تحریک پاکستان میں سب سے زیادہ خدمات علی
گڑھ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا و طالبات کی رہی ، تعلیم یافتہ
نوجوانوں نے پاکستان کےبننے میں جس قدر اپنی کاوشیں اور صلاحیتوں کے سبب
مسلم قوم میں علم کی روح پھونکی وہیں ان ہی تعلیم یافتہ نوجوانوں نے
پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے بعد ہجرت کرکے اس خطے کو جسے ہم اب
اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں ۔ سن انیس سو سینتالیس کو ون یونٹ کی
حیثیت سے پاکستان وجود میں آیا تھا اس میں ایک مشرقی پاکستان جو اب بنگلہ
دیش ہے دوسرا مغربی پاکستان جسے ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان کہتے ہیں، ان
دونوں یونٹ میں تعلیم یافتہ اورہنر مندوں نے اپنے اپنے فن سے پاکستان کو
استوار کرنے میں بہت بڑا اہم کردار ادا کیا تھا، اُس زمانے میں تنخواہیں
جہاں کم تھیں وہیں روپے کی قدر بھی بہت زیادہ تھی اسی لیئے سستی دور میں
زندگی با آسانی ایک بڑے کنبے کیساتھ بسر کی جارہی تھی، اُس دور میں سیاسی
لیڈر ہوں یا مذہبی اسکالرز تمام کے تمام ایک دوسرے کی عزت و احترام کو پاس
رکھتے تھے یہی نہیں ایک دوسرے کی تقریبات میں اپنی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے
اپنی اپنی خدمات بھی پیش کیا کرتے تھے، پاکستان کے ابتدائی دور میں امن و
امان اور سکون کی کیفیت تھی۔ پاکستان کے ابتدائی دور میں صرف اور صرف
سرکاری اسکول و کالج اور یونیورسٹی تھیں ان درسگاہوں میں اساتذہ کرام اور
طلابہ و طالبات کی حاضری سو فیصد رہتی تھی، تمام مضامین کو نہایت ایمانداری
اورفرض شناسی اورخوش اسلوبی کیساتھ ادا کیا جاتا تھا یہی نہیں بلکہ غیر
نصابی سرگرمیاں جس میں کھیل، اسکاؤٹنگ ، پی ٹی کیساتھ کیساتھ تقاریر،
مضمون نویسی اور دیگر مقابلہ جات منعقد کیئے جاتے تھے، اساتذہ کرام ہوں یا
طلبہ و طالبات سب کے سب لائبریری میں مطالعہ میں مصروف دیکھائی دیتے تھے،
تحقیق ہو یا مشاہدات تمام امور میں بھی درسگاہیں مصروف عمل دکھائی دیتی
تھیں، حکومت کی جانب سے کسی بھی قسم کی مداخلت کا عمل نہیں تھا البتہ
درسگاہوں کی ضروریات کے تحت مالی امداد کیلئے مشاورت کی جاتی تھیں، تقرر کا
عمل نان ٹیچنگ کیلئےہیڈ ماسٹر اورٹیچنگ اسٹاف کیلئے ضلع افسر با اختیارتھا
،سالانہ درسگاہوں کا باقائدگی کیساتھ آڈٹ کیا جاتا تھا ، سالانہ درسگاہوں
کا بجٹ انتہائی ایمانداری اور سچائی کیساتھ استعمال کیا جاتا تھا۔ میںایک
ایسے ایماندار، سچے، مخلص اور اصول پسند علیگرین ماہر تعلیم کو جانتا ہوں
جن کی زندگی مشعل راہ تھی آج انہیں گزرے چودہ سال بیت گئے لیکن ان کی
تربیت و اصلاح سے کئی لوگ صحیح راہ پر گامزن ہیں، جناب سردار حسین صدیقی
مرحوم سابقہ ڈسٹرک ایجوکیشن آفیسر میرپورخاص نے ہمیشہ تعلیم کو عبادت کا
درجہ دیتے ہوئے درس دیا اور ایک کامیاب با عزت افسر کی حیثیت سے زندگی
گزاری۔ وہ گزیٹیٹ آفسیر بی پی ایس 19 میں ریٹائرڈ ہوئے تھے، ان کی سادگی
کا عالم یہ تھا کہ تن پر لباس میں پیوند ہوتے تھے ،سن انیس سو پچھتر میں
ایس ڈی ای او تھرپارکر تھے اُس زمانے میں ایک کروڑ سالانہ بجٹ آتا تھا
لیکن آپ کا حال یہ تھا کہ ایک پائی تک اپنی ذات پر خرچ کرنا گناہ کبیرہ
سمجھتے تھے،ان کی شرافت و ایمانداری ہر مسلک، ہر زبان سے تعلق رکھنے والے
وہ شخصیات دیتی ہیں جنھوں نے جناب سردارحسین صدیقی مرحوم صاحب کیساتھ کچھ
وقت گزارا ہو!!خیرپور میرس، پریالو، کمبٹ، سکرنڈ، نوابشاہ ،کھپرو، کنری،
ڈگری اور میرپورخاص کی بزرگ شخصیات آپ سے واقف ہیں!! معزز قائرین! آج وہ
وقت ہے جب دیگر اداروں کی طرح محکمہ تعلیم سب سے زیادہ کرپشن، بدعنوانی،
بےضابطگی، اقربہ پروری، نا اہلی، شفارش اور رشوت جیسے موذی امراض میں گھر
چکا ہے۔! محکمہ تعلیم سندھ کی حالت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ابتر ہے
کیونکہ ہیڈ ماسٹر سے لیکر تمام افسران اور سیکریٹری و وزیر لوٹ مار اور
کرپشن میں انتہا سے زیادہ ملوث ہیں، ان کی اس حالت کے سبب جہاں تعلیم ناپید
ہوچکی ہے وہیں اساتذہ کرام کے جائز حقوق سلب ہوگئے ہیں، اگر کسی کا پروموشن
ہو بھی جائے تو ایرئر یعنی بقایاجات کی وصولی میں بے پناہ رشور طلب کی جاتی
ہے اس رشوت میں محکمہ خزانہ سندھ کے اسٹاف اور اے جی سندھ کے بیشمار
ایدیٹرز بھی شامل میں ، اس دونوں اداروں نے اپنے اپنے کارندے رکھے ہوئے ہیں
جو بھاری رشوت کے سبب پروموشن لیٹرز سے بقایاجات تک کی وصولی کو ممکن
بنادیتے ہیں ۔۔!! سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت گزشتہ نو سالوں سے
ہے ان نو سالوں میں جس قدر کرپشن و لوٹ مار کا بازار گرم ہے اس پر جتنا
لکھیں کم ہے، جو پکڑے جاتے ہیں انہیں ایٹی کرپشن خود رشوت لیکر چھوڑ رہے
ہیں ،نیب بھی بھاری رقم لیکر آزاد کررہا ہے اس وقت سندھ کراچی سمندر کی
طرح مکمل کرپشن ، لوٹ مار اور بے ضابطگی میں ڈوبا ہوا ہے ، گورنر سندھ ہوں
یا وزیراعلیٰ سندھ اس معاملے پر خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں بہت زیادہ
صحافیوں کے شور پر ایک آدھ بیان دے دیا جاتا ہے لیکن ان اداروں کی روک
تھام کیلئے کوئی مثبت اقدام نہیں کیا جارہا ، اس حلقہ یہ کہتا ہے کہ سندھ
حکومت سندھ کے اداروں کے خلاف اس لیئے اقدامات نہیں کررہی ہے کیونکہ
پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے اداروں کے وزراہیں اور پی پی پی کے جیالوں کے
خلاف پارٹی پالیسی نہیں ہے۔دوسری جانب اپوزیشن جماعتیں سندھ حکومت کی صوبہ
سندھ سے تعلق رکھنے والے اداروں اور سندھ میں وفاقی اداروں میں بڑی تعداد
میں کرپشن، لوٹ مار، رشوت ستانی کے خلاف سراپا احتجاج ہین مگر ان کے خلاف
پی پی پی حکومت انہیں بلیک میل کرکے خاموش کیئے بیٹھی ہے کیونکہ سندھ میں
حکمران جماعت کیساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتوں کے کردار بھی مشکوک ہیں۔!! معزز
قائرین! سندھ حکومت اور اپوزیشن کے مشکوک کردار کی بنا پر اساتذاہ کرام کی
سینئر لسٹ، پروموشن کا عمل انتہائی سست روی کا شکار ہے جبکہ پس پردہ رشوت
کے طفیل لیٹرز بھی جاری کیئے جاتے رہیں ہیں ان غلط عوامل کے سبب اساتذہ
کرام کے حقوق سلب ہورہے ہیں دوسری جانب سیاسی بھرتیوں کا سلسلہ آج تک جاری
ہے، تقرریاں اب ہزاروں نہیں لاکھوں میں فروخت کی جارہی ہیں۔!!سابقہ صوبائی
وزیرپیر مظہر الحق اور ان کے سیکریٹریز، ڈائریکٹرز نے اربوں روپے تقرر کی
مد میں کمائے۔قومی احتساب بیورو نے موجودہ صوبائی وزیر علی مردان شاہ، سابق
وزیر تعلیم پیر مظہرالحق، سیکرٹری اطلاعات ذوالفقار شاہوانی اور ڈائریکٹر
منصور راجپوت پر بھی بدعنوانی کے الزامات عائد کئے ہیں، ایک اندازے کے
مطابق صوبے سندھ میں مبینہ طور پر سالانہ 230 ارب روپے کی کرپشن کی جا رہی
ہےاس کی وجہ غیر فعال سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد تقریباًچھ ہزار ہے، ان
اعداد و شمار کے اعتبار سے صوبہ سندھ میں سرکاری اسکولوں کی صورتحال
انتہائی خراب ہے جہاں ایک ہزار نو سو باسٹھ گوسٹ اسکولوں کے علاوہ چار ہزار
سے زائد غیر فعال تعلیمی اداروں کی مد میں حاصل کیئے گئے بجٹ کی رقم بھی
ہتھیالی جاتی رہی ہیں ، دوسری جانب صوبہ سندھ کے ستر فیصد سرکاری اسکولوں
میںنہ بجلی، نہ پانی اورنہ ہی چاردیواری ہیں کئی اسکولوں میں بیت الخلا ہی
نہیں ہےاورسندھ کے نوےفیصد اسکولوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی ہی
نہیں۔۔؟؟؟ زیر مشاہدہ اسکولوں میں سےبیاسی فیصد عملہ صفائی، پچھہترفیصد
سکیورٹی گارڈز جبکہ ستر فیصد نائب قاصدوں کے بغیر کام کر رہے ہیں۔۔۔!! معزز
قائرین ! میرے کالم کا عنوان اساتذہ کرام کے مسائل ہے لیکن اسکولوں کی بد
ترین حالت کا اثر بھی براہ راست اساتذہ کرام پر پڑتا ہے کیونکہ بجٹ اسکولوں
تک نہ پہنچنے کی وجہ سے باہمی تعاون سے اسٹاف رقم جمع کرکے اپنی آپ مدد کے
تحت کچھ نہ کچھ بنیادی ضروریات کو آسان کرتے ہیں ان میں پینے کا پانی، بیت
الخلا اور صفائی شامل ہیں۔سندھ بھر میں محکمہ تعلیم کے افسران ،نوکرشاہی
طبقہ اور وزرا کے خلاف گرینڈ آپریشن کی اشد ضرورت ہےبصورت سندھ بد سے بد
ترین ہوتا چلا جائے گا افسوس صد افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں
اپنے کارندوں کے ہر برے فعل کو چھپانے اور ان کی پشت پناہی سے باز نہیں
آتی بلخصوص پی پی پی کے دور اقتدار میں سندھ بے انتہا کرپشن اور لومار کی
نظر ہوجاتا ہے کیونکہ سندھ کے وزرا و مشیران قانون و ضوابط کو اپنے پاؤں
کی جاتی سمجھتے ہیں ہونا تو یہ چاہیئے کہ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو
زرداری پی پی پی مین کرپٹ عناصر کے خلاف از خود نوٹس لیتے ہوئے پارٹی
پالیسی کے تحت اقدامات کریں لیکن ان کی خاموشی کا کیا مطلب؟؟؟ یہ آپ خود
ہی بہتر سمجھ سکتے ہیں، سندھ کے نوجوان وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سے کیا
سندھ دھرتی اچھے اور مثبت اقدامات کی مراد رکھ سکتے ہیں کیا سید مراد علی
شاہ بھی لفظی جمع خرچ کرنے والے وزیر اعلیٰ ثابت ہونگے یہ تو وقت ہی بتائے
گا، اگر بھٹو اور بینظیر کی عزت کا پاس ہے تو یقیناً پاکستان پیپلز پارٹی
کو شفاف، قابل ، لائق اور ترقی یافتہ سندھ بنانے کیلئے محکمہ تعلیم کو اسی
انداز میں لانا ہوگا جو ہمارے بزرگ اساتذہ کرام ہمیں بتاگئےہیں، ہمارے
سینئرز ماہر تعلیم کا طریقہ تھا کہ وہ بلا تفریق قابلیت، سینئرٹی کے حقوق
کی حفاظت کیا کرتے تھے، پروموشن سے لیکر ان کے ایرئیرز تک کے مراحل کو
آسان بنایا گیا تھا جس میں رشوت اور کرپشن کا ذرا سا بھی عنصر نہ ہوتا تھا
اسی لیئے کچھ زمانے قبل سندھ میںہی ایسا نظام تھا کہ نہ صرف پاکستان بلکہ
دنیا بھر میں یہاں کی تعریف کی جاتی تھی، اے کاش پی پی پی کے جیالے اپنی
بینظیر اور ذوالفقار علی بھٹو کے منشور اور ان کی عزت کا ہی خیال رکھ لیں
۔۔۔!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔۔!! |