’’تتلی رنگ‘‘ ۔ نقد و نظر
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
اردو ادبِ اطفال کے میدان میں مراٹھی
کہانیوں کو اردو کے قالب میں ڈھالنے والے ادیبوں میں وقار قادری نمایاں
حیثیت کے حامل ہیں۔ ترجمہ نگاری ایک مشکل ترین کام ہے ۔ اس میں ہر دو
زبانوں پر عالمانہ و ادیبانہ دسترس کا ہونا لازمی ہے۔ وقار قادری صاحب کا
نام مراٹھی سے اردو ترجمہ کرنے والوں میں اب کسی تعارف کا محتاج نہیں رہ
گیا ہے۔انھوں نے مراٹھی سے کئی اہم اور مؤثر دلت کہانیوں کو اردو کا جامہ
پہنایا اور اردو والوں کو مراٹھی دلت کہانیوں سے واقف کرایا۔ آپ کی مراٹھی
سے ترجمہ شدہ ایک اہم کتاب ’’ دلت کتھا‘‘ کے نام سے شائع ہوکر ادبی حلقوں
میں خاصی مقبول ہوچکی ہے۔ حتیٰ کہ اس کتاب پر وقار قادری صاحب کو ۲۰۰۳ء میں
ساہتیہ اکادمی کی جانب سے ’’ترجمہ ایوارڈ ‘‘ بھی تفویض کیا جاچکاہے۔
اس وقت میرے مطالعہ کی میز پر آپ کی کتاب’’ تتلی رنگ‘‘ سجی ہوئی ہے۔ خیال
انصاری ، مدیرخیر اندیش ، مالیگاؤں کی جانب سے اشاعت پذیر اس کتاب کا
انتساب اپنی بھتیجے اور بھتیجی کے نام کرتے ہوئے وقار قادری نے لکھا ہے کہ
:’’ بھتیجی سکینہ اشفاق کے لیے جو میری ماں کانام لے آئی ہے اور میری ہی
ماں کی طرح ڈانٹ ڈپٹ کر میری خامیوں کی اصلاح کا ذمہ لیے ہوئے ہے ، بھتیجے
اشفاق کے لیے سب کہتے ہیں میرا روپ اور میری ہی خصلتیں بھی لے آیا ہے !!
دونوں کے لیے حصولِ علم اور شان دار مستقبل کی ڈھیر ساری دعاؤں کے ساتھ
!!۔ ‘‘ وقار قادری کے یہ جملے نہ صرف اُن کے بھتیجوں بلکہ بچوں کے تئیں آپ
کے مخلصانہ رویوں کی غمّازی کرتے ہیں۔
’’تتلی رنگ‘‘میں بچوں کی سولہ کہانیاں شامل ہیں ۔ یہ ساری کہانیاں مراٹھی
ادب سے اردو میں منتقل کی گئی ہیں ۔ وقار صاحب نے ان میں بعض کہانوں کو
براہِ راست مراٹھی سے من و عن ترجمہ کیا ہے ۔ اور بعض کہانیوں کا مرکزی
خیال مراٹھی سے لے کر اُن کو از سرِ نو قلمبند کیا ہے ۔ ’’تتلی رنگ‘‘ میں
شامل کہانیوں کی زبان بڑی سلیس و رواں اور پیرایۂ بیان و اظہار بڑا دل چسپ
اور پُر اثر ہے۔ وقار صاحب نے بر یمہارت کے ساتھ ترجمے کا حق ادا کیا ہے۔
کہانی پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ شدہ کہانیاں نہیں بلکہ
اردو میں لکھی گئی کہانیاں ہیں۔ اس لحاظ سے وقار صاحب بچوں کے ادیب کہلانے
کا حق اپنے نام محفوظ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’تتلی رنگ‘‘ میں کہانیوں کے انتخاب میں بھی کافی توجہ مرکوز رکھی گئی ہے۔
بچوں کی عمر ، نفسیات اور پسند کا خیال رکھتے ہوئے کہانیاں منتخب کرکے اردو
کے طلبہ کے لیے کافی دلچسپی کاسامان پیداکیا گیا ہے۔ ان کہانیوں کے منظر ،
ماحول اور کردارایسے جانے پہچانے ہیں کہ اردو طلبہ و قارئین کو اجنبیت
کااحساس نہیں ہوتا۔ ان کہانیوں کے پلاٹ بچوں کی روزمرہ کی زندگی، سرگرمیوں
، مشاہدے ، تجربے اور سوچ سے گہرا تعلق رکھتی ہیں ۔ ہر کہانی میں اس بات کو
بھی کافی بہتر طریقے سے برتا گیا ہے کہ باضابطہ براہِ راست نصیحتوں کا
پٹارا نہ کھولا جائے بلکہ لطف اندوزی اور پُراسراریت کے ساتھ ساتھ سبق
آموز پہلووں کو اجاگر کیا جائے ۔’’تتلی رنگ‘‘ میں شامل کہانیوں میں علم کی
کھیتی، تتلی رنگ، عجب راجا کی غضب کہانی، لی سون کی بیوی، سچی خوشی، تربیت
کا پھل جیسی کہانیاں مجھے کافی پسند آئیں۔
مراٹھی زبان سے کہانیوں کو منتخب کرکے اردو طلبہ کے لیے شائع کردہ اس کتاب
میں بعض کہانیوں میں غیر اسلامی عقائد بھی آگئے ہیں ، جیسے تتلی رنگ کہانی
کے یہ جملے :’’ جب تم تتلی کا جنم لو گے تب میں تمہارے پر کاٹوں گی ، نہیں
بلکہ تمہارے پر ادھیڑوں گی۔‘‘ اہلِ ہنود کے پُنر جنم کے عقیدے کا اظہاریہ
ہے ، یہاں مترجم کو چاہیے تھا کہ اس پر ایک نوٹ لکھ دیتے کہ اسلام میں
دوسرے جنم یا کسی دوسری حیثیت میں جنم لینے کا کوئی مقام نہیں۔
مجموعی طور پر مراٹھی سے اردو کے قالب میں ڈھالی گئی ایسی دلچسپ اور خوب
صورت کہانیوں کا مجموعہ لائقِ تحسین ہے ۔ میں مترجم وقار صاحب اور ناشر
خیال انصاری صاحب دونوں ہی کو مبارک باد پیش کرتاہوں۔ |
|