یہی سوچ ہے کچھ ان اور ان جیسے لوگوں کی جو
عمران خان کو ہمہ وقت لڑتے دیکھنا چاہتے ہیں ان کا خیال ہے خان پیدا ہی
لڑنے کے لئے ہوا ہے۔خود تو چاہیں گے کہ محفوظ طریقے سے لڑائی میں جائیں ،بچوں
کو پروں کے نیچے چھپائے پوچھتے پھریں گے کہ کب میدان لگ رہا ہے۔مرے کوئی
اور میں ساحر کے اشعار اور حبیب جالب کی مزاحمتی شاعری کی کتابوں کو گلے
لگائے آہ واہ کرتا رہوں ۔بلے اوئے۔
جب سے خان صاحب نے کل کے احتجاج کو یوم تشکر میں بدلنے کا اعلان کیا ہے کچھ
اس قسم کی باتیں سننے میں آ رہی ہیں کچھ لوگ ان باکس کہہ رہے ہیں کہ اچھا
نہیں ہوا فیصلہ مایوس کن ہے۔میں سمجھتا ہوں عمران خان نے جتنے بھی فیصلے
کئے ہیں ان میں یہ فیصلہ بہترین فیصلہ ہے۔میں گزشتہ دو گھنٹوں سے ان دوستوں
کی وال پر جا کر حال احوال جانتا رہا ان میں بہت سے تو نون لیگئے دوست تھے
اور جو نہیں بھی تھے وہ سوشل میڈیا کے تیس مار خان۔دراصل ہم بنیادی طور پر
مرغے لڑانے والی قوم ہیں شام کی چائے کے بعد ٹاک شوز میں بھی ہماری یہی
خواہش کار فرما ہوتی ہے کوئی کہے گا واہ کیا بات کا جواب دیا ہے کیا لتاڑا
ہے اور کوئی مفت کے مشورے اس طرح دے گا کہ سقراط افلاطون کی روح کو پیچھے
چھوڑ دے گا۔میرے بہت سے دوستوں کا خیال ہے کہ عمران خان کے ساتھ بنی گالہ
میں لیڈر شپ کو نہیں ہونا چاہئے لودھراں میں جہانگیر ترین ملتان میں شاہ
محمود قریشی اعجاز چودھری کو لاہور اور دیگر دوستوں اور لیڈران صاحبان کو
اپنے اپنے علاقوں میں ہونا چاہئے تھا۔گویا مشاورت کرنے کے لئے خان صاحب کو
ٹیلی فونک خطاب کرنا چاہئے تھا۔عمران خان نے یہ بہت اچھا فیصلہ کیا کہ اس
نے قیادت کو اپنے پاس بلایا لمحہ بہ لمحہ ان سے مشاورت کی اور اﷲ کا لاکھ
لاکھ شکر ہے ان کی بات بھی مانی۔ اور ایک ایسے فیصلے پر پہنچنے میں کامیاب
ہوئے جس سے پوری قوم نے سکون کا نام لیا۔دوستو! عمران اس قوم کے لئے نکلا
جو پانامہ کو مسئلہ سمجھتی ہی نہیں ہے۔پاکستان کے وزیر اعظم کے نابالغ بچے
پانامہ لیکس میں مندرج ہوئے۔اب سولہ یا تیرہ سال کے بچے کاروباری تو نہیں
ہو سکتے اسی وجہ سے فرانس کے ایک بڑے اخبار نے دنیا کہ دس بڑے لوگوں میں
جناب وزیر اعظم کو کرپٹ قرار دیا ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ فرانس سے
احتجاج کرتے اور کہتے میں تو بڑا ایمان دار آدمی ہوں آپ کا اخبار میرے
بیٹوں کی تصویر چھاپے جرم انہوں نے کیا لیکن وہ جاتے تھے کہ ان نابالغ بچوں
کے پیچھے ان کے والد ہیں اسی طرح پاکستان کی اسمبلی میں کھڑے ہو کر جناب
وزیر اعظم یہ اعلان کر چکے ہیں کہ میں اپنے آپ کو احتساب کے لئے پیش کرتا
ہوں۔لیکن حیرانگی تو اس بات کی ہے کہ جب ان سے پوچھا جاتا ہے تو جواب میں
کہہ دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ڈی ریل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔عمران خان
کو لاشیں چاہئیں ۔اس زلف پے پھبتی شب دیجور کی سوجھی اندھے کو اندھیرے میں
بہت دور کی سوجھی ایک صاحب نے فرمایا کہ فوج نے کہا تھا کہ لاکھوں لوگ لے
آؤ ہم مارشل لاء لگا دیں گے آپ ۳۵ ہزار لائے ہیں بات نہیں بنتی۔ان عقل کے
اندھوں کو یہ معلوم نہیں جب فوج کو مارشل لاء لگانا ہوتا ہے تو وہ ایک
معروف پارٹی کو کہتی ہے جو ٹرین مارچ کرتی ہے دو چار لاشیں گرتی ہیں چند
ہزار سڑک پر نکلتے ہیں اور مارشل لاء لگ جاتا ہے۔مارشل لاء اگر لگانا مقصد
ہوتا تو آج رات جو کچھ ہوا وہ کافی تھا ایک طرف پاکستان کے ایک صوبے کا
وزیر اعلی انڈر اٹیک تھا ایک صوبے کی پولیس دوسرے صوبے کے منتحب وزیر اعلی
پر شیلینگ کر رہی تھی وفاق خطرے میں تھا نیت بری ہوتی تو سرل المیڈا کا
واقعہ بھی موجود تھا وہ شخص ملک سے باہر بھی جا چکا تھا حکومت ایک بے لگام
وزیر کو بھی برطرف کر کے اعتراف جرم کر چکی تھی ملکی سلامتی کا ایشو تھا
وزیر اعظم گھر جا سکتا تھا ۔عمران نے اپنی قوت بھی دکھا دی تھی اس نے دو
نومبر کو اسلام آباد بند کرنا تھا کہا جاتا ہے کہ حکومت نت تین دن پہلے
اسلام آباد خود ہی بند کر دیا یہ بات بھی بڑے مزے کی اور پتے کی ہے کہ جاں
نثار عمران ملک کے کونے کونے سے اسلام آباد کے لئے نکل چکے تھے پنجاب حکومت
نے انہیں صوبے کی حدود پر روکا تفصیلی چیکینگ کے بعد انہیں داخل ہونے دیا
گیا گویا جو لاک ڈاؤن کی بات کی گئی تھی وہ تو اکتوبر میں ہی پوری ہو گئی
تھی نومبر تو ویسے ہی بدنام تھا۔
سچ پوچھئے عمران خان نے یہ جنگ اپنی اس مجموعی ذہانت سے جیت لی جو اس کے
دائیں بائیں کھڑی تھی مجھے کہنے دیجئے اس میں شاہ محمود قریشی نے اپنے
تجربے سے نواز شریف کو شکست دے دی۔اس مجموعی ذہانت میں ایک کارپوریٹ کلچر
کے نمائیندے جہانگیر ترین ایک اور خارجہ امور کی ماہر شیرین مزاری دلیر
بہادر ہمہ وقت مستعد نعیم الحق اور ان سب سے بڑھ کر سابق وزیر خارجہ شاہ
محمود قریشی جو سیاست کی گلیوں میں ممبر ڈسٹرک کونسل صوبائی وزیر ایم این
اے کئی بار منتحب ہوئے( میں سمجھتا ہوں قریشی ڈاکٹرائین کامیاب ہوئی) ان سب
نے سر جوڑا اور وہ کام کیا جو نواز شریف کی حکومت کے لئے درد سر ہی نہیں
درد جگر ثابت ہو گا۔آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اگر وفاق کے ان ذمہ دارن کے خلاف
خاص طور پر میاں شہباز شریف نواز شریف اور چودھری نثار علی خان کے خلاف اگر
کوئی اموات ہوئی ہیں پرچہ درج ہوتا ہے تو کیا یہ بچ پائیں گے ؟در اصل ہوتا
یوں ہے کہ انسان جب اقتتدار کی کرسی پر ہوتا ہے تو وہ متکبر ہو جاتا
ہے۔مجھے مارچ ۱۹۷۷ یاد آ رہا ہے جناب ذوالفقار علی بھٹو نے بڑی لائینوں
والا سوٹ پہن کر ایک تقریر کی تھی جو میں نے آر جی اے بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی
پر دیکھی تھی انہوں نے کرسی کے دائیں حصے پر ہاتھ مار کر کہا کہ میں مضبوط
نہیں ہوں یہ کرسی مضبوط ہے۔اور وقت نے دیکھا اس کرسی پر کوئی اور آ کر بیٹھ
گیا اور صاحب مسند کو لٹکا دیا قدرت کے کام دیکھئے وہ بھی ہوا میں اڑ گئے۔
جو آج صاحب مسند ہیں کل نہیں ہوں گے کرائے دار ہیں مالک مکان تھوڑی ہیں
اﷲ کے کام نرالے ہیں رہنا اس کی ذات نے ہے اگر کے پے کے کہ دو جوان شہید ہو
گئے تو پرچہ کس پر کٹے گا کوئی نہ بھی کاٹے تو ایف آئی آر سیل بھی ہو سکتی
ہے میں آج کورٹ کے باہر اس شخص کو بھی دیکھ رہ اتھا جس نے اپنے باپ کے قتل
ہونے کی ایف آئی آر سیل کروائی تھی۔وہ بتاتا رہا کہ لوگو اقتتدار آنی جانی
چیز ہے رہنے والا نام اﷲ کا ہے کل بہت بڑا جرم ہوا ہے جو بنگالیوں کے ساتھ
ہوا وہ ان پختونوں کے ساتھ ہوا ہے۔صر ف پختونوں کے ساتھ ہی نہیں ہزارے کے
لوگ بھی شامل تھے یہ جرم ناقابل معافی ہے۔میں سمجھتا ہوں شہباز شریف کو کسی
بھی صورت میں ان کے راستے کی دیوار نہیں بننا چاہئے تھا ان کا کام تھا
انہیں ویلکم کرتے کوئی ظلم نہیں ہو جانا تھا لیکن پنجابی شائنزم کا مظاہرہ
کر کے زیادتی کی گئی آج ایک بہت خوبصورت بات بھی دیکھنے میں آئی کہ لوگوں
نے سوشل میڈیا پر لکھا میں پنجابی ہوں لیکن جناب پرویز خٹک کے ساتھ ہوں۔اﷲ
کرے کہ اس ارض پاک پر پیار اور محبت کے پھول کھلیں۔کل عمران خان لوگوں کو
بلا رہے ہیں۔دو نومبر ہے وہ اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لینا چاہتے ہوں
گے۔اگر یہ دس لاکھ نہ بھی ہوں تو کوئی بات نہیں کروڑوں لوگ انہیں ٹی وی پر
سن لیں گے۔لیکن ایک بات ان پر قرض ہے کہ وہ اب عدالتی جنگ میں لگام خود
تھامیں گے یاد رکھئے پیپلز پارٹی کے وکلاء جتنے مرضی اچھے ہوں ان کی لگام
دنیائے کرپشن کے بادشاہ آصف علی زرداری کے ہاتھ ہو گی جو کسی صورت نواز
شریف کو زیر نہیں ہونے دے گا۔اپنی پوٹلی اپنے پاس۔یہ جو کہتے ہیں ناں کہ
احتجاج کی سیاست پیپلز پارٹی جانتی ہے یا جماعت اسلامی۔پیپلز پارٹی نے پورا
خاندان قتل کروا کر اگر دس سال حکومت کر لی تو کون سا تیر مارا رہی بات
جماعت اسلامی کے سید مودودی کی جماعت ابھی تک فیصلہ نہیں کر سکی کے اسے
بیٹھنا کہاں ہیں؟
ٹھیک کہا اور کیاعمران خان آپ نے اس بہترین فیصلے پر یوم تشکر تو بنتا ہے۔ |