غربت

غربت سے تنگ آکر دنیا بھر میں ہزاروں افراد خود کشی کر لیتے ہیں کیونکہ غربت انسان کو کبھی کبھی ایسے موڑ پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے جہاں وہ پیٹ کی آگ بجھانے کیلئے بھیک مانگنے کی بجائے زندگی کا خاتمہ کرنے کو ہی بہترین حل سمجھتا ہے ،ترقی پذیر ممالک میں غربت اور خود کشی کا بہت قریبی رشتہ اور تال میل ہے دو الفاظ اور ایک معنی سمجھا جاتا ہے ،کسی زمانے میں غربت سے تنگ آکر خود کشی کرنے والوں کی خبریں شاز ونادر ہی سننے کو ملتی تھیں اور سن کر کانوں کو ہاتھ لگا کر توبہ توبہ کی جاتی کہ ایسی کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی کہ حرام موت مر گیااور کئی دنوں ، ہفتوں تک ایسی اموات کے چرچے ہوتے رہتے جبکہ آج کل خود کشی اتنی عام ہو چکی ہے کہ ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیا جاتا ہے اور کوئی نہیں کہتا کہ حرام موت مرا ہے کیونکہ اپنی جان لینے کا ٹرینڈ بدل چکا ہے سبجیکٹ وہی ہے یعنی غربت لیکن غربت سے تنگ آکر خود کشی کرنے کا انداز تبدیل ہونے کی کئی وجوہات بنا دی گئی ہیں مثلاًنفسیاتی مریض تھا ،دہشت گرد تھا، گھریلو جھگڑے تھے، جوب نہیں ملتی، عاشق تھا وغیرہ ۔دماغی حالت آخر خراب کرتا کون ہے ؟ انسان نفسیاتی مریض بنتا کیوں ہے کہ اسے ایک ہی بار ملنے والی زندگی سے چھٹکارہ پائے؟یہ سچ ہے کہ دماغی حالت کا درست نہ ہونا ایک عذاب ہے لیکن اس کی بھی ان گنت وجوہات ہیں اور عام طور پر لوگ جڑ یا بنیاد دیکھنے یا سننے کی بجائے اتنا کہہ دینا ہی مناسب سمجھتے ہیں کہ خود کشی حرام ہے اور زندگی سے تنگ آگیا تھااس لئے مر گیا۔سماجی اور معاشی حالات ، غربت و امارت،صحت ،زندگی اور موت پر گزشتہ دنوں جرمنی کے ایک معروف میگزین نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے کئی عنوان تھے ، جرمنی کی سوشل سٹڈیز،کیا دولت انسان کو صحت مند اور طویل عمر دے سکتی ہے،کیا جرمنی میں جس کی اچھی آمدنی ہو وہ گیارہ برس زیادہ زندہ رہ سکتا ہے،طویل عمر زندہ رہنے کیلئے کیا دولت کا ہونا ضروری ہے،دولت انسان کو خوش نہیں رکھ سکتی لیکن طویل عمر دے سکتی ہے وغیرہ اور کیا جو غربت کی چکی میں پس رہا ہو وہ جلد موت کا شکار ہو جاتا ہے؟میگزین میں بتایا گیا کہ ہم جانتے ہیں آمدنی اور سماجی حیثیت کا جرمنی میں بہت اہم کردار ہے اکثر آعلیٰ حیثیت والے افراد کے بچوں کو بہتر اور شائد تعلیمی قابلیت کے تحت بہت سی مراعات حاصل ہوتی ہیں بلکہ دی جاتی ہیں وہ بہتر روزگار کے علاوہ وراثت میں بھی بہت کچھ پا لیتے ہیں اور طویل عمر زندہ رہتے ہیں جبکہ غریب صرف غریب ہی رہتا ہے۔رابرٹ کوخ انسٹیٹیوٹ کی رپورٹ کے مطابق جو انسان غربت کی زنجیروں میں جکڑا ہوتا ہے محنت مشقت کا کام کرتا ہے اور مختلف نفسیاتی بیماریوں میں مبتلا رہتا ہے اکثر حالات سنگین رخ اختیار کرتے ہیں اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور موت کے دھانے کھڑا ہوجاتا ہے ان حالات میں خواتین کم آمدنی کی بدولت سات سے آٹھ برس قبل ہی انتقال کر جاتی ہیں ان کے مقابلے میں مرد وں کی حالت زیادہ ابتر ہوتی ہے اور وہ غربت اور دیگر سماجی و معاشی معاملات کے حل نہ ہونے پر گیارہ برس قبل موت کا شکار ہوتے ہیں، رپورٹ میں بتایا گیا کہ غریب مرد ستر برس تک غربت کا شکار ہونے سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں اور امیر افراد اسی سال سے زائد زندہ رہتے اور ہیپی برتھ ڈے مناتے ہیں۔ادارے کا کہنا ہے آمدنی اور صحت کے درمیان رابطہ یا تسلسل ہمارے لئے کوئی نئی بات نہیں کیونکہ غربت میں بیماریاں اور خاص طور پر دائمی بیماری نچلے طبقے میں معاشرے کے اہم اور خاص مسائل ہیں ،بنیادی مسائل حل نہ ہونے سے ہی اکثر اموات ہوتی ہیں،مثلاً کم آمدنی والے افراد زیادہ محنت مشقت سے کام کرتے ہیں تاکہ محض زندہ رہ سکیں اپنے جسم اور صحت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے وہ اس فکر میں رہتے ہیں کہ کبھی وہ دن نہ آئے کہ کسی سے بھیک مانگی جائے کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کے خوف سے نفسیاتی امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں اور زندگی کو جنگ سمجھتے ہوئے الکوحل،ڈرگس اور تمباکو نوشی میں اضافہ ہونے کے سبب مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں جس کا نتیجہ قبل از وقت موت یا خود کشی ہوتا ہے۔مطالعہ کرنا بہت مشکل ہے کہ تابوت میں لیٹے ہوئے انسان نے اپنی زندگی میں کتنی دولت کمائی اور کہاں کہاں خرچ کی لیکن ایک بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ مرنے کے بعد اس کے پاس بچا کیا ہے۔انسٹیٹیوٹ نے مختلف اداروں یعنی موت کے رجسٹرار آفس اور سوشل انشورنس والوں کے توسط سے ایک ڈیٹا تیار کیا کہ آمدنی ،صحت اور موت کا چولی دامن کا ساتھ ہے یہ آپس میں منسلک اور اہم کردار ادا کرتی ہیں،دیگر سوشل ادارے اس بات پر بھی ریسرچ کرتے ہیں کہ ایک خاندان کے کتنے افراد ہیں کون کام کرتا اور کون بیروزگار ہے ٹوٹل کتنی آمدنی ہے کتنے اخراجات ہیں ٹیکس کتنا ادا کیا جاتا ہے سماجی و اقتصادی پینل پر زندگی کیسے بسر ہوتی ہے وغیرہ،ہر گھر کی درجہ بندی کے بعد نیٹ آمدنی کا حساب کیا گیا اور بڑے پیمانے پر مختلف نتائج برامد ہوئے یعنی غربت میں پسے افراد کی رپورٹ تیار کی گئی جس میں بتایا گیا کہ اگر کوئی اوسطاً ساٹھ فیصد آمدنی رکھتا ہے تو وہ غریب ہے لیکن جس کی اوسطاً آمدنی کا گراف ڈیڑھ سو فیصد سے زائد ہے تو وہ امیر انسان ہے رپورٹ کو مفصل یا کیلکولیشن کر کے تحریر کرنے سے کالم مزید طویل ہوجائے گا اسلئے مختصر یہ کہ جرمنی میں تین نہیں دو طبقے ہیں ایک غریب اور ایک امیر۔دیگر ممالک اور جرمنی کے لائف سٹینڈرڈ میں بہت زیادہ تضاد ہونے کے باوجود کچھ زیادہ فرق نہیں ،غریب امیر،صحت زندگی اور آمدنی میں رسک بتایا گیا کیونکہ کچھ لوگ عارضی غربت کے بعد زنجیروں سے آزاد ہو جاتے ہیں اور صحت مند اور طویل زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ دنیا بھر میں ایسے ممالک بھی ہیں جہاں غربت وراثت میں ملتی ہے کئی ممالک بظاہر آزاد ہیں لیکن غربت اور ہر قسم کی غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں مثلاً حکمرانوں نے انہیں بیڑیاں پہنا رکھی ہیں وہ نہیں چاہتے کہ عوام غربت اور جہالت کی دہلیز پار کریں کیونکہ اس عمل سے انہیں شدید نقصان پہنچ سکتا ہے ایسے حکمرانوں کا ڈھکے چھپے اور کبھی کبھی صاف الفاظ میں بیان اور نعرہ ہوتا ہے کہ کوئی جئے یا مرے جمہوریت اور ہماری کرسی سلامت رہے،ایسے حالات میں ایک انسان غربت سے تو نہیں البتہ زندگی سے چھٹکارہ پانے کو اولین فرض سمجھتا ہے اور یہ سوچ کر خوشی خوشی موت کو گلے لگاتا ہے کہ تھوڑا تھوڑا یا روز روز مرنے سے بہتر ہے ایک بار ہی مرا جائے تاکہ اس کا کچھ بچے یا نہ بچے کم سے کم جمہوریت تو قائم رہے گی۔
Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 246154 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.