’’نہ میں پہلا ہوں نہ آخری‘‘یہ الفاظ اس
دکھی باپ طاہر خان کے ہیں جس کا تین دن کا شیر خوار بچہ شیلنگ سے پیدا
زہریلی گیس میں دم گھٹنے سے فوت ہو گیا ۔یہ شخص اتنی گہری بات کر گیا کہ
اگر کوئی سیاستدان یا دانشور کہتا تو سنہری حروف بن جاتے ۔اس کی گہرائی
سمجھی جائے تو یوں کہنا بھی غلط نہ ہو گا کہ یہ کوئی پہلا بچہ نہیں جو
سیاست کے چکر میں کرسی کی جنگ میں جان سے گیا ۔پتہ نہیں کتنی ماؤں کے لعل
ایسے وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے قربان ہوئے ،کتنے ہی سیاسی کش مکش کی
بھینٹ چڑھے اور کتنے ہی اور چڑھیں گے ،کیا آئندہ بھی یہ لوگ ایسا ہی کرتے
رہیں گے؟وہ تو ایک عام آدمی ہے جس کیلئے اسکا مذہب صرف اسکے ماں باپ اور
بیوی بچوں کا پیٹ پالنا اور اپنے بھوکے پیٹ کی آگ کو بجھانا ہے اسکی بلا سے
چاہے حکمران عمران خان ہو یا نواز شریف کوئی فوجی ہو یا کوئی ملاّ سبھی ایک
آنکھ میں نظر آتے ہیں ۔اس کے مزید الفاظ یہ تھے کہ وہ اپنے بچے کی موت کا
کسی کو الزام نہیں دیتا نہ پی ٹی آئی کو نہ شیخ رشید کو اور نہ ہی حکومت کو
لیکن بروز قیامت میں اپنے بچے کے قاتلوں کو گریبان سے ضرور پکڑوں گا ۔تاریخ
گوا ہ ہے کہ جب کسی کے ساتھ ظلم ہو اور وہ اتنی بساط نہ رکھتا ہو کہ ظالم و
جابر حکمران سے بدلہ لے سکے اور فیصلہ اﷲ تعالیٰ پر چھوڑ دے تو سبھی جانتے
ہیں کہ اﷲ تعالیٰ بہتر حکمت والا ہے ۔جب بھی کسی انسان نے انسانیت کے دائرہ
کو پامال کر کے خدائیت کا دعویٰ کیااور تکبر جیسے گنا ہ کبیرہ کا مرتکب ہو
اور ظلم و بربریت کی انتہا کی تو قدرت نے اسے آڑے ہاتھوں لے کر دنیا کیلئے
عبرت کا نشان بنا دیا ۔نمرود نے جب خدائیت کا دعویٰ کیا تو اﷲ تعالیٰ نے
ایک مچھر جیسے حقیر جانور کو اس کے دماغ میں بھیج کر اس طرح جان قبض کی کہ
پوری دنیا عبرت پکڑتی ہے ۔فرعون اتنی بڑی فوج کا مالک تھا لیکن بغیر تلوار
چلے اور قربانی دئیے ایک دریا میں ساری فوج کو غرق کر دیا صرف فرعون کی لاش
کو باہر پھینک دیا جو آج بھی ہمارے لئے عبرت کا نشان ہے ۔بڑائی ،بزرگی اور
سارے جہانوں کی تمام تعریفیں اﷲ تعالیٰ کیلئے ہی ہیں جس نے ہمیں خلق کیا
اور پھر زمین میں اپنا نائب مقرر کیا لیکن ہم اس کے راستے سے یوں منحرف
ہوئے کہ دولت اور طاقت کے نشے میں چور تکبر و بربریت کا نشان بن گئے ہیں
۔وہ جس کو چاہتا ہے بادشاہ بنا دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے گدا رکھتا ہے سب
اسی کے ہاتھ میں ہے ہمیں اس کے حضور توبہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ آج ہمارے
پاس موقع ہے ۔عراق کے حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں وہا ں پر حالات میں بگاڑ
کچھ اس طرح سے آئی کہ کچھ معصوم بچوں نے دیوار پر ایک لفظ لکھا تھا جس کا
مطلب حریت کا تھا تو وہاں کی حکومت نے ان بچوں کو پکڑ کر ان کی انگلیاں کاٹ
دیں جس کے بعد لوگ حکومت کے خلاف ہو گئے او ر وہ چھوٹے گلی محلوں کے مظاہرے
آج اتنی بڑی جنگ کی صورت اختیار کر چکے ہیں ۔پاکستان میں کرپشن کوئی نئی
بات نہیں یہ ہمیشہ ہی رہی ہے کبھی پیپلز پارٹی کی صورت تو کبھی پی ایم ایل
این کی صورت میں اور اب توکچن کرپشن نے بھی جنم لے لیا ہے اگر کرپشن کی
تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو قاعد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ایک جلسے میں خطاب
کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’پاکستان کو مستحکم اور ترقی یافتہ بنانے کیلئے ہمیں
سب سے پہلے کرپشن کو ختم کرنا ہو گا میں جانتا ہوں کہ کرپشن نہ صرف برصغیر
میں بلکہ پوری دنیا میں اس وقت ایک ناسور بن چکا ہے جسکا علاج بے حد ضروری
ہے ‘‘ویسے تو ہم قائد کی کسی بھی بات پر عمل کرنے سے قاصر رہے ہیں لیکن اس
بات کی خلاف ورزی ہم نے کچھ زیادہ ہی کر رکھی ہے ۔کرپشن پہلے سے کئی سو
گناہ بڑھ چکی ہے اور عوام ہمہ تن گوش نظر آتی ہے ۔اس بات پر مختلف
سیاستدانوں کی مختلف رائے ہیں عمران خان کرپشن کے خلاف بات کرتا ہے اور کئی
سیاستدان عمران خان کو غلط ثابت کرنے کیلئے تابڑ توڑ کوششیں کرتے ہیں یہاں
تک کہ اسے یہودی ایجنٹ قرار دیتے ہیں اور کتنے ہی سیاستدان ہیں جو انتہا
پسند دہشتگردوں اور بیرونی طاقتوں کو پکڑنے کی بجائے اپنے ہی ملک کے
باشندوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہیں لڑائی کرسی اور کاروبار کی ہے اور اس بیچ
عوام پس رہی ہے ۔عمران خان نے جب کرپشن کے معاملے پر آواز اٹھائی اور عدلیہ
کا سہارا لیا تو اسے چاہئے تھا کہ عدلیہ کا فیصلہ آنے تک انتظار کرتا لیکن
وہ یہاں توہین عدالت کا مرتکب ہو رہا ہے اور اسلام آباد لاک ڈاؤن کرنے کی
ٹھان رکھی ہے ادھر سے حکومتی جماعت نے بھی اسلام آباد کو لاک ڈاؤن ہونے سے
روکنے کیلئے کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے جس کے نتیجے میں پی ٹی آئی سے قبل ہی
حکومت خود اسلام آباد کو لاک ڈاؤن کرنے والے عمل کو جسے وہ خود ایک جرم
قرار دے رہی تھی کا مرتکب ہو گئی ہے ۔ویسے تو احتجاج کسی بھی جمہوریت کا
حسن اور جمہوری حق ہوتا ہے لیکن یہ ایک الگ قسم کی جمہوری حکومت دیکھی ہے
جس نے آمریت کی چادر اوڑھ رکھی ہے اور جو کوئی بھی اس کے خلاف بات کرتا یا
جمہوری حق جتلانے کی کوشش کرتا ہے تواسے چپ کروانے کیلئے اوچھے ہتھکنڈے
استعمال کرنے لگتی ہے ۔یہ کونسی جمہوریت ہے کہ آپ معصوم اور نہتے کارکنان
اور خواتین کو پکڑیں ،عورت کی تذلیل کریں اور ایک مجمع جس کے بارے میں
معلوم ہو کہ اس میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں پر آنسو گیس کی شیلنگ
کروائیں اور لاٹھی چارج کروائیں ان لوگوں پر بس کیوں نہیں چلتا جو ان کے
لیڈر بنے ہوئے ہیں ؟یہا ں تو حکومت خود ہی حقوق نسواں بل کی خلاف ورزی کرتے
ہوئے جر م کر رہی ہے۔یہ کونسی احتسا ب تحریک چل رہی ہے جس میں جوان عورتوں
کو سرعام سڑکوں پر لا کر نچایا جا رہا ہے اور ان سے نعرے بازی کروائی جا
رہی ہے ان بیچاروں کا کیا قصور ہے جن کا روزگار ان دھرنوں کی وجہ سے بند ہو
جاتا ہے اور ان کے چولہے ٹھنڈے ہو جاتے ہیں ؟کرپشن کااحتساب مانگنے کا ایک
پورا طریقہ موجود ہے ،قانون موجود ہے ریاست کوئی ایسے ہی نہیں کھڑی ہو گئی
اس کے با قاعدہ ستون ہیں جس پر قائم ہے اگر ایسے عوام کے کندھوں پر بندوق
رکھ کر چلائی جائے تو وہ انا بازی بن جائے گی نہ کہ عوام کا فائدہ ہوگا ۔
اگر دیکھا جائے تو کرپشن کا احتساب مانگنا عوام کا جمہوری حق ہے یا تو
حکومت یہ کہ دے کہ یہ ایک جمہوری ملک نہیں بلکہ یہاں بادشاہت چلتی ہے تو اس
کے تمام لاٹھی چارج اور کریک ڈاؤن جائز ہیں پھر تو وہ جیسا چاہے کر سکتی ہے
لیکن وہ بھی اسی وقت برداشت کیا جا سکتا ہے جب حکومت نے ملک کے ہر کونے میں
عدل پوری آن و شان سے قائم کیا ہو اگر ایسا نہیں تو حکومت کا کوئی حق نہیں
کہ وہ رعایا پر ظلم کرے ان کے شیر خوار ،جوان بچے اپنی سیاسی انا کی بھینٹ
چڑھا ئیں ،جوان لڑکیوں کی تذلیل کریں اور انہیں سرعام ننگے سر سڑکوں پر
نچائیں ،سر عام نہتے لوگوں ،بوڑھوں ،بچوں اور عورتوں پر دن دیہاڑے گولیاں
چلائیں ،سر عام جوان بچے قتل ہو جائیں اور ان کے والدین کو انصاف میسر نہ
ہو،رشوت خوری ،سو د اور شراب خوری عام ہو جائے اور انہیں نکیل ڈالنے والا
کوئی نہ ہو ،محسن انسانیت وطن میں ہی بیماری سے گھٹ گھٹ کر مر جائیں اور ان
لوگوں کے علاج بیرون ملک ہو ں ،ملک دیوالیہ ہونے کی جانب گامزن ہو اور یہ
دوسرے ملکوں میں اربوں ڈالر کے مالک ہوں ،ملک میں تعلیم کا نظام نا قص اور
غیر معیاری ہو اور ان کے بچے بیرون ملک پڑھیں ۔ان تمام سیاسیوں کو چاہئے کہ
اپنی انا بازی پر قابو پائیں اور تکبر چھوڑ دیں کیونکہ انسان کے اعمال ہی
اس کے عکاس ہوتے ہیں وگرنہ حکومت کرنے والے تو دنیا پر بہت آئے اور چلے گئے
۔ تاریخ میں وہی زندہ رہے جنہوں نے واقعی عوام کیلئے کچھ کیا ۔کوشش کریں کہ
ان تمام معاملات کا حل مذکرات کے ذریعے منطقی انجام تک پہنچائیں تا کہ طاہر
خان کے بچے کے جیسے اور معصو م اپنی جان نہ کھو دیں اوران گریبان پکڑنے
والوں کی تعداد قیامت کے دن زیادہ ہو جائے ۔جس وقت میں یہ تحریر لکھ رہا
تھا اسی وقت ایک افسوس ناک خبر ملی کہ کنٹینر رکھنے کی وجہ سے متبادل راستہ
ڈھونڈتے ہوئے پاک فوج کا ایک لیفٹیننٹ کرنل شہید ہو گیا اور دوسرا میجر
زخمی ہو گیا تو مجھے طاہر خان کے الفاظ دوبارہ یاد آگئے ’’نہ میں پہلا ہوں
اور نہ آخری‘‘حق و باطل کی جنگ جاری رہے گی حق کہنے والا یہ شخص نہ پہلا ہو
گا نہ آخری ۔ |