میاں نواز شریف اور سیاسی غلطیاں ۔۔ ۔!

یہ 1990کی بات ہے جب آئی جے آئی (اسلامی جمہوری اتحاد )سے میاں نواز شریف 105نشستوں کیساتھ ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے اس وقت کے صدر غلا م اسحاق خان تھے اور اپوزیشن کا کردار محترمہ بے نظیر بھٹو ادا کر رہی تھیں اس دور میں میاں نواز شریف کو سخت اپوزیشن کا سامنا تھا جس کا بھرپور فائدہ پی پی پی کی جانب سے بھی اٹھایا گیا جس طرح موجودہ حالات میں ممکن ہے ڈاکٹر عاصم کیس میں اٹھایا جائے بالکل اسی طرح تب بھی سابق صدر آصف علی زرداری پر قائم مقدمات کو ختم کروایا گیایہ نورا کشتی زیادہ دیر تک نہ چل پائی اور اپوزیشن کی جانب سے بڑھتے ہوئے دباؤ کی بدولت صد ر غلام اسحاق خاں نے 18اپریل 1993کوآٹھویں ترمیم کا بھرپور استعما ل کرتے ہوئے قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیا تاہم تین ہفتوں تک عدالت میں کیس چلتا رہا جس کے بعد 11ججوں کی بینچ میں سے 10ججوں نے فیصلہ میاں نواز شریف کے حق میں دیا اور ان کی حکومت کو بحال کر دیا لیکن اپوزیشن مقررہ مدت سے پہلے انتخابات کا فیصلہ کر چکی تھی جس کے باعث دباؤ بڑھتا گیا اور میاں نواز شریف اس شرط پر اپنی قربانی دینے کو تیار ہوئے کہ میرے ساتھ صدر غلام اسحاق بھی استعفیٰ دیں دونوں کی جانب سے استعفیٰ کے بعد نگران حکومت قائم کر دی گئی میاں نواز شریف کی خواہش کے مطابق معین قریشی کو نگران وزیر اعظم بنایا گیا اور ان کی نگرانی میں انتخابات کرائے گئے جس میں محترمہ بے نظر بھٹو کامیاب ہوئیں جس کے بعد میاں نواز شریف نے اپنے ہی پسندیدہ نگران وزیر اعظم پر دھاندلی کا الزام عائد کر دیا۔

تاریخ بیان کرنے کا مقصد پس منظر بنانا تھا کہ تاریخ دہرائی بھی جا سکتی ہے موجودہ حالات کو دقیق نظر ی سے دیکھا جائے تو مشابہت ضرور ملتی ہے سیاسنے کہتے ہیں غلطی کچھ نہیں کہتی غلطیوں پر اصرار انسان کو تباہ کرتا ہے ہ۔یہاں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ حکومت گرانے کی سازش میاں نواز شریف کے خلاف ہی کیوں ہوتی ہے ؟ اس کے اس کے محرکات کیا ہیں کیا ماضی کی غلطیوں کو دہرایا جاتا ہے ؟

اورموجودہ چند دنوں کی سیاسی صورتحال میں پہلی غلطی شیخ رشید کے خلاف محاز کھولناہے شاید میاں صاحب بھول چکے ہیں کہ ماضی میں جب محترمہ بے نظر بھٹو کی حکومت میں شیخ رشید صاحب ان کے سیاسی ساتھی تھے تب لال حویلی سے کلاشنکوف کے کیس میں ان پر مقدمات چلائے گئے تھے جس پر میاں صاحب ان کی تصاویر والے پوسٹر اٹھا کر جلسہ فرمایا کرتے تھے آج خود وہی غلطی کر بیٹھے ۔اور شیخ صاحب کی مردہ سیاست کو پھر سے زندہ کر دیا اور انہیں ایک سٹوڈنٹ لیڈر کی شکل میں دوبار ہ رنگ جمانے کا موقع فراہم کیا ۔

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 2نومبر کو اسلام آباد بندکرنے کا اعلان کیا تھا حکومت نے 2نومبر سے پہلے بڑے بڑے کنٹینرز کھڑے کرکے خود بند کر دیا دوسری غلطی احتجاجی تحریکیں اور مسلم لیگ ن کی جانب سے بھی چلائی جاتی رہی ہیں کیا مسلم لیگ ن کے رہنما یہ بھول گئے ہیں کہ ان لیگ کی جانب سے ہی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی عدالت پر حملہ کیا گیا جس پر انہیں عدالت چھوڑ کر بھاگنا پڑا ـ :
یاد ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

جس کے باعث میاں منیر، طارق عزیز، اختر رسول پر تاحیات پابندی عائد ہوئی ۔کیا اس سے بڑا کوئی پر تشدد احتجاج ہو گا ؟ جس میں ملک کے سب سے معتبر ادارے پر ہلہ بول دیا جائے ؟

اس وقت میاں نواز شریف کو مشیروں کی جانب سے جو مشورے دیے جارہے ہیں وہ ان کی حکومت کی صحت کے لئے مفید نہیں ہیں احتجاجی تحریکوں کو پرتشدد بنا کر وقت سے پہلے کامیابی سونپنے کے مترادف ہیں اور ان پر عمل کرنا میاں صاحب کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے دوسری جانب یہ بھی تاثر پایا جا تا ہے کہ حکومت کو عمران خان کا ڈر نہیں ہوتا دھرنوں کے دوران ڈر فوج کی جانب سے ہوتا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ دانشوری کا مظاہرہ کرکے اس پریشر اور ڈر کی فضا کو ختم کرتے ہیں یا اس کا اثر خود پر حاوی کرکے سیاسی شہادت پاتے ہیں ۔!
Ali Raza shaAf
About the Author: Ali Raza shaAf Read More Articles by Ali Raza shaAf: 29 Articles with 27139 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.