انتقام اورانجام

اﷲ تعالیٰ نے دین فطرت اسلام کی آبیاری کیلئے پاکستان بنایا اوروہی اب تک اپنے نام پرمعرض وجودمیں آنیوالی اس فلاحی مملکت کوبچاتاآرہا ہے ورنہ مٹھی بھر اقتدارپرست عناصر نے اس ریاست کی ناکامی ،بدنامی اورنیلامی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔اگرعوام شخصیت پرستی چھوڑدیں تواقتدارپرستی خودبخود ختم ہوجائے گی۔چندخاندان مسلسل کئی دہائیوں سے پاکستان کونوچ اورپاکستانیوں کاخون چوس رہے ہیں مگریہ پھر بھی زندہ سلامت ہے ۔مدینہ طیبہ کی طرح پاکستان بھی اہل اسلام کیلئے روحانیت کامرکز ہے،جموں وکشمیر سمیت بھارت کے ستم زدہ مسلمانوں ،ہمارے فلسطینی بھائیوں اوربرمامیں بربریت کاسامناکرنیوالے مسلمانوں کے نزدیک پاکستان ان کانجات دہندہ ہے مگرایٹمی پاکستان کے حکمران اپنااقتدار بچانے کیلئے ہاتھ پاؤں ماررہے ہیں ،انہیں بھارت ،فلسطین اوربرمامیں مارے جانیوالے مسلمانوں سے کوئی سروکار نہیں۔2نومبر کے دن اﷲ تعالیٰ نے پاکستان کوایک بڑے بحران اورپولیس سمیت سکیورٹی فورسزکوامتحان سے بچالیا ۔اگرخدانخواستہ کوئی سانحہ رونماہوجاتاتویقینا ماڈل ٹاؤن کی طرح اس بار بھی پولیس اہلکاروں کوگرفتارکرلیاجاتاجبکہ احکامات صادرکرنیوالے ارباب اقتدارپرکوئی ہاتھ نہ ڈالتا۔ابھی توسانحہ ماڈل ٹاؤن کے متاثرہ خاندان انصاف کے منتظر ہیں لہٰذاء ہم مزیدکسی سانحہ کے متحمل نہیں ہوسکتے۔ پولیس کلچر کی تبدیلی اوراس پرعوام کے اعتماد کی بحالی کاراستہ اس کی خودمختاری اورغیرجانبداری سے ہوکرجاتا ہے۔پنجاب میں آئی جی سے ڈی پی اوتک کی ٹرانسفر پوسٹنگ وزیراعلیٰ پنجاب کی مرضی ومنشاء کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔وزیراعلیٰ پنجاب کاانٹریوپاس کئے بغیر کوئی آرپی اوریا ڈی پی اونہیں لگتا چاہے مہینوں تک سیٹ خالی رہے،اس وقت بھی پنجاب پولیس میں کئی اہم سیٹیں خالی پڑی ہیں۔پولیس کاکام شہریوں نہیں شرپسندوں کوگرفتارکرنا ہے ،کیا نیک نام حاجی حبیب الرحمن کی طرح آئی جی پنجاب مشتاق سکھیرابھی اپنے ادارے کی ساکھ بچانے کیلئے اصولی اورآئینی نکات پرسٹینڈ لے سکتے ہیں یا ابھی تک ان کافوکس اپنامنصب بچاناہے۔فوج اورسندھ میں رینجرز کوآئینی کردارتک محدودرہنے کامشورہ دینے والے پولیس کواس کے آئینی کردارتک کیوں محدودنہیں رکھتے ۔شہری امن وامان کی بحالی کیلئے پولیس فورس کوپاک فوج کی طرح فرض شناس، خودمختار اورغیرجانبدار دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ سیاستدان اپنے مخصوص مفادات کودرپیش خطرات کے ڈر سے فوج کوبھی پولیس کی طرح یرغمال بنانے کے خواہاں ہیں۔پاکستان میں آئین کی بجائے حکمرانوں کے ''ارمان''اور"فرمان" کے تحت فیصلے ہو تے ہیں ۔پولیس اہلکار ریاست سے وفاداری اورآئین کی پاسداری کے پابند ہیں وہ ریاست کے ملازم ہیں کسی حکمران کے غلام نہیں۔ جوقانون ریمانڈ کے بغیرملزمان پر تشدد کی اجازت نہیں دیتا وہ سیاسی کارکنان کوگھسیٹنے اورانہیں وحشیانہ اندازسے زدوکوب کرنے کی اجازت کس طرح دے سکتا ہے۔

اسلام آبادمیں خونیں تصادم ٹل جانے پریوم تشکرمنانا نہیں بلکہ اس کامذاق اڑانا بری بات ہے۔عمران خان کی طرف سے آزادعدلیہ پراعتماد کااظہارخوش آئندہے مگر اس پراسے طعنے دیے جارہے ہیں،اگروہ تنقید کرے تواسے بدزبان جبکہ قانون کااحترام کرے توکپتان کویوٹرن خا ن کہاجاتا ہے۔ماضی میں سیاست اورصحافت کے پلیٹ فارم سے تعمیری تنقید کی جاتی تھی جبکہ عہدحاضر میں اہل سیاست واہل صحافت دوسروں پر طنز اوران کی توہین کرتے ہیں ۔خدانخواستہ اسلام آبادیااس کے مضافات میں سکیورٹی فورسز اور احتجاجی مظاہرین کے درمیان خونیں تصادم کے نتیجہ میں سیاسی کارکنان کی جان جاتی یاسکیورٹی فورسز کے اہلکار مارے جاتے تو دونوں صورتوں میں ہمارے گھروں میں صف ماتم بچھتی ، ہمارے پیارے ہم سے بچھڑجاتے جبکہ ہمارا وفاق نفاق کی نذرہوجاتا۔پی ٹی آئی کے کارکنان پرتشدد کوحکمران طبقہ نصرت سمجھتا ہے جبکہ پولیس فورس ایک بارپھر نفرت کی علامت بن گئی ۔لوگ پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں ڈنڈے تودیکھتے ہیں مگراس کے ڈانڈے تلاش نہیں کرتے۔ میں شہریوں کوڈنڈے مارنے والے اہلکاروں سے زیادہ ان کے ہاتھوں میں ڈنڈے تھمانے والے کرداروں کوقابل مذمت اورقابل گرفت سمجھتاہوں ۔شاہراہوں پرکنٹینرز کھڑے کرنے کے نتیجہ میں پاک فوج کے نڈر کرنل شاہد کی شہادت نے پاکستانیوں کوسوگوارکردیا،اس حادثہ میں میجر جلال شدیدزخمی ہوئے ۔ کرنل شاہدشہید کا خون ارباب اقتدارواختیار سے انصاف مانگ رہا ہے ۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایا تھا ''اگرکسی دشت میں کوئی خچر لڑکھڑا گیا تومحشر میں مجھ سے پوچھاجائے گا،عمر تم نے کس قسم کے راستے بنائے تھے'' ۔مگرآج شاہراہوں پرکنٹینر کھڑے کردیے جاتے ہیں اوراس کے نتیجہ میں کئی انسانوں کی موت ہوجاتی ہے جبکہ کئی زخمی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں شہریوں کی صحت اورتعلیم سمیت بنیادی ضروریات سے زیادہ شاہراہوں کواہمیت دی جاتی ہے۔

بدعنوانی اوربدانتظامی قومی بحرانوں کی روٹ کاز ہے،بدامنی کاسدباب کرنے کیلئے بدعنوانی کاصفایاکرناہوگا ۔ آزاد عدلیہ قومی لٹیروں کابے رحم احتساب کرے ۔ہمارا ملک انصاف کی فراوانی اورقانون کی حکمرانی میں کسی رکاوٹ یاملاوٹ کامتحمل نہیں ہوسکتا۔اگرانصاف بروقت نہ ہوتواس سے پیشہ ورمجرمان کوفائدہ پہنچتا ہے۔امید ہے چور وں کو اس بار ملک سے فرار کیلئے کوئی چورراستہ نہیں ملے گا۔انصاف کواپناراستہ خود بناناہوگا،اگرچوروں کیخلاف ٹھوس شواہدنہ ملیں توسلطانی گواہ تلاش کرکے ان کی شہادت کی بنیادپرفیصلے کئے جائیں ۔کپتان عمران خان کی طرف سے دھرناختم کرنے کا فیصلہ پسپائی یارسوائی نہیں بلکہ دانائی اوردانشمندی ہے ،اس فیصلے کے دوررس اثرات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔اگرپیچھے ہٹنا پسپائی ہوتا توحضرت اقبال ؑ ہرگز یہ نہ فرماتے
جھپٹا ،پلٹنا ،پلٹ کر جھپٹنا
لہوگرم رکھنے کاہے ایک بہانہ

عمران خان اپنے دباؤ سے پاناما معاملے کووہاں لے آیاہے جہاں کسی ملزم کی شعبدہ بازی نہیں چلے گی۔عمران خان کے کارکنان نے حالیہ دنوں میں جس استقامت اورمزاحمت کامظاہرہ کیااس سے سیاسی پنڈت بھی حیرت زدہ ہیں۔عمران خان کے حامیوں کوبرگرکلاس کاطعنہ دیا گیا مگر وہ ریاستی مشینری کے مقابل چٹان کی طرح ڈٹ گئے۔اب پی ٹی آئی کوایک سیاسی حقیقت اورعوامی طاقت تسلیم کئے بغیر نہیں رہاجاسکتا۔کپتان کویوٹرن خان کہا گیا مگر اس نے اگلے مرحلے کیلئے اپنی اوراپنے حامیوں کی توانائیاں بچالی ہیں۔سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا،سیاست جوش نہیں ہوش کاکام ہے۔عمران خان،شیخ رشید،جہانگیرترین،پرویز خٹک ،چودھری سروراورعبدالعلیم خان اس مرحلے کے فاتح ہیں۔سیاسی انتقام سے کبھی اقتدارکودوام نہیں ملتا، انتقام کسی حکمران کو انجام سے نہیں بچاتا۔جوپیچیدہ مسائل طاقت اورتکبر سے حل نہیں ہوتے وہ تدبراورتدبیر سے ہوجاتے ہیں،محاورہ ہے جوگڑسے مرجائے اسے زہرنہیں دیاجاتا۔ہمارے حکمران دشمن ملک سے مذاکرات کیلئے منت سماجت پراترآتے ہیں اوردشمن سے دوستی کی خاطر قومی حمیت پرحملے کرنے سے بھی بازنہیں آتے مگر اپنے اقتدارکوچیلنج کرنیوالے ہم وطن سیاستدانوں سے گفتگوکرناانہیں پسند نہیں ۔فوجی حکمرانوں کی رعونت سمجھ آتی ہے مگر منتخب حکمران کیوں فرعون بن جاتے ہیں،کیا امریکہ کے حکام اپنے مفادات کیلئے پاکستان میں اپنے وفاداروں کیلئے ہرباراقتدارکاراستہ ہموارکرسکتے ہیں ،کیا ہرا لیکشن 11فروری 2013ء کی طرح ہوسکتا ہے۔مجھے آصف علی زرداری کے صبر،انتظاراوران کی خاموشی پرتعجب ہے ،ہمارے اقتدارپرست سیاستدان اﷲ تعالیٰ سے زیادہ اپنے بیرونی آقاؤں پرتوکل کرتے ہیں،انہیں لگتا ہے جس بات کاضامن امریکہ بن جائے وہ ضرورپوری ہوتی ہے۔ امریکہ پرانحصار کرنے والے یادرکھیں امریکہ سے بڑاکوئی طوطاچشم نہیں ۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ''ایک چال انسان چلتا ہے اورایک چال میں چلتاہوں''۔اﷲ تعالیٰ جس وقت کوئی چال چلتا ہے توپھروہاں انسان کا کوئی بس نہیں چلتا ۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ کافرمان ہے ''میں نے اپنے ارادوں کے ٹوٹ جانے سے اﷲ تعالیٰ کوپہچانا''،انسان کے اندازوں اور ارادوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔کل کیا ہوگاکوئی نہیں جانتا،اقتدارسب کچھ نہیں ہے۔پاکستان کاوجوداﷲ تعالیٰ کازندہ معجزہ ہے اورتاریخ گواہ ہے جس کسی نے اس ریاست کواندریاباہر سے نقب لگائی اس کانام ونشان باقی نہیں رہا۔

جوعوام کے ووٹ سے اقتدارمیں آتے ہیں ان کامزاج مختلف ہوتا ہے اورجس کسی کوامریکہ کے آشیربادکازعم ہواس کوعوام اچھوت لگتے ہیں ۔جولوگ پرویز مشرف کے دورمیں ستم زدہ تھے وہ آج دوسروں پر ستم ڈھارہے ہیں،اس کامطلب انہوں نے کچھ نہیں سیکھا۔حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایاتھا ''طاقت اوردولت ملنے سے انسان بدلتا نہیں بے نقاب ہوتا ہے'' ۔اگرپرویز مشرف کی صورت میں مطلق العنان نہیں رہا تویقینا اس کے سیاسی جانشین بھی ہمیشہ نہیں رہیں گے۔اقتدارمیں آنااہم نہیں خودکواقتدار کے اہل منوانااورڈیلیورکرنا اہم ہے۔الزام کاجواب الزام نہیں ہوتا،سچائی تک رسائی انسانوں کابنیادی حق ہے۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ سے جس وقت ایک مجلس میں دوچادروں بارے دریافت کیاگیا توانہوں نے الٹا''گستاخ'' سے تلاشی دینے کیلئے نہیں کہا بلکہ اپنا حساب دیا ۔ہرانسان کوصادق وامین ہوناچاہئے مگر مسلم ریاست کے حکمرانوں کااس معیارپرپورااترناازبس ضروری ہے۔مغر بی معاشر ہ ماں باپ کوان کے بچوں کے قول وفعل پرجوابدہ نہیں سمجھتا لیکن اسلام کی روسے مسلمان ماں باپ سے ان کے بچوں کے گناہوں پربازپرس کی جاتی ہے ۔کم علم کے ساتھ سمجھوتہ کیا جاسکتا مگرکم ظرف کاوجود کسی بوجھ کی طرح ہوتا ہے جوبرداشت نہیں ہوتا۔کچھ افراد چورہوتے ہیں اورکچھ عناصر کے دل میں چورہوتا ہے،جس کے دل میں چورنہ ہووہ تلاشی دینے سے نہیں گھبراتا۔ماضی اس درپن کی طرح ہے جس میں دیکھتے ہوئے ہم اپنے حال کاچہرہ سنوار سکتے ہیں ۔پاکستان کے اندرحالیہ دنوں میں جوکچھ ہوا اگر یہ جمہوریت ہے توپھر پرویز مشرف کی رخصتی کے باوجودملک سے آمریت رخصت نہیں ہوئی ۔اگرپرویزمشرف دورمیں دفعہ144بری تھی توآج کس طرح اچھی ہوسکتی ہے۔تعجب ہے جوکنٹینرز سلمان تاثیر کے گورنرراج میں نوازشریف کواسلام آبادکی طرف جانے سے روکنے میں ناکام رہے وہ عمران خان کوکس طرح روک سکتے تھے۔پرویزی آمریت اورپانامی جمہوریت میں کیا فرق ہے ۔کانچ کے گھر میں بیٹھے حکمران دوسروں پر خشت باری نہیں کرتے کیونکہ جواب میں مشتعل مظاہرین کے پتھروں سے ان کااپناکانچ کامحل چکناچورہوجاتا ہے ۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126405 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.