۱۹۵۵ میں آج ہی کے دن خاکسار اس دنیا میں
آیا ۔کل ایک بڑے ہی چاہنے والے نے معذرت کے ساتھ پوچھا کہ انکل جب آپ اس
دنیا میں آئے تو کیا ایسی ہی ہنگامہ آرائی تھی؟سوال بڑا زبردست تھا میں نے
تاریخ کے صفحات دیکھے اور میں نے دیکھا کہ میں جب پید اہوا تو اسی سال
پاکستان نے ایک پیسے کا سکہ جاری کیا اور جب یہ تحریر لکھی جا رہی ہے تو دس
روپے کا سکہ جاری ہورہا ہے دیکھ لیجئے میری زندگی کا سال تو گر ہی گیا
ہماری کرنسی کتنی گری۔ایک پیسہ ہے کیا چار ملیں تو ایک آنہ اور سولہ آنے
ہوں تو ایک روپیہ اندازہ لگائیے کس قدر گرے ہم لوگ۔پاکستان ۱۹۵۵ میں کیسا
تھا آپ کو اس بات کا اندازہ ہو جانا چاہئے کہ اس کے تین سال بعد پاکستان
میں پہلا مارشل لاء لگا۔سیاست دان آپس میں سر پھٹول کر رہے تھے اسی دوران
ایک ایسا جرنیل جو ان سیاست دانوں کو بڑے قریب سے دیکھ رہا تھا اس نے
پاکستان سے سیاست کا جنازہ نکال دیا اور پہلا مارشل لاء لگا دیا۔اﷲ نہ کرے
کبھی اس ملک پر مارشل لاء لگے۔آپ جتنا مرضی لڑ جھگڑ لیں پھر بھی کوئی راستہ
نکل آتا ہے کوئی نہ کوئی بیچ بچاؤ کرا ہی دیتا ہے لیکن جب بوٹ آتا ہے تو
سمجھ لیں دس سال آپ شکنجے میں ہیں۔میں یہ سالگرہ جس ماحول میں منا رہا ہوں
وہ آپ کو علم ہی ہے۔ایک ہفتے سے کبھی چھپ کر کبھی باہر آ کر احتجاج ریکارڈ
کرواتے ہیں۔ابھی تازہ خبر یہ ہے کہ عمران خان کا کل کا لاک ڈاؤن یوم تشکر
میں تبدیل ہو گیا ہے۔اﷲ کا شکر ہے کہ کل جو کچھ ہوا وہ کل نہیں ہو گا۔اس
سارے معاملے میں جو تکلیف دہ صورت حال ہوئی وہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی
کے قافلے پر پنجاب پولیس کی شیلینگ تھی۔یقین کیجئے ایک دیوار گری ہے وہ
دیوار پاکستانیت کی دیوار ہے۔پنجابی شاؤنزم کا ایک مظاہرہ ہوا ہے۔وہ لوگ
جنہوں نے گولی پیدا ہوتے ہوئے ہی دیکھی ہے ان پر آنس گیس ربر بلٹس چلائی
گئیں یہ ایک اتنا بڑا نقصان ہوا ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم
ہے۔پاکستان تحریک انصاف نے کے پی کے سے جیت کر علاقائی جماعتوں خاص طور پر
اے این پی کو چاروں شانے چت کیا تھا اور پختونوں کے ٹھیکے داروں کو شکست دے
کر قومی دھارے میں لا کھڑا کیا تھا۔لیکن میاں شہباز شریف نے انتہائی غلط
اقدام اٹھا کر اس پاکستان دوست پارٹی کے مو ء قف کو جھٹلانے کی۹ کوشش کی ہے
آج اے این پی پشتونوں کے پاس جا کر یہ رونا روئے گی کہ جاؤ پاکستانیت کو
گلے لگاؤ وہاں پاکستانیت کا نام پنجابیت ہے۔آج احمد رضا قصوری بھی یہی رونا
رو رہے تھے۔میں سمجھتا ہوں میری سالگرہ پر جو کیک کٹا وہ تو کٹا لیکن جو دل
پر کاٹ لگی وہ جناب قصوری کے وہ جملے تھے انہوں نے کہا بھٹو نے ایک زہریلا
نعرہ لگایا تھاادھر تم اور ادھر ہم اور کہا تھا کہ جو مشرقی پاکستان میں
اسمبلی کے اجلاس میں جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا۔انہوں نے یاد
دلوایا کہ ۳ مارچ ۱۹۷۱ کو میں ادھر گیا۔
آپ دیکھ لینا رات کو پشتونوں پر جو شیلینگ ہوئی اس سے کوئی مرا یا نہ مرا
کسی کو زخم آئے یا نہیں آئے مگر میں سمجھتا ہوں پنجاب بدنام ہوا ان
حکمرانوں نے پاکستان کو مجروح کیا۔میں پرویز خٹک کو جانتا ہوں اس نے کل
دلیری کا مظاہرہ کر کے کمال نام کمایا ایک اور کمال یہ ہوا کہ ہزارہ کا
بیٹا خان کے ساتھ کھڑا نظر آیا اور ان لوگوں کو شرمندگی اٹھانی پڑی جو یہ
کہہ رہے تھے کہ شیر بہادر عمران خان کا مقابلہ کرے گا۔دوسری جانب مشتاق غنی
بھی پرویز خٹک کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر لڑتے نظر آئے۔میں دیکھ رہا
ہوں کہ عمران خان اگلی بار ہزارہ سے الیکشن لڑتے نظر آتے ہیں۔یہ سالگرہ
والے دن لکھنے کی باتیں نہیں لیکن جو کچھ دیکھ رہا ہوں وہ شیئر تو کروں گا۔
میں اس موقع پر تحریک انصاف کے ان کارکنوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جو
ہلکے یا بوجھل نکلے۔اس تحریک میں بہت سی کمزوریاں بھی تھیں لیکن اتنا ضرور
ہوا کہ یہ لڑائی تحریک انصاف نے خود لڑی اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جماعت
اسلامی اور منہاج القران کا ساتھ میسر نہیں ہوا ورنہ جو کچھ بھی ہوتا وہ
اپنے کھاتے میں ڈال لیتے۔۶۱ویں سالگرہ کے موقع پر ثابت ہوا کہ پنجاب پولیس
کے علاوہ ایک فرنٹیئر کانسٹیبلری بھی ہے جو روپوں پیسوں کے لالچ میں کچھ
بھی کر سکتی ہے۔لیکن شنید ہے کہ رات کو فرنٹیئر کانسٹیبلری نے بھی ہاتھ
اٹھا لئے تھے اور گلو پولیس ہی کو سامنے لایا گیا جس نے ثابت کیا کہ ہم وہی
ہیں جنہوں نے بھگت سنگھ جیسے باغی پیدا کئے ہم پیسوں کے لئے کچھ بھی کر
سکتے ہیں۔ایک ادھار باقی ہے مجھے پورا یقین ہے کسی مناسب موقعے پر چکا دیا
جائے گا۔پنجاب پولیس نے پختون زلمے کو لیاقت باغ میں کھر دور میں مارا تھا
دوسری بار شہباز شریف نے یہ کام کر دیا۔کہتے ہیں ضیاء نے جب ذوالفقار علی
بھٹو کیس کے سلسلے میں ولی خان سے بات کی تو حیدر آباد میں ہی انہوں نے
اپنے ایک دوست جس کا نام قسور گردیزی ہے کہا تھا مجھے لیاقت باغ یاد ہے اس
کا بدلہ جلد لوں گا۔اور اپریل کی چار تاریخ سال ۱۹۷۹ کو بھٹو کی گردن لمبی
ہو ئی۔ماڈل ٹاؤن اور یہ صوابی جو بیج بوئے گئے اس کی فصل وقت آنے پر کٹے
گی۔کون جائے گا وقت آنے پر پتہ چل جائے گا۔اک اور سال گرنے کے موقع پر میں
کتنا خوش ہوں یہ تو آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے۔گئے ویلے کدوں مڑ دے نیں۔میں عمر
کے اس حصے میں ہوں جب انسان کہتا ہے کہ وقت تھم جائے۔اس لئے کہ اب آگے
پھسلن ہی پھسلن ہے اور بڑی گہرائی۔شکریہ مبار باد دینے والوں گا۔ |