندہی کسی نے نہیں کی۔ الیکٹرانک اینڈ پرنٹ میڈیا میں سب نے یہ تبصرہ کیا کہ فوج نے حکومت کو الٹی میٹم دے دیا ہے۔ یہ بھی تبصرے سامنے آئے کہ سول ملٹری تعلقات بہت زیادہ اچھے نہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اس طرح کی خبریں اور تبصرے آئین پاکستان سے متصادم نہیں؟ لیکن اس سنجیدہ ترین معاملے پر کبھی کسی نے کوئی ایکشن نہیں لیا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اب پاکستان میں یہ طے کر لیا گیا ہے کہ فوج آئین سے بالا تر ادارہ ہے اس کے خلاف نہ تو کوئی بات کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان پر کوئی تنقید کی جا سکتی ہے اور نہ ہی ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ معاملہ بھی آئین پاکستان سے متصادم ہے۔ روز نامہ ڈان کے صحافی سرل المیڈا کی خبر کو بنیاد بنا کر اور اس خبر کو لیک کرنے کی پاداش میں ہفتہ کو وفاقی وزیراطلاعات پرویز رشید کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا ہے اور اس طرح ناراض کو ر کمانڈرز اور آرمی چیف کو منانے کی کوشش کی گئی ہے۔ گویا ہمارے ملک میں الٹی گنگا بہتی ہے۔ یہاں منتخب حکومت کو ناراض کور کمانڈرز اور آرمی چیف کو منانے کے لئے اپنے انتہائی اہم وزیر کی قربانی دینی پڑتی ہے لیکن اس کے باوجود یہ طے نہیں ہے کہ ملک کی عسکری قیادت ایک وزیر کی قربانی پر مان بھی جائے گی یا نہیں؟ یا ملک کی منتخب جمہوری حکومت کو عسکری قیادت کو منانے کی لئے کوئی اور بڑی قربانی دینی پڑے گی اور بات حکومت کے خاتمے پر ہی جا کر ٹھہرے گی؟
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 95 Articles with 61702 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.