عمران خان نے سپریم کورٹ پر اعتماد کرتے
ہوئے دھرنا ختم کرکے بہت اچھا کام کیا ہے ۔ جب ملک میں آزاد عدلیہ جیسے
موثر اور غیر جانبدار ادارہ موجود ہے تو پھر سیاسی قائدین کو بات بات
پرجلسے جلوس اور دھرنے دینا زیب نہیں دیتا ۔ اس سے قطع نظر کہ عمران کی
دھرنے پالیسی کامیاب ہوئی یا ناکام ۔ لیکن میں یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں
کہ عمرانی دھرنے سے وادی کشمیر میں جاری جدوجہد آزادی نظروں سے اوجھل ہوچکی
ہے ۔ دھرنا تو 2 نومبر کو تھا لیکن اکتوبر کے ابتداء ہی سے دھرنے کی
لامحدود کوریج نے جہاں کشمیر کوپس منظر میں کیا ، وہاں بریکنگ نیوز کے عذاب
سے پوری قوم کو ذہنی مفلوج کر دیاتھا۔ وہ کشمیر ی جو پاکستانی پرچم اٹھاکر
بھارتی فوج کے سامنے سینہ تان کر آزادی مانگ رہے ہیں انہیں دکھانے کی ہمارے
میڈیانے ضرورت ہی محسوس نہیں کی۔بھارت بھی یہی چاہتا تھا کہ پاکستان اپنے
مسائل میں کچھ اس طرح الجھ جائے کہ اسے کشمیر یاد ہی نہ رہے ۔ بزرگ کشمیری
رہنما سید اسعدگیلانی نے پاکستان میں بڑھتے ہوئے انتشار پر افسوس کااظہار
کرتے ہوئے کہا کہ قائداعظم نے کشمیر کو اپنی شہ رگ قرار دیا تھا لیکن
پاکستان کے سیاسی قائدین احتجاجی سیاست میں اس حد تک آگے جاچکے ہیں کہ
انہیں اپنی شہ رگ بھی یاد نہیں رہی ۔اس عمرانی طوفان کو اٹھانے میں ہمارے
بے لگام الیکٹرونکس میڈیا بہت متحرک رہا۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ
سچ دکھانے اور اپنی ریٹنگ بڑھانے کے چکر میں میڈیا اس قدر اندھا ہوچکا
تھاکہ اسے یہ بھی خبر نہیں ہوتی کہ اس کی حد سے زیادہ کوریج سے ملک کو کس
قدر نقصان پہنچ رہاہے۔ شیخ سعد ی ؒ کی حکایت ہے ایک سزائے موت کے قیدی کو
بادشاہ کے روبرو پیش کیاگیا ۔ قیدی نے اپنی مادری زبان میں گالیاں دینا
شروع کردیں ۔بادشاہ چونکہ قیدی کی زبان نہیں جانتا تھااس لیے اس نے وزیر سے
پوچھا کہ قیدی کیا کہہ رہا ہے ۔ نیک سیرت وزیر نے کہا بادشاہ سلامت قیدی
کہہ رہا ہے کہ اﷲ تعالی معاف کرنے والوں کو پسندکرتا ہے ۔ یہ سن کر ایک اور
وزیر اپنی جگہ سے اٹھا اور کہا ہمیں زیب نہیں دیتا کہ ہم سچ کے علاوہ بھی
کوئی بات کریں۔پھر بادشاہ کو مخاطب کرکے بولا ۔ عالی مرتبت ،وزیر نے آپ سے
جھوٹ بولا ہے ۔ سچ یہ ہے کہ قیدی نے تو آپ کو گالیاں دی ہیں ۔دونوں وزیر وں
کی گفتگو سننے کے بعد بادشاہ نے دوسرے وزیر کو مخاطب کرکے کہا مجھے تمہارے
سچ سے جس میں کسی کی برائی چھپی ہے پہلے وزیر کا وہ جھوٹ زیادہ اچھا لگا جس
میں کسی کی بہتری نمایاں ہے۔ یہ حکایت یہاں درج کرنا مقصد یہ ہے کہ ہمارا
الیکٹرونکس میڈیا سچ اور حقیقت دکھانے کے چکر میں اس قدر آگے نکل چکا ہے کہ
اسے یہ بھی یاد نہیں رہا کہ یہ کوریج دیکھ کر دشمن ممالک کس قدر خوش ہورہے
ہوں گے۔کاش پاکستانی میڈیا یہی جوش و خروش پاک فوج کے ان شہیدوں اور ان کے
خاندانوں کی کوریج کرکے دکھاتا۔جو دھڑا دھڑا اپنی جانیں اس ملک پر قربان
کررہے ہیں ۔اس وقت تک دہشت گردی کی جنگ اور ہمیں سکھ چین کی نیند سلانے کے
لیے پاک فوج کے پانچ ہزار افسر اور جوان شہید ہوچکے ہیں ۔عمران کی روزانہ
بک بک کو دکھانا ضروری ہے یا ان شہیدوں کے کارناموں کو اجاگر کرنا ۔ان
شہیدوں کے بیوی بچے کس حال میں ہیں کیا ان کی کوریج کرناگناہ ہے ۔ افسوس در
افسوس کہ ہمارے میڈیا کے پاس اتنا وقت نہیں ہے اور نہ ہی اس کی توجہ پاک
فوج کے شہیدوں اور غازیوں کی جانب ہے۔ شہیدوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں اور کسی
کو کانوں کان خبر نہیں۔ پاکستان میں میڈیا چونکہ اس قدر طاقتور ہوچکا ہے کہ
حکومت بھی ٹکر لینے سے گبھراتی ہے لیکن میری نظر میں بریکنگ نیوز بالکل ختم
اور کسی بھی جلسے جلوس اور دھرنے کی براہ راست کوریج پر پابندی عائد ہونی
چاہیئے۔ بطور خاص ملک کی بنیادوں کو کھوکھلاکرنے والوں کا بلیک آؤٹ ہونا
بہت ضروری ہے۔ہر شخص جانتا ہے اقتصادی راہداری گیم چینجر منصوبہ ہے بھارت
اس منصوبے کو ناکام بنانے کی ہر ممکن کوششیں کررہا ہے وہ ڈائریکٹ اور ان
ڈائریکٹ پاکستان میں اپنے ایجنٹوں کو اس منصوبے کے خلاف متحرک کرتا رہتا ہے
۔محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے بالکل ٹھیک کہا کہ پہلے الطاف حسین
نے میڈیاپر یلغار کر رکھی تھی اس کی بولتی عدالت نے بند کی ہے تو عمران کی
زبان منہ میں واپس جانے کا نام نہیں لے رہی۔وہ اب بھی سپریم کورٹ کے باہر
ہر سماعت پر زمین و آسمان کے قلابے ملاتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہاں یہ عرض
کرتا چلوں کہ تحریک انصاف کے نظریاتی گروپ کے مرکزی رہنما اکبر شیر بابر کے
مطابق عمران نے دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے 3 بلین ڈالر ہنڈی کے ذریعے
بیرون ملک سے منگوائے تھے ۔اتنی بڑی رقم کس نے بھیجی اور کہاں سے آئی۔ کچھ
پتہ نہیں۔لیکن عمران خان نے اس رقم کو بروئے کار لاکر پاکستان میں جس
انتشار کی بنیاد رکھ دی ہے اس کا ثبوت خیبر پختوانخواہ حکومت کی جانب سے
وفاقی وزیر داخلہ ، آئی جی ، ایف سی اور آئی جی پولیس پنجاب کے خلاف ایف
آئی آر کا شکل میں ظاہر ہوچکا ہے۔ جب جتھے سمیت پرویز خٹک کو پنجاب میں
داخل ہونے سے روکا گیا تو ان کی جس باغیانہ اور نفرت انگیز گفتگو میڈیا کے
ذریعے عوام تک پہنچی ۔اسے سن کر سخت تکلیف ہوئی ۔ شاید عمران اور کچھ کرسکے
یا نہیں لیکن انہوں نے پرویز خٹک کی زبان سے پنجاب اور خیبر پختوانخواہ کے
درمیان محبت و چاہت کے رشتے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ بھارتی فوج
کشمیر میں اور کنٹرول لائن پر مسلسل درندگی ،وحشت اور گولہ باری کررہی ہے
جس کی وجہ سے شہادتیں مسلسل ہورہی ہیں ان حالات میں کیا وفاقی دارالحکومت
پر یلغار کرنے کو دانشمندی قرار دیاجاسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ تھرڈ ائمپائر
نے عمران کو دھرنا ختم کرنے پر مجبور کردیا ۔اب جبکہ سپریم کورٹ پانامالیکس
کے حوالے سے سماعت باقاعدہ شروع ہوچکی ہے ۔اگر فیصلہ عمران کے تصورات کے
برعکس آیا تو کیا عمران اسے دل سے قبول کرلیں گے ۔یقین سے کچھ نہیں
کہاجاسکتا کیونکہ وہ خود کو عوام ، خود کو جج سمجھتاہے ۔ وقت سے پہلے ہی
سوشل میڈیا پر یہ بازگشت سنی جارہی ہے کہ نواز شریف ججوں کو بھی خرید سکتے
ہیں گویا وقت سے پہلے ہی پیش بند ی شروع کردی گئی ہے ۔ اس لمحے اس امر کی
ضرورت ہے کہ میڈیا عمران کو حد سے زیادہ کوریج دینے کی بجائے ایک بار پھر
کشمیر ایشو پر فوکس کرے اور وادی کشمیر میں ہونے والے مظالم کو اجاگر کرکے
آزادی کشمیر کی راہ ہموار کی جائے ۔کیونکہ کشمیر ہماری شہ رگ ہے اور شہ رگ
کے بغیر جسم زندہ نہیں رہ سکتا ہے۔ |