کوئی بھی صحافی اس وقت تک عزت نہیں کما
سکتا اور حقیقی معنوں میں اچھا اور سچا صحافی اس وقت تک رہے گا جب تک وہ
اپنے قلم کو با اثر ترین افراد ، طبقوں ، اہل اقتدار اور رشتوں ناطوں کے
زیر اثر نہیں آنے دیتا ، اس کا حصول صرف سچ ہوتا ، جسے پیش کرنے میں وہ
بالکل نہیں ہچکچاتا ، جس دن صحافء مصلحت کا شکار ہوکر اپنے قلم کا سودا
کربیٹھتا ہے اسی دن اس کی حقیقی صحافت کی زندگی کا مآخری دن ہوتا ہے پھر
قلم تو چلتا ہے ، لیکن صحافی مرچکا ہوتا ہے۔ آخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا ،
حوثی باغیوں کے ناپاک ارادے سرزمین حجاز پر میزائیل داغنے سے عیاں ہوگئے۔
مکہ المکرمہ پر حوثی باغیوں نے ایک بار پھر دور اسلام کی تلخ تاریخ یاد
کرادی ۔تاریخ اسلام میں ایک ایسے فرقے کا ذکر ملتا ہے جو حضرت محمد بن
الحنفیہ کو نعوذ باﷲ رسول مانتا تھا ، اس فرقے کے لوگ صبح و شام دو وقت کی
نماز پڑھتے تھے اور سال میں دو دن کے روزے رکھتے تھے ، انھوں نے اپنا قبلہ
کعبہ کے بجائے بیت المقدس کو قرار دے رکھا تھا ، اس فرقہ کو قرامطہ کہا
جاتا ہے ، ایک زمانے میں ان کا اثر اس قدر بڑھ گیا تھا کہ حاجیوں کے ساتھ
مارپیٹ کرکے ان کا سامان لوٹ لیتے تھے انھوں نے کعبہ کے اندر حاجیوں کو قتل
کرکے ان کی لاشیں زمزم کے کنواں میں ڈال دیں اور کعبہ کی عمارت کو توڑ ڈالا
، اس کے سردار طاہر نے حجر اسود کو گرز مار کرتوڑ ڈالا اور یمن لے گیا جہاں
اس کی حکومت قائم ہوگئی تھی ۔ وہ یہ بھی اعلان کرتا گیا کہ آئندہ حج مکہ
میں نہیں یمن میں ہوا کرے گا ، بیس سال تک حجر اسود کعبہ سے دور رہا ، یہ
واقعہ 318ھ کا ہے جبکہ بنو عباس کی خلافت کا زمانہ تھا اور مقتدر باﷲ خلیفہ
تھا ، اسی کے ساتھ مصر میں فاطمی سلطنت کا بھی آغاز ہوچکا تھا۔
یہ سب اس وقت ہوا جب پوری دنیا میں مسلمانوں کی طاقت کا لوہا مانا جاتا تھا
، مسلمان ساری دنیا میں طاقت ور قوم سمجھے جاتے تھے اور ان کے نام سے
قیصران کانپ اٹھتے تھے ، ٹھیک اسی وقت مکہ و مدینہ کے تقدس کی حرمت کو
پامال کیا گیااور بردار کشی کی ایسی تاریخ رقم کی آج تک مسلمان اپنی اس
ذلالت کو بھلائے نہیں بھول سکتے ، کلمہ اسلام پڑھنے والوں اور ایک اﷲ و ایک
رسول ﷺ کا نام لینے والوں نے ہی ایسی حرکات کا ارتکاب کیا جس کے تصور سے
کافر افرنگ بھی کانپ اٹھے ، ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس
طرح رسول اکرم ﷺ کی پیدائش سے ایک سال قبل یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر
حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہا تو ابابیلوں نے حفاظت کی ، تو
آج بھی ابابیل ہی حفاظت کریں گی ۔ہاتھیوں کی عظیم فوج کو نازک سی چڑیوں نے
اپنی چونچ میں کنکریاں سے ہاتھی والی فوجیوں کو مار گرایا۔قرآن کریم میں یہ
واقعہ سورۃ فیل میں موجود ہے۔لیکن اس کے بعد جب دنیا پر مسلمانوں کا غلبہ
ہوا اور اسلام کے نام لیواؤں نے اسلام کے نام پر حجاز مقدس میں بربریت کی
تاریخ رقم کی تو کسی بھی مسلم حکومت یا کروڑوں مسلمانوں نے اس واقعے پر
جابر حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند نہیں کیا۔کس قدر اتفاق کی بات ہے کہ
خانہ کعبہ پر ہاتھی کی فوج لیکر حملہ آور ہونے براہہ کا تعلق بھی یمن سے
تھا ، اور قرامطہ کا تعلق بھی یمن سے تھا ، دونوں خانہ کعبہ کی حرمت اور اس
کے تقدس سے حسد کرتے تھے اور چاہتے تھے کہ کعبہ کا تقدس ختم ہوجائے ۔بیس
سال تک حجر اسود یمن میں رہا لیکن کسی بھی مسلم ملک نے حجر اسود کو واپس
لانے کیلئے کوئی عمل نہیں کیا۔اب دوبارہ یمن میں ایک حوثی باغیوں کی بغاوت
نے سر اٹھایا ہے ، داعش بھی حجاز مقدس تک رسائی چاہتا ہے اور اس کے ارادے
بھی وہی ہیں کہ جس طرح مقدس اسلامی استعاروں کی بے حرمتی کی اسلام کے نام
پر حجاز مقدس میں اپنا مذموم ارادہ کامیاب کرے ۔آج اس جدید ترین دور میں
پھر وہی صورتحال ہے ۔ بیت اﷲ کی حرمت کو پامال کرنے کی کوشش کی گئی ۔حوثی
باغیوں میں اتنا دم خم کہاں سے آسکتا ہے ۔ بد قسمتی دشمنان اسلام اپنی
صدیوں کی سلطنت و آتش کدے کو ختم ہونے کا غم نہیں بھلا سکیں ہیں۔ آج بھی
سینکڑوں سے سال سے جلنے والی آگ ان کے دلوں میں حسد اور رقابت بن کر جل رہی
ہے ۔ یہ آگ اب تک نہیں بجھ سکی ، اس لئے تو قرآن کریم نے جب اہل ایمان کو
کہا کہ ابھی ایمان تمھارے دلوں میں نہیں اترا ، تو یہود و نصاری کے ساتھ
مسلمانوں کو بھی کہا کہ جب تک تم مومن نہیں بن سکتے ، تب تک ایمان تمھارے
دلوں میں داخل نہ ہوجائے ، لیکن آل سعود کی دشمنی کی آڑ میں یہ مہر زدہ دل
اسلام کے خلاف اپنے ابلیست کی آگ کو بجھانے کی ناکام سعی کر رہے ہیں ۔گذشتہ
دنوں خبر آئی کہ یمن اسلحہ کے جانے والے 4ایرانی جہاز امریکہ نے پکڑ لئے
۔امریکی بحریہ کے ایک ایڈمرل نے انکشاف کیا کہ اپریل2015کے بعد امریکا اور
اس کی اتحادی ممالک کی بحری فورسز نے ایران سے جنگ زدہ یمن کیلئے بھیجے گئے
اسلحے کے چار جہاز پکڑے ہیں ، ایران نے تو اس کی تردید کردی ہے ۔اس کو
جھوٹا بیان قرار دیا ہے ، لیکن یہی ایران اس قبل جب شام میں پاکستان ،
افغانستان سے جنگجو بھرتی کرکے مسلمانوں کے قاتل عظیم بشار الاسدکی حفاظت
کیلئے بھیج رہے تھے ، تو انکار کرتا رہا تھا کہ ہمارے کوئی جنگجو شام میں
نہیں ہے ۔ پھر شام میں ان کے فوجیوں کی لاشیں ایران واپس آنے لگیں ، اور
انھیں اعزاز کے ساتھ دفنایا جانے لگا ، تو ایرانی کھیل آہستہ آہستہ آشکارہ
ہوتا چلا گیا ، اس کے مختلف عسکری قائدین سمیت پاسداران انقلاب نے اقرار
کرلیا کہ شام ، جنگجو جاتے ہیں ، آخر کار ایرانی پارلیمنٹ نے قانون منظور
کرلیا کہ جو غیر ملکی ایران کے کہنے پر شام ، عراق ،وغیرہ جاتے ہیں ، ان کے
خاندان کو شہریت بھی دی جائے گی اگر وہ جنگجو ہلاک ہوگیا تو اس کے خاندان
کی ساری زندگی کفالت بھی کی جائے گی ۔ اس کے بات کسی شک و شبے کی کوئی
گنجائش اس وقت نہیں رہی ، جب ایران نے کہا کہ ہم تین داراخلافہ کے انتظامات
دیکھ رہے ہیں ، پھر شام کے مسئلے پر کہا کہ شام کا مسئلے کا حل ایران طے
کریگا ۔ مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگیاں کوئی نئی بات نہیں ہے ، مسلک ،
فرقے کی بنیاد پر اسلام کی خلافت راشدہ کے دور سے ہی ایسا چلا آرہا ہے ،
یزید بن معاویہ نے اپنے عہد حکومت میں اﷲ کے مقدس گھر کعبہ پر منجنیقوں سے
پتھروں کی بارش کی جس سے کعبہ کی دیواریں مخدوش ہوگئیں ،روئی اور گندھک کے
بڑے بڑے گولوں میں آگ لگا کر بیت اﷲ میں پھینکے گئے ، اس حرکت کی وجہ سے
خلاف کعبہ میں آگ لگ گئی، کعبہ کی دیواریں جل کر سیاہ اور شکستہ ہوگئیں اور
چھت گر گئی۔ یہ واقعہ 64ء ھجری کا ہے۔عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالی عنہ نے
کعبہ کی دوبارہ تعمیر کرائی۔ ،بنو امیہ کے عہد میں خانہ کعبہ پر دوبارہ
حملہ کیا گیا جس سے نہ صرف کعبہ کو نقصان پہنچایا گیا بلکہ حدود حرم میں
بھی قتل و غارت گری کی گئی۔72ھجری میں جب حجاز مقدس میں عبد اﷲ بن زبیر رضی
اﷲ تعالی کی حکومت تھی ایک لشکر حجاج بن یوسف کی قیادت میں مکہ میں حملہ
آور ہوا، سنگ باری کی گئی جس سے کعبہ کی چھت گر گئی۔ عبد اﷲ بن زبیر رضی اﷲ
تعالی اور ان کے ساتھی شہید ہوئے ، ایک روایت کے مطابق عبد اﷲ بن زبیر رضی
اﷲ تعالی کا سر کاٹ کر کعبہ کے پر نالے میں لٹکا دیا گیا اور لاش کو سولی
پر لٹکا دیا۔ یہ شہادت کا واقعہ 73ھ میں پیش آیا۔یمن کے شیطان کی وجہ سے
بیس سال حجر اسود کعبۃ اﷲ سے دور رہا ۔ آج پھر بیت اﷲ پر میزائیل داغا گیا
۔ میزائیلوں کو ابابیلوں نے روک لیا ، لیکن یہ تمام مسلم امہ رجیم کے خلاف
خاموش کیوں ہے ۔ پاکستان واحد ملک ہے جہاں مسلم امہ کو دنیا بھر پیش آنے
والے واقعات پر آواز اٹھانے کا اعزاز و سعادت حاصل ہے ، لیکن قلم سے لکھنے
والے صحافی، اس پر خاموش ہیں ، ہمارے سیاست دانوں نے پاکستان کے مسلمانوں
کو الجھا دیا ہے ، اقتدار کی ہوس میں ڈوبے سیاست دان ،بیت اﷲ کو بھی بھول
بیٹھے ہیں ۔ کیا یہی امت مسلمہ کا فرض ہے جو نبھایا جارہا ہے۔؟ |