سُپر کمپیوٹر کی دہشت پر ایک نظر
(Dr. Muhammed Husain Mushahid Razvi, Malegaon)
ایم مبین کی شناخت ایک افسانہ نگار کی
حیثیت سے معروف ہے۔ اردو کے نمایندہ رسائل و جرائد میں ان کے افسانے تواتر
سے پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ادبِ اطفال کے لیے ہندی اور اردو میں سائنس فکشن
لکھنے والوں میں موصوف خاصی اچھی اور عمدہ کوشش کرتے نظر آرہے ہیں۔ ’’زحل
کے قیدی‘ ‘ کی طرح ’’سُپر کمپیوٹرکی دہشت‘‘ سائنس فکشن سے دل چسپی رکھنے
والے بچّوں کے لیے ایک خوب صورت تحفہ ہے۔
سائنس داں اور موجدین نئی نئی مشینیں اور آلات انسانی دنیا کے آرام و
اطمینان کے لیے بناتے ہیں ۔ گویا سائنسی ایجادات ہماری زندگی کے لیے رحمت
کے روپ میں سامنے آتی ہیں۔ لیکن بعض تخریب کار ذہن کے حامل انسان ان
مشینوں کے ذریعہ دہشت کا سامان پیدا کرنے لگتے ہیں۔ اور زحمتوں کے اصل ذمہ
دار بن جاتے ہیں۔
’’سُپر کمپیوٹر کی دہشت‘‘میں ایک ایسے ہی شیطانی دماغ والے انسان کی کہانی
پیش کی گئی ہے۔ ۲۰۷۰ء میں ممبئی شہر کے ٹریفک کنٹرول کے نظام کو ایک سُپر
کمپیوٹر کی مدد سے چلایا جارہاتھا۔ جس کے تحت بسوں ، موٹر کاروں کے علاوہ
ریلوے، پانی کی جہازوں اور ہوائی جہازوں کے ٹریفک نظام کو کنٹرول کیا جارہا
تھا۔ سب کچھ اچھا چل رہاتھالیکن اچانک پے در پے ایسے خوف ناک اور بھیانک
حادثات ہونے لگے۔ جن کی وجہ سے ممبئی بے حساب جانی و مالی نقصانات سے دوچار
ہونے لگی۔
ایسے مصیبت بھرے ماحول میں کہانی کا ہیرو یعنی سُپر کمپیوٹر بنانے والی
کمیٹی کے رکن ڈاکٹر کبیر کا بیٹا انزل نمودار ہوتا ہے۔ جواپنی بے پناہ
ذہانت اور اعلیٰ صلاحیت و قابلیت سے سُپر کمپیوٹر میں غلط پروگرامنگ ڈالنے
والے سُپر کمپیوٹر کمیٹی کے ہی ایک ذمہ دار فرد ڈاکٹر پال کی شیطانی
کارکردگی کا پتا لگا کر اسے ختم کرنے میں کامیابی حاصل کرلیتا ہے۔
جب ڈاکٹر پال کی غدّاری اور تخریبی سرگرمیاں معلوم ہوتی ہیں تو ڈاکٹر کبیر
بھی حیرت میں پڑ جاتے ہیں اور کہتے ہیں: ’’ ہم تو یقین بھی نہیں کرسکتے کہ
کبھی ڈاکٹر پال جیسا آدمی بھی یہ سب کرے گا۔‘‘
ڈاکٹر پال کی وجہ سے نہ صرف ممبئی بل کہ پورا ملک دہل اٹھتا ہے ۔ وہ دولت
کے نشے میں اندھا ہوکر یہ سب حرکتیں کرتا ہے۔ کسی ایک شخص کے دماغ میں آئی
چھوٹٰ سی خرافات کس طرح سارے ملک اور دنیا کے لیے خطرہ بن جاتی ہے ۔ ڈاکٹر
پال کی شخصیت اُس کی ایک زندہ مثال بن گئی تھی۔ لیکن جیت ہمیشہ سچائی کی
ہوتی ہے ۔ سو انزل کی کوششوں سے ڈاکٹر پال کے ہاتھوں کچھ بھی نہ لگا سواے
جیل کی کال کوٹھری کے۔
ایم مبین صاحب اسی طرح بچوں کے لیے دل چسپ سائنس فکشن لکھتے رہیں اسی نیک
خواہش کے ساتھ ایک مشورہ دینا مناسب سمجھتا ہوں کہ وہ کہانی کے ساتھ ساتھ
زبان و بیان اور قواعد کی صحت کی طرف بھی اپنی توجہ مرکوز رکھیں۔ اِس ناول
میں کئی مقامات پر یہ زبان و قواعد کی خامیاں راہ پاگئی ہیں۔ صفحہ ۴۱ پر تو
’’انزل‘‘ - ’’راجو‘‘ بن گیا ہے : ’’لیکن میری یہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے
ڈیڈی! اگر پیسہ ملنے کے بعد ڈاکٹر پال چاہتا کہ یہ واقعات نہ ہو تو وہ کیا
کرتا؟‘‘ راجو نے پوچھا۔۔‘‘
تجسس سے پُر ، دل چسپ اور ذہانت کو کھولنے والا یہ ناول پڑھنے سے تعلق
رکھتا ہے۔ ۵۶؍ صفحات کا یہ سائنس فکشن ۲۵؍ روپے میں ادبِ اطفال کے عظیم
اشاعتی مرکز رحمانی پبلی کیشنز ، مالیگاؤں سے بہ آسانی حاصل کیا جاسکتا
ہے۔ |
|