آج سے تقریباً ایک صدی پہلے کی بات ہے
حضرت مولانا محمد الیاس رحمۃ اﷲ علیہ نے انتہائی کٹھن حالات میں عام
مسلمانوں کو دین کے اعمال پر واپس لانے اور معاشرہ میں دینی ماحول کو از سر
نو زندہ کرنے کادعوت الیٰ اﷲ کا ایک کام شروع کیا تھااور اِس کام کی بنیاد
دہلی کے جنوب میں آباد میؤ قوم میں رکھی تھی ، جن کے اندر اس خیال کے علاوہ
کہ ’’ہم مسلمان ہیں ‘‘ کوئی چیز بھی اسلامی نہیں تھی ۔وہ ناہر سنگھ اور
بھوپ سنگھ جیسے نام رکھتے تھے ، اُن کے سروں پر چوٹیاں ہوتی تھیں ، اُن کے
یہاں مورتیا ں پوجی جاتیں ، وہ ہندوؤں کے تہواراور تقریبات مناتے ، دیوی
دیوتاؤں کے نام پر قربانی چڑھاتے ، شب برأت میں ان کے یہاں سید سالار مسعود
غازی کا جھنڈا اُٹھتا تھا ، مگر وہ بھی ایک بت تھا جو پوجا جاتا تھا ،
اُنہیں کلمہ تک یاد نہ تھا ، حتیٰ کہ نماز کی صورت سے وہ اس قدر نا آشنا
تھے کہ کبھی کوئی مسلمان اتفاق سے اُن کے علاقہ میں پہنچ گیا اور اُس نے
نماز پڑھی تو گاؤں کے مرد ،عورتیں اور بچے ٗ سب اس کے گرد دیکھنے کے لئے
جمع ہوجاتے کہ یہ شخص آخر کیا کر رہا ہے کہ بار بار اُٹھتا ، بیٹھتا اور
جھکتا ہے ؟ اُن کی تہذیب کا یہ عالم تھا کہ عورت ، مرد سب نیم برہنہ گھومتے
تھے ۔ چوری ، ڈکیتی اور رہزنی ان کا پیشہ تھا ۔ آپس کی چھوٹی چھوٹی باتوں
پر ان کے درمیان لمبی لمبی خون ریز لڑائیاں ہوتی تھیں ۔
یہ تھی وہ قوم جسے حضرت مولانا محمد الیاس نور اﷲ مرقدہ نے دینی دعوت کا
اوّلین ہدف بنایا تھا جو ان کے خلوص اور محنت کے باعث پھیلتے پھیلتے اب
دُنیا کے بہت سے حصوں تک وسعت اختیار کرچکا ہے اور ایشیاء ، یورپ ، افریقہ
، امریکا اور آسٹریلیا میں کوئی ایسا قابل ذکر علاقہ دکھائی نہیں دیتا جہاں
مولانا محمد الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ کی محنت سے عدم سے وجود میں آنے والی
تبلیغی جماعت کی نقل و حرکت کی محنت کسی نہ کسی انداز میں جاری نہ ہو یا اس
کے اثرات موجود نہ ہوں اور آج بحمد اﷲ تعالیٰ دینی خدمت کے شعبوں میں دعوت
و تبلیغ کا یہ شعبہ سب سے زیادہ وسیع نیٹ ورک کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔
دعوت و تبلیغ مسلمانوں کے دینی فرائض میں سے ہے اور قرآن و سنت میں اس کے
مختلف پہلوؤں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے ، اسلام شخصی ، علاقائی یا نسلی دین
نہیں ہے بلکہ عالمگیر دین ہے ، جس کی دعوت اور خطاب کا جائزہ پوری نسلِ
انسانی کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری قرار دی گئی ہے کہ
وہ نجات و فلاح کے حوالے سے صرف اپنی ذات کی فکر تک محدود نہ رہے بلکہ اپنے
اِرد گرد کے ماحول اور درجہ بہ درجہ پوری نسلِ انسانی کی فکر کرے ۔‘‘
خاندان کے بعد سوسائٹی اور اِرد گرد کا ماحول ایک مسلمان کی ذمہ داریوں میں
شامل ہوجاتا ہے اور قرآن و سنت میں تمام مسلمانوں کو اِس امر کا ذمہ دار
قرار دیا گیا ہے کہ وہ ایک دوسرے کو معروف کی تلقین کریں اور منکر سے باز
رکھنے کی کوشش کریں ، جناب نبی اکرم انے ایک حدیث میں فرمایا کہ: ’’جب
معاشرے کی یہ کیفیت ہوجائے کہ اس میں گناہوں کا ارتکاب تو ہورہا ہو مگر
رُوک ٹوک کا کوئی سسٹم باقی نہ رہے تو وہ سوسائٹی مجموعی طور پر عذاب
خداوندی کی مستحق ہوجاتی ہے‘‘ ۔
تبلیغی جماعت کی یہ محنت اسی ماحول کو زندہ کرنے کے لئے ہے اور حضرت مولانا
محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اﷲ نے اسی جذبۂ صادقہ کے ساتھ اِس عمل خیر کا
آغاز کیا تھا جس کا دائرہ پوری دُنیا میں پھیلتا جارہا ہے اور رائے ونڈ کا
یہ عالمی تبلیغی اجتماع اسی جذبۂ صادقہ ومحنت شاقہ اور اس کی وسعت کی
نمائندگی کرتا ہے ۔
دین کی محنت و خدمت ،رواج و ترویج اور اس کی اشاعت و فروغ کے مختلف شعبے
ہیں جس کے وسیع ترین دائرے میں رہتے ہوئے مختلف قسم کے لوگ مختلف قسم کی
محنتیں کر رہے ہیں ۔مساجد و مدارس کا نظام ہے ، دینی جماعتیں ہیں ، روحانی
مراکز اور خانقاہیں ٗہیں ، رفاہِ عامہ کے لئے دینی جذبہ سے کام کرنے والی
سماجی تنظیمیں ہیں ، اپنے اپنے شعبہ رہتے ہوئے میں ان تمام کی خدمات اور جد
و جہد کی ضرورت و اہمیت مسلم ہے ، اِن میں کسی کی افادیت و ضرورت سے انکار
نہیں کیا جاسکتا اور یہ سب لوگ کام کے مختلف دائروں میں تقسیم ہونے کے
باوجود ایک ہی مقصد کے لئے کام کر رہے ہیں ، انہی میں سے دین اسلام کی خدمت
کے حوالے سے ایک اہم ترین شعبہ دعوت و تبلیغ کا بھی ہے جو اپنے خلوص و محنت
اور ایثار کے باعث دُنیا بھر میں مسلسل پھلتا پھولتا جارہا ہے ۔
اوربقول مولانا ابن الحسن صاحب کے کہ : ’’ اس وقت برصغیر میں سب سے بڑا
اجتماع ’’تبلیغی جماعت‘‘ کا ہوتا ہے جو حج کے بعد مسلم دُنیا کا عظیم تر
مجمع ہوتا ہے ، لیکن اس کے لئے آج کے دور کی پبلسٹی کے معروف ذرائع میں سے
ایک بھی اختیار نہیں کیا جاتا ، اخبارات میں اشتہارات آتے ہیں نہ ٹی وی
چینلوں پر سلائیڈ چلتی ہے ، حدودِ شریعت کی پوری پوری رعایت کے ساتھ ، محلے
محلے ، قریہ قریہ ایک آواز گونجتی ہے اور حقیقی معنوں میں مسلمانوں کا ایک
عظیم الشان اجتماع منعقد ہوتا ہے ، ایک روح پرور، ایمان افروز منظر کے ساتھ
دین کی بات کی جاتی ہے ، دل کی دھڑکنوں اور جگر کے سوز و تڑپ کے ساتھ بالکل
سادہ اُسلوب میں اسلام کی طرف لوگوں کو بلایا جاتا ہے ، نہ اسٹیج سیکٹری
ہوتا ہے اور نہ ہی بیان کرنے والے کو مختلف قسم کے القابات کے ساتھ اعلان
کرکے بلایا جاتا ہے ،بلکہ جماعت ہی سے وابستہ بعض مقبول ترین مقررین کو بسا
اوقات بیان کے لئے اس مصلحت کے تحت وقت نہیں دیا جاتا کہ کہیں آنے والے
تحریک کے اصل مقصد اور ہدف کی بجائے ٗ خطابت کی شنوائی ہی کو مقصود نہ سمجھ
لیں ، جس سے ایک وقتی اور جذباتی تأثر تو ضرور پیدا ہوتا ہے لیکن اسلام اور
اس کے اعمال ، اس کے تقاضے ، اس کے آداب ، غیر مستحکم وقتی جذبوں سے کبھی
زندہ نہیں ہوسکتے ،بلکہ وہ تو مکمل شعور و آگہی کے ساتھ ایک مستحکم عقیدے ،
ایک مسلسل جد و جہد اور زندگی بھر کے نباہ کا کام ہے ، انہی ٹھوس بنیادوں
کی وجہ سے جماعت کے خاموش انقلاب نے لاکھوں زندگیوں کو بدلنے اور اُمت کے
بھٹکے ہوئے قافلوں کو راہِ راست پر لانے کا وہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس
کی نظیر گزشتہ صدیوں میں نہیں ملتی ، مقصد یہ ہے کہ اجتماعی تحریکی اور
سیاسی زندگی میں نام و نمود کا فتنہ بڑی تیزی کے ساتھ حملہ آور ہوتا ہے اور
انسان بہت آسانی کے ساتھ اس کا شکار ہوجاتا ہے ، اس لئے قدم قدم پر بڑی
احتیاط ، نگرانی اور اپنے نفس کے محاسبہ کی ضرورت ہے۔‘‘ |