اکھلیش اور یش پال کے درمیان مہابھارت کا
شنکھ مختار انصاری کے قومی ایکتا دل کو ایس پی میں ضم کئے جانے کے بعد
پھونکا گیا۔ اکھلیش نے یش پال کے اس فیصلے کی یہ کہہ کر مخالفت کی کہ مختار
کا شمار اترپردیش کے دبنگ سیاستدانوں میں ہوتاہے۔ عوام کا خیال تو یہ ہے کہ
ایس پی کاانتخابی نشان اگر سائیکل نہ ہوتا تو لاٹھی ہوتا ۔ جس قدر غنڈے
بدمعاش اس پارٹی میں ہیں شاید ہی کسی اورجماعت میں ہوں اس کے باوجود اکھلیش
کے ذریعہ مختار انصاری کی مخالفت دراصل یش پال کے خلاف دھرم یدھ تھا۔ اس کے
بعد ملائم کے یار امرسنگھ کی پارٹی میں آمد کو لے کر امرپریم کی داستان ِ
الف لیلیٰ کچھ ایسے شروع ہوئی ہے کہ کمبخت شیطان کی آنتختم ہی نہیں ہوتی ۔
اس مہابھارت کو دلچسپ بنانے کیلئے اس میں رامائن کو بھی شامل کردیا گیا ۔
پہلے تو یہ خبر آئی کہ اکھلیش کی سوتیلی ماں سادھنا اور بیوی ڈمپل میں کچھ
کہا سنی ہوگئی اور پھر یہ ساس بہو کی توتو میں میں سےایک ریاست گیر سیاسی
زلزلہ آگیا ۔ اس کے بعد منظرنامہ لکھنے والوں نے ایک کہانی میں یہ ٹوِسٹ
دیا کہ سوتیلی ماں اکھلیش یادو کو رام کی مانند بن باس پر بھیج کر اپنے
بیٹے پرتیک کو سنگھاسن پر بٹھانا چاہتی ہیں ۔ کل یگ میں تو یہ نہیں ممکن
نہیں ہےکہ رام کے کھڑاوں تخت پر رکھ کربھرت کی طرح کوئی ۱۴ سال راج کرے اور
پھر شرافت سے اقتدار اپنے سوتیلے بھائی کوسونپ دے ۔ آج کا بھرت تو راون سے
مل کر اپنے بھائی کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے میں بھی نہیں ہچکچائے گا۔
یہ خبربھی آئی ہے کہ سوتیلی ماں سادھنا نے اپنے سالے شیوپال سے مل کر
اکھلیش پر کالا جادو کردیا ہے ۔ اس کے بعدکسی تانترک نے انکشاف کیا کہ چچا
شیوپال نے انکل امرسنگھ نے مل کر اکھلیش کے خلاف پوجا اور ہون کروایا۔
امرسنگھ بھی اے کے ہنگل کی طرح نہایت جذباتی انٹرویو دیتے پھر رہے ہیں ۔
اکھلیش کو اپنے احسانات یاد دلاتے ہوئے کہتے ہیں جب سارا خاندان ان کی شادی
کے خلاف تھا تو وہ اس کے حامی تھے اگر وہ دلال ہیں تو ان کی شادی کی البم
میں ہر تصویر کے اندر وہ موجود کیوں ہیں؟ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اگر
اس شاہجہاں اور اورنگ زیب کی جنگ میں میری بلی سے صلح ہوجاتی ہے تو میرا
بلیدان کردو۔ چونکہ یہ فیملی ڈرامہ ہے اس لئے اس میں کبھی کردار چیختے
چلاتے ہیں تو کبھی روتے دھوتے ہیں لیکن کوئی کسی پر ہاتھ نہیں اٹھاتا ۔
ناظرین کیلئے سماجوادی پارٹی کا تنازع اب چبائے ہوئے بدذائقہ چیونگم کی طرح
ہوگیا جو باٹا کے جوتے کی مانند گھستا توجاتا ہے مگر پھٹنے کا نام نہیں
لیتا۔ گھسے پٹےساز کا یہ بےسرا نغمہ اب رائے دہندگان کی سماعت پر بار بن
چکا ہے اور اگر یہ تارجلد نہ ٹوٹے تو ان کا دماغ پھٹ جائے گے ۔
اس درمیان عمرو عیار کے طلسمی زنبیل سے ایک خبر یہ بھی نکل کر آئی کہ یہ
ناٹک ایک مہاگٹھ بندھن کی تیاری ہے۔ اتر پردیش میں مہاگٹھ بندھن کے سب سے
بڑے دشمن ڈاکٹر رام گوپال یادو کو پارٹی سے نکالا جاچکا ہے۔ اب اکھلیش ایک
نئی پارٹی بناکر اپنی بوا مایاوتی کے ساتھ الحاق کرنے والے ہیں ۔ کانگریس
ویسے ہی اکھلیش کی ہمنوا ہے اس لئے اسے شامل ہونے میں کوئی اعتراض نہیں
ہوگا اس طرح بہار جیسی صورتحال اتر پردیش میں بھی بن جائیگی ۔ اس خبر کی
تصدیق خود شیوپال یادو نے کی اوراپنے بچوں کی قسم کھا کر اورگنگا جل کو
ہاتھ میں لےکر یہ کہنے کی پیشکش کی کہ جب وہ وزیراعلیٰ سے ملنے کیلئے گئے
تو انہوں نے نئی پارٹی بناکر کسی جماعت کے ساتھ انتخاب لڑنے کی بات کہی۔
شیوپال کی تقریر کے دوران شور مچانے والے کارکنان سے ملائم نے ڈانٹ کر کہا
چاپلوسی کے سوا کچھ نہیں آتا ۔ اس کے باوجود وزیرمواصلات گایتری پرجاپتی
بولے ملائم سنگھ بھگوان شنکر میں (ان کی سواری) نندی بیل اور سی ایم گنیش
جی ہیں ۔ میں ان کی ساری باتیں مانوں گا نیتاجی کے بتائے ہوئے راستے پر
چلوں گا چچا بھتیجے میں کوئی لڑائی نہیں ہے۔ جس جماعت میں ایسے نابینا ابن
الوقت لوگ بھرے پڑے ہوں تو ان سے عوام فلاح و بہبود کی توقع کیسے کرسکتے
ہیں؟
ہمارے ملک کی سیاست جس طرح معیشت پر انحصار کرتی ہے اسی طرح معیشت میں بھی
خوب سیاست کھیلی جاتی ہے۔ ٹاٹا گروپ ۱۴۸ سال پرانا ہے اس کےسابق سربراہ رتن
ٹاٹا نے ۲۳ اکتوبر کو کہا کہ عدم روادار ی ایک ناسور ہے اور سب جانتے ہیں
کہ یہ کدھر سے آرہی ہے ؟ رتن ٹاٹا کے ان الفاظ کو سنتے ہوئے کسی کو اندازہ
نہیں تھا کہ یہ عدم رواداری کا زہر خود ان کے اندر کس حدتک سرائیت کرچکا
ہے۔ دوسرے دن ٹاٹا سنس کے بورڈ آف ڈائرکٹرس کی میٹنگ ہوئی جس کے اندر ۸
میں ۶ ارکان نے شرکت کی اور اپنے چیرمین سائرس مستری کو برخواست کردیا ۔ ۴۸
سالہ سائرس مستری کو چار سال قبل نوعمر اکھلیش یادو کی مانند دریافت کرکے
سربراہ بنادیا گیا تھا اور پھر چانک انہیں ہٹا کر ۷۸ سالہ رتن ٹاٹا کو ۳
ماہ کیلئے کارگذار اقتدار سونپ دیا گیا ۔ تین سال کی تلاش کے بعد چیرمین
بننے والے سائرس کو ہٹانے میں ۳ منٹ بھی نہیں لگے۔
اس میں شک نہیں کہ اس عرصے میں سائرس نے ٹاٹا گروپ کے املاک کو دوگنا کردیا
لیکن ان پر کئی سنگین قسم کے الزامات لگا کر بے آبرو کیا گیا اور پھر گھر
کا راستہ دکھایا گیا جو بالکل سڑک چھاپ سیاست کا سا عمل تھا۔ ان الزامات
میں سے ایک تو یہ ہے وہ صرف منافع کمانے والے اداروں پر توجہ دیتے ہیں یہ
تو بالکل فطری امر ہے۔ان کے دور میں ٹاٹا کمپنی کوکئی مقامات پرجرمانہ
بھرنا پڑا جس میں خاص طور امریکہ میں لگنے والا ہرجانہ شامل ہےلیکن اس میں
کون سی نئی بات ہے۔ دودھ کا دھلا تو کوئی نہیں ہے اور جب کسی ادارے سے
کوتاہی سرزد ہوتی ہے تو اسے سزا بھگتنی ہی پڑتی ہے ۔ٹاٹا گروپ کی۲۷ میں سے
۹کمپنی نقصان میں ہیں لیکن ۱۸ فائدے میں بھی تو ہیں۔ وہ سرمایہ کاروں کے
ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے ۔ سوال یہ ہے کہ کون سرمایہ دار ایساکرتا ہے؟ اور
کیوں کرے؟اوروہ سیکھتے رہتے ہیں یہ تو خوبی ہے ۔اچھاانسان لحد سے مہد تک تک
طالب علم ہوتا ہے۔
سائرس مستری پریہ الزام بھی ہے کہ وہ کمپنی کاڈھانچہ درست نہیں کرسکے، ان
میں قوت فیصلہ کی کمی ہے اوران کے پاس ترقی وتوسیع کا واضح منصوبہ موجود
نہیں ہے وغیرہ ۔ مستری نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عدالت کا رخ
کیا ہے۔ انہوں نے بورڈ کو ای میل لکھ کر اپنے اوپر لگائے جانے والے ہر
الزام سے انکار کیا ہے۔ دستور کے لحاظ سے انہیں جو ۱۵ دنوں کا نوٹس ملنا
چاہئے تھا اس کے نہ ملنے پر اعتراض کیا ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ کمپنی کا
جوناقص ڈھانچہ انہیں وراثت میں ملا اسے وہ مجبوراً ڈھوتے رہے کیونکہ اصلاح
کی حوصلہ شکنی کی گئی ۔ ان کو پوری آزادی کے ساتھ کام کرنے کی یقین دہانی
کی گئی تھی لیکن ضابطہ میں تبدیلی کرکے اس پر قدغن لگائی گئی اور ان کے
اختیارات کو سلب کرکے رتن ٹاٹا کو سونپے گئے نیز ان کو ایک کٹھ پتلی سربراہ
بنادیا گیا ۔جس کو اپنی مرضی سے فیصلے کرنے کا اختیار ہی نہ ہو اس پر قوت
فیصلہ میں کمی کا الزام بے معنیٰ ہے۔ جہاں تک منصوبہ بندی کا سوال ہے وہ
۲۰۲۵ تک کا منصوبہ بورڈ کے حوالے کرچکے ہیں اب اگر ارکان بورڈ اسے قبلِ
التفات نہ سمجھیں تو اس میں ان کیا قصور؟
ملائم سنگھ یادو ، بالا صاحب ٹھاکرے، اندرا گاندھی ،اروند کیجریوال ،
نریندر مودی اور رتن ٹاٹا سب کا مسئلہ اپنے فیملی بزنس کا تحفظ ہے ۔ عام
آدمی پارٹی کو بنانے اور چلانے میں جس قدر محنت اروند کیجریوال نے کی تھی
اس سے کم مشقت یوگیندر یادو اور پرشانت بھوشن نے نہیں اٹھائی تھی لیکن جس
طرح ان دونوں کو ذلیل کرکے پارٹی سے نکالا گیا ویسا ہی سلوک سائرس مستری کے
ساتھ ہوا۔ رتن اور اروند جیسے اصول پسند سمجھے جانے والے لوگوں نےسارے اصول
و ضابطے پامال کئے۔یہ سب بال بچے والے لوگ ہیں اس لئے اقتدار کے ہاتھ آتے
ہی اقرباء بروری میں لگ جاتے ہیں آرایس ایس نے اس کا یہ حل نکالاکہ اپنے
پرچارکوں پر برہماچاریہ کا قانون نافذ کردیا ۔ سنگھ کے کئی پرچارکوں نے اس
اصول پر عملدرآمد کرنے سے انکار کردیا مثلاً اڈوانی جی نے شادی رچا لی
لیکن کچھ نے اپنی دھرم پتنی کو تیاگ دیا جیسے نریندر مودی ۔ سنگھ کو امید
تھی ان جیسے لوگ اقتدار میں آنے کے بعد سنگھ پریوار کا خیال رکھیں گے لیکن
وہ حربہ بھی کا میاب نہیں ہوسکا۔
اپنے آپ کو راشٹر سیوک یاسنگھ سیوک کہنے والے نریندر مودی نے بھی سب سے
پہلے اپنے محسن لال کرشن اڈوانی کو رسوا کرکے سیاسی بن باس پر بھیج
دیااورگجرات سے آنے والے قتل کے ملزم امیت شاہ کو پارٹی کی کمان سونپ دی
۔وزیر خزانہ بنانے کیلئے انہیں ناگپور میں کوئی نہیں ملا توگجرات سے راجیہ
سبھا رکن ارون جیٹلی کو بنادیا ۔پہلےگجرات کی ناتجربہ کارسمرتی ایرانی کو
انسانی وسائل کی وزارت سے نوازہ اور اب ریزرو بنک کی سربراہی کیلئے بھی ۹۰
سالہ سنگھ پریوار بنجر نظر آیا تو اپنے گجرات کےارجت پٹیل کا انتخاب کیا۔
ہر اہم عہدے کیلئے گجرات نےناگپور پر فوقیت پائی ۔اس عدم اعتماد کی جڑیں
اقتدار کے تحفظ میں پیوست جو اولاد سے اپنے لئے ہوتاہے ۔ ٹاٹا گروپ میں بھی
یہی ہوا کہ اس کی تاریخ میں دوسری بار ٹاٹا خاندان کے باہرکے کسی فرد کو
مسند نشین کیا گیا اور ذلیل کرکے ہٹا دیا گیا۔ سیاست اور معیشت کی دنیا
کےان دل والوں کی رنگین مشکل فلم والے کرن جوہر سےسنگین ہے۔ |