اسلامی جمہوریہ پاکستان میں آئین کے مطابق
امیر و غریب ہر طبقے کو یکساں حقوق حاصل ہیں یہاں تک کہ اقلیت کو بھی مکمل
آزادی دی گئی ہے کہ وہ اپنی مذہبی و معاشی زندگی آزادی کے ساتھ گزار سکتے
ہیں لیکن حکمران اور کاروباری طبقہ کے طاقتور لوگ اگر کسی غریب اور ناتواں
کے خلاف ہو جائیں تو وہ کسی نہ کسی طریقے اسے اپنے شکنجے میں جکڑ ہی لیتے
ہیں ۔ایک مشہور کہانی ہے کہ ایک نہر کنارے بھیڑ کا بچہ پانی پی رہا تھا
جبکہ اسی نہر کے دوسرے کنارے پر ایک بھیڑیا بھی پانی پی رہا تھا ۔بھیڑ کے
بچے کو دیکھ کر بھیڑیے کے منہ میں رال ٹپکنا شروع ہو گئی اور اسے کھانے
کیلئے بے تاب ہو گیا ۔بھیڑیا میمنے کو مخاطب ہوا اور کہنے لگا تم میرا پانی
گندہ کر رہے ہو !میمنے نے جواب دیا پانی تو آپ کی طرف سے میری جانب بہہ رہا
ہے تو آپ کا پانی گندہ کیسے ہو گیا !بھیڑیا خاموش ہو کر دوسری چال سوچنے
لگتا ہے اور میمنے سے کہتا ہے تم نے جو مجھے ایک سال پہلے گالی دی تھی میں
نے اس کا تم سے بدلہ لینا ہے اور تمہیں کھا جاؤں گا تو میمنا بولا میں تو
ایک سال پہلے پیدا ہی نہیں ہوا تھا تو بھیڑیا بولا تم نے نہیں تو تمہارے
ماں،باپ یا کسی رشتہ دار نے دی ہو گی انہیں باتوں میں لگا کر بھیڑیا میمنے
کے قریب پہنچ جاتا ہے اور اسے کھا جاتا ہے ۔اگر جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا
بھی غلط نہیں ہو گا کہ غریب اور نا تواں و کمزور شخص کے ساتھ بھی بھیڑ کے
بچے جیسا سلوک کیا جاتا ہے دستور ِ اسلامی جمہوریہ پاکستان اس ملک میں بسنے
والے ہر شخص پر یکساں لاگو ہوتا ہے اور اگر اس بات کو یقینی بنایا جائے تو
ملک میں ترقی و خوشحالی جلد متوقع ہے ۔پاکستان کی تاریخ کا اگر مختصر جائزہ
لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کبھی بھی انصاف و عدل کے تقاضوں کو پورا نہیں
کیا گیا اور ہمیشہ عوام کو اندھیروں میں رکھ کر طاقتور لوگوں کی سہائتہ کی
گئی ۔ 26دسمبر 1971 کو مشرقی اور مغربی پاکستان کی علیحدگی پر بننے والا
انکوائری کمیشن جسے حمودالرحمٰن کمیشن کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے کی
رپورٹ سات ماہ میں تیار کر لی گئی تھی اور اس میں تفصیلات کے ساتھ واضح کیا
گیا کہ مشرقی پاکستان کے ساتھ علیحدگی کی وجوہات کیا تھیں !دو سال بعد جو
بھارت سے جنگی قیدہ رہا کئے گئے تھے ان کے بیانات بھی اس رپورٹ میں قلم بند
کئے گئے تھے ۔1973میں یہ رپورٹ مکمل کر کے حکومت کے حوالے کی گئی تھی جسے
حکومت نے حساس قرار دے کر عوام کے سامنے لانے سے معذرت کر لی اس کے بعد
ایسی خبریں بھی سامنے آئیں کہ اس رپورٹ کی ایک کاپی بھارت کو ارسال کی گئی
تھی ۔سال 2000 میں اس رپورٹ کے کچھ حصے منظر عام پر آئے اس کے بعد اس رپورٹ
کو مزید خفیہ مقام پر منتقل کر دیا گیا ۔سال 1996 میں ذوالفقار علی بھٹو کے
صاحبزادے اور محترمہ بے نظیر بھٹو مرحوم کے بھائی مرتضٰی بھٹو کو کراچی میں
قتل کر دیا گیا اس میں مزید دلچسپ بات یہ تھی کہ اس وقت مملکت ِ خداداد ِ
پاکستان کی وزیر اعظم خود محترمہ بے نظیر بھٹو تھیں اور اس قتل کیس کی
تحقیقات کیلئے سندھ ہائی کورٹ کے جج ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں کمیشن
بنایا گیا اور پھر اس معاملے کو بھی دبا دیا گیا ۔چیف جسٹس افتخار چوہدری
کو جب مشرف نے برطرف کیا تو پولیس والوں نے افتخار چوہدری کا گریبان پکڑا
تھا آج تک اس شخص کا تعین نہیں کیا جا سکا کہ گریبان کس نے پکڑا تھا ۔سال
2011میں امریکہ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پاکستانی سرحدی حدود میں اسامہ بن
لادن کو ہلاک کردیا ہے امریکی تیاروں کا غیر قانونی طور پر پاکستان میں
داخل ہونا ،کاروائی کرنا اور عالمی دہشتگرد کو قتل کر کے واپس چلے جانا جس
میں پاکستان کے کسی ادارے کی جانب سے کوئی رد عمل یا کاروائی عمل میں نہ
لانے پر تحقیقات کیلئے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا ۔چار
جنوری 2013 کو اس کیس کی تحقیقاتی رپورٹ حکومت کے حوالے کی گئی جسے انتہائی
حساس قرار دے کر عوام کے سامنے لانے سے گریز کیا گیا اور خفیہ کر دی گئی اس
کے بعد یہ خبریں بھی سامنے آئی کہ اس رپورٹ کی ایک کاپی امریکہ کو بھی
بھیجی گئی تھی ۔29 مئی 2011اسلام آباد کے ایک صحافی سلیم شہزاد نے اسامہ
آپریشن کے حوالے سے کچھ خبریں منظر عام پر لائیں اور اس کے بعد پراسرار طور
پر اس کا قتل ہو گیا ۔اس کے قتل کی انکوائری کیلئے جسٹس ثاقب نثار کی
سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا دس جنوری 2012کو جسٹس نے انکوائری رپورٹ
حکومت کے حوالے کر دی اسے بھی خفیہ خانوں کی نظر کر دیا گیا ۔پاکستان کے
مشہور اور نامور صحافی و تجزیہ نگار حامد میر پر دن دیہاڑے حملہ ہوا اس
حملے کی تحقیقات کیلئے جسٹس ظہیر انور جمالی جو کہ موجودہ چیف جسٹس بھی ہیں
کی زیر سرپرستی کمیشن تشکیل دیا گیا اس کی رپورٹ میں آج تک حملہ آوروں کا
تعین نہیں کیا جا سکا اور اس رپورٹ کو بھی خفیہ خانوں کی نظر کر دیا گیا ۔سابقہ
وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے پر ایفیڈرین کے زیادہ مقدار میں سمگل
کرنے کے الزامات درج ہوئے جس کی تحقیقات کیلئے بھی کمیشن تشکیل دیا گیا جس
کی تحقیقات بارے آج تک کسی کو معلوم نہیں کہ کیا ہوا تھا اور نہ ہی کچھ
منظر عام پر لایا گیا بلکہ حساس قرار دے کر خفیہ خانوں میں بند کر دیا گیا
ہے ۔آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی کے بدنام زمانہ کیس جسے اوگرا سکینڈل
کے نام سے یاد کیا جاتا ہے میں وجوہات تو یہ تھیں کہ اس وقت کے چئیرمین
اوگرا توقیر صادق نے سی این جی سٹیشنز کے غیر قانونی اتھارٹی لیٹرز جاری
کئے اور جعلی دستاویزات تیار کیں جس کی مد میں توقیر صاد ق نے 82بلین روپے
کی کرپشن کی اور مزید یہ کہ اس کیس کی تحقیقات کیلئے جسٹس جواد ایس خواجہ
کی سربراہی میں کمیشن تشکیل دیا گیا کمیشن کی ابتدائی تحقیقات میں توقیر
صادق کی چیئر مین اوگرا کے منصب پر تعیناتی کالعدم قرار دی گئی جس کے بعد
توقیر صادق ابوظہبی میں مقیم ہوگیا لیکن مزید تحقیقات پر اسے دوبارہ
پاکستان لایا گیا اور نام ای سی ایل میں ڈال دیا گیا ۔ چونکہ اس وقت پیپلز
پارٹی کا دور حکومت تھا اور توقیر صادق کا اس وقت کے منسٹر سے گہرا یارانہ
تھا اسی لئے اس کا نام ای سی ایل سے نکلوا دیا گیا اور وہ دوبارہ ملک سے
باہر شفٹ ہو گیا اس کے بعد آج تک اتنے بڑے گھپلے کے باری میں کوئی پیش رفت
سامنے نہیں آئی بلکہ معاملہ ہی دبا دیا گیا ۔زرداری کے دور حکومت میں ریمنڈ
ڈیوس نامی امریکی باشندے نے دن دیہاڑے لاہور کی سڑک پر دو جوان لوگوں کو
قتل کر دیا جسے راتوں رات کہاں غائب کر دیا کچھ پتہ نہیں اور اس کے کیس کا
کیا بنا آ ج تک خفیہ خانوں میں کہیں گم ہے ۔نند ی پور پاور پراجیکٹ پر
اربوں ڈالر خرچ کئے گئے لیکن وہ فیل ہو گیا اس کے فیل ہونے کی تحقیقات
کیلئے جو کمیشن بنایا گیا اس کی رپورٹ آج تک عوام سے خفیہ رکھی گئی ہے اور
عوام کا اربوں روپیہ ڈوب گیا ۔زرداری کے دورحکومت میں ہی حج کرپشن سکینڈل
سامنے آیا جس میں ہزاروں عازمین ِ حج سے اربوں ڈالر کے حساب سے رقم بٹوری
گئی اور ذلیل و رسوا الگ کیا گیا جس کی تحقیقات کیلئے بھی کمیشن کا قیام
عمل میں لایا گیا لیکن آج تک اس کمیشن اور کیس کے بارے میں تمام معلومات
خفیہ اور حساس ہیں ۔حالیہ دور حکومت میں دن دیہاڑے روح سوز سانحہ ماڈل ٹاؤن
پیش آیا جس کیلئے عوام نے سر توڑ کوشش کی احتجاج کئے ،ریلیاں نکالیں ہر طرح
سے کوشش کی لیکن اس کو بھی کمیشن کی نظر کر دیا گیا ہے اور ذمہ داران
دندناتے پھرتے ہیں ۔سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بیٹے کا قتل کیس کہاں
دفنا دیا گیا آج تک معلوم نہیں ہو پایا۔اسی طرح ملک میں روزانہ کئی کمیشنز
بنتے ہیں کوئی قتل ہو گیا تو تب کمیشن کہیں دھماکہ ہو گیا تب کمیشن لیکن آج
تک ان کے بارے میں کوئی تحقیقاتی معلومات اور کیسز کا حل منظر عام پر نہیں
لایا جا سکا اور ہمیشہ ایک ہی بات کی گئی کہ یہ معلومات حساس ہیں اس لئے
انہیں خفیہ رکھا گیا ہے یہاں سمجھ نہیں آتا کہ حساس کا اشارہ کس کی جانب
کیا جا رہا ہے کیا وہ کاغذ جس پر یہ معلومات رقم ہیں وہ اتنے حساس ہیں کہ
اگر انہیں چھوا جائے تو وہ بکھر جائے گا اور معلومات ضائع ہو جا ئیں گی اور
اگر ان میں ملکی سالمیت کے ثبوتاژ ہونے کا خطرہ ہے تو ان لوگوں کو انجام تک
کیوں نہیں پہنچایا جاتا جو ان کاروائیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں ؟؟اس خفیہ
خانے میں عوام کے اربوں ڈالر کہیں ڈوب گئے ہیں ۔رواں سال ایک اور سکینڈل نے
سر اٹھایا ہے جسے پاناما لیکس کا نام دیا گیا ہے جس کی زد میں کوئی بھی
غریب شخص نہیں بلکہ بڑے بڑے رئیس زادے اور سیاستدان آئے ہیں پاکستان میں
بھی پاکستانی وزیر اعظم اور ان کی فیملی سمیت دیگر امراء کا نام ان پیپرز
میں ہے کہ انہوں نے غریبوں کا حق غصب کیا اور ملک کا ٹیکس چوری کر کے بیرون
ملک جائیدادیں بنائیں ہیں جس پر کمیشن تشکیل دیا گیا ہے اور تحقیقات جاری
ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ اس کمیشن کا حال بھی سابقہ کمیشنز کی طرح ہوتا ہے
یا واقعی عوام کو کچھ لوٹایا جائیگا اگر نہیں تو پھر پاکستانی آئین میں ہی
ترمیم کر دی جائے کہ غریب کیلئے الگ قانون ہیں اور امراء کیلئے الگ ۔ |