پارٹی الیکشن پر بات کرنے سے پہلے
میں دھرنے کے خاتمہ کے اعلان کی پر کچھ لکھنا چاہوں گا ساتھ ہی ضلع اوکاڑہ
میں تنظیمی ذمہ داریوں کے حوالے سے بھی بحث تحریر کا حصہ ہوگی۔پیشگی معذرت
کے ساتھ کے کسی کے دل آزاری کیلئے نہیں لکھ رہا بلکہ پارٹی کو پہنچنے والے
نقصان کو مدنظر رکھتے ہوئے جسارت کررہاہوں، دھرنے کا دباؤ ہر شعبہ زندگی سے
تقریبا ختم ہو چکا لیکن سیاست کے ایوانوں میں اس کی دھمک اب بھی باقی ہے
سپریم کورٹ کی تلوار حکومت کی سر پر فیصلہ آنے تک لٹکی رہے گی۔دھرنے کے
اچانک ختم کرنے اور اسلام آباد جلسے کے اعلان سے جہاں پی ٹی آٗئی ورکرز اور
خیر خواہ حیران وپریشان تھے وہاں ملک بھر میں ایک ٹینشن کی فضا پیدا ہو گئی
ہر کوئی سوال کرتا دکھائی دے رہا تھا کہ یہ کیا کر دیا کپتان نے ۔کسی نے
یوٹرن خان تو کسی نے مک مکا خان کا نام دیا۔ ٹی وی سکرینوں پر چند ایک
اینکرز کے علاوہ سب کی توپوں کے رخ کپتان کی طرف تھے، لیکن جوں جوں وقت
گزرتا جا رہا ہے سارے دعوے، غصے تحلیل ہو تے دکھائی دینے لگے ہیں ،ہیجانی
کیفیت ختم ہونا شروع ہو گئی پی ٹی آئی ورکرز جو گھروں میں چھپ گیا تھا واپس
میدان میں آگیا، سنجیدہ حلقوں نے تو فورا اسے عمران خان کا ایک بہترین سکسر
قرار دیا تھا لیکن جذباتی قوم تھی کہ سوگ کی صورتحال پیدا کرلی۔اب معاملات
کی چھان بین سپریم کورٹ کے سر ہے ،دیکھتے ہیں کہ عدلیہ اپنی سابقہ روایت
یعنی حکومت کا ساتھ دیتی ہے یا ماضی کا دھونا دھوتی ہے۔پہلی پیشی پر
توحکومت بیک فٹ پر نظر آئی،اور جواب داخل کیا گیا کہ پرائم منسٹر کی تمام
اولاد اپنا اپنا کاروبار کرتی ہے وزیر اعلظم کا ان سے کفالت کے حوالے سے
کوئی تعلق نہیں ہے۔ جبکہ وزیر اعظم کی اولاد میں سے مریم نواز کے خاوند کے
علاوہ ابھی تک کوئی جواب داخل نہیں کروایا گیااور عدالت نے انہیں بہت ہی
شارٹ وقت میں جواب داخل کرنے کا کہا اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو تمام
الزامات کو درست سمجھا جائیگاشریف فیملی کے پاس عدالت کے حکم کو یس کرنے کے
علاوہ کوئی راستہ نہیں۔ عمران خان نے تو بہترین کپتانی کرتے ہوئے حکومت پر
دباؤ برقرار رکھا اور اپنی حکمت عملی کی بدولت نوازشریف کو کٹہرے تک لانے
میں کامیاب رہے ہیں لیکن افسوس کا مقام ہے کہ اسلام آباد لاک ڈاؤن کیلئے جو
اعلانات ،دعوے کئے جا رہے تھے وہ سب رائیگاں گئے بھلا ہو سپریم کورٹ اورپی
ٹی آئی خیبر پختونخواہ کا جو میدان میں آئی اور کچھ عزت رہ گئی ورنہ پنجاب
کے چوری کھانے والے لیڈران نے توکپتان کو ذلیل کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی
میں اس وقت شیخ رشید کے ان الفاظ کو نقل کرتا ہوں کہ گاڑی کے انجن تو بنی
گالا پہنچ گئے لیکن ڈبے پولیس کی لاٹھیاں کھاتے رہے، یقینا ایسا ہی ہوا اور
شیخ صاحب نے بھی کیا خوب وضاحت فرمائی،شاہ محمود قریشی ، اسد عمرکا شمار
بڑے لیڈرز میں ہوتا ہے لیکن افسوس کہ ان کے درمیان میں سے ورکرز کو گھسیٹ
کر لے جایا گیااور ڈنڈوں سوٹوں سے تواضع کی جاتی رہے لیکن دونوں ہاتھ
باندھے ریاستی غنڈوں کے ہاتھوں اپنے ورکرز کی دھلائی ہوتے دیکھتے رہے اور
اسی رات بنی گالا پہنچ گئے دیگر لیڈرز حضرات بھی پولیس کے ایکشن سے پہلے ہی
بنی گالا میں پناہ گزین ہوگئے اور میٹنک در میٹنگ کرتے رہے، ورکرزکو پوچھنے
والے ، سنبھالنے والا کوئی نہیں تھا،ان کے پاس کوئی لائن آف ایکشن نہیں تھی
کہ کیسے نکلیں اور کس طرح بنی گالا پہنچیں۔ راقم کو ضلع اوکاڑہ میں پاکستان
تحریک انصاف کے پروگرامز کی رپورٹنگ کرنے کا کافی موقع ملااور میں نے محسوس
بھی کیا کہ ضلع اوکاڑہ میں پاکستان تحریک انصاف کو جائن کرنے والے پاکستان
پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ ن ودیگرلیڈرز جن میں سید صمصام بخاری
راؤسکندر اقبال فیملی عبدالوحید کاکڑراؤقیصرملک نذر فرید کھوکھر طارق ارشاد
خان ملک وقار نول جاوید اقبال وٹوجاوید مہار میاں ظفر یاسین خان وٹو اپنے
ادوار میں بے تاج بادشاہ تھے اور اب پاکستان تحریک انصاف کے حصہ ہیں جو نام
اوپر تحریر کئے ہیں اگر وہ نظریاتی ورکرز کی طرح گھروں سے نکل پڑتے تو
پنجاب کی سرزمین پر بھونچال آجاتا،یہی لیڈرز حضرات اگر اپنے ورکرز کے ساتھ
کھڑے ہوتے تو قانون ساز ادارے کہیں بھی راستے میں نہ آتے، لیکن سب کچھ سوچ
کے برعکس ہوا۔ ہر ایک نے اپنے آپ کو بنی گالا پہنچانا ضروری سمجھا تاکہ
سیلفیوں کے ذریعے اپنی حاضری کو پکا کر لیا جائے،کسی نے بھی ورکرز کی طرف
دھیان نہ دیا بلکہ اس حد تک ورکرز سے دامن بچایا کہ ان لیڈرز حضرات نے اپنے
اپنے موبائل فون آف کر لئے، اب صورتحال یہ ہو چکی تھی کہ ورکرز ایک دوسرے
سے پوچھتے تھے کہ آیا ان کی قیادت گرفتار ہو چکی یا رپوش ۔ جب ایسے حالات
پیدا کر دیئے جائیں تو ورکرز کیا کر سکتا ہے میں نے ذاتی طور پر کچھ
معلومات کے لئے ویسٹ پنجاب کے صدر چوہدری محمد اشفاق سے فون پر رابطہ کیا
تو ان کے سیکرٹری کا کہنا تھا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں جیسے ہی فارغ ہوتے ہیں
آپ کی بات کروا دی جائے گی ،کئی دنوں تک رابطہ کرتا رہا اور مجھے بذریعہ
سیکرٹری وہی بیان ملتا رہا کہ صاحب میٹنگ میں ہیں ، بڑے افسوس کی بات ہے کہ
جس شخص کے پاس پنجاب کا کلیدی عہدہ ہو اور وہ کسی کو وقت ہی نہ دے پائے تو
اعلی ٰ قیادت کو ضرور اس پر سوچنا ہو گا۔ چوہدری اشفاق صاحب چونکہ عمران
خان کے ساتھ چل رہے ہیں شاید اسی وجہ سے انہیں یہ بڑی ذمہ داری سونپی گئی
لیکن بڑی معذرت کے ساتھ کہ چوہدری صاحب ویسٹ پنجاب کے عہدوں کی تقسیم کرتے
ہوئے ٹریپ ہو گئے،جس نے اپنی پاور شو کر دی اسے عہدہ دے دیا گیااور عہدہ
دیتے وقت کوئی ایسا پیمانہ وضع نہ کیا گیا تھا کہ عہدہ کیسے اور کس کو دینا
ہے یہی وہ خلا تھا جس کی وجہ سے ایسے ایسے لو گ عہدے لے اڑے جن کا دور دور
تک بھیپاکستان تحریک انصاف کی نظریاتی جنگ سے واسطہ نہ تھا اور نہ ہی وہ اس
کے اہل تھے، اہلیت اگر دیکھی گئی تو صرف اور صرف کسی بھی بڑے نام کے ساتھ
تعلق،کسی بڑے گروپ کا حصہ ہونا تھا۔ ضلع اوکاڑہ کے تمام کلیدی عہدوں پر
نظریاتی ورکرز کو کلین بولڈ کیا گیا کہ جیسے وہ پاکستان تحریک انصاف کا حصہ
ہی نہ ہوں حالانکہ اٹھارہ سالہ طویل جنگ میں ان نظریاتی ورکرز کا ہی اہم
کردار ہے جنہوں نے اپنے گھر بار داؤ پر لگا کر پی ٹی آئی کے کمزور پودے کو
ایک تنا ور درخت بنایا لیکن جب درخت پھل دینے کے قابل ہوا تو کافی سارے
موسمی پرندوں نے اس کی شاخوں پر بسیرا کر کے نظریاتی ورکرز کو وہاں سے اڑا
دیا۔باقی عہدیدار تو درآمد شدہ ہیں جو ہر دور میں کسی نہ کسی سیاسی چھتری
پر لینڈ کرنے کیلئے تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ عمر ان خان کو اگر 2018 کے الیکشن
میں کامیابی حاصل کرنی ہے تو فی الفور پارٹی الیکشن کرانا ہونگے تاکہ پارٹی
گراس روٹ لیول تک چھا جائے وگرنہ ان لیڈران کے سہارے الیکشن لڑنا ہے تو کم
ازکم میرے ضلع اوکاڑہ میں تو کوئی ایسی سیٹ نہیں جہاں سے کامیابی مل سکے۔جب
پارٹی کا کوئی نمائندہ یونین کونسل لیول تک نہیں ہوگا اور اس کے نیچے اس کی
ٹیم کام نہیں کر رہی ہوگی تومسلم لیگ کے خلاف کامیابی کے خواب شرمندہ تعبیر
نہ ہونگے لہٰذا تمام جھگڑوں سے فارغ ہو کر عمران خان کو ذاتی طور پارٹی
الیکشن میں دل چسپی لینا ہو گی صوبائی سطح سے نیچے تک ضلع ،تحصیل، میونسپل
، ٹا ؤن کمیٹی تک ذمہ داریاں نظریاتی ورکرز کو سونپی جائیں تاکہ 2018میں
الیکشن کو اچھے طریقے سے لڑا جاسکے۔عارضی طور پر جو سیٹ اپ بنایا گیا ہے اس
کو فی الفور ختم کر دیا جائے اور ہنگامی بنیادوں پرتنظیمی امور نبٹائے
جائیں اگر مناسب سمجھا جائے تو جہاں پر امیدوار فائنل ہیں ان کو اوکے کر
دیا جائے تاکہ وہ اپنے اپنے علاقہ میں بھر پور ورک کر سکیں اور جہاں پر
امیدوار زیادہ ہیں ان کو بھی جلد از جلد فائنل کرلیا جائے جنہوں نے چھوڑنا
ہے وہ آخر وقت پر بھی چھوڑ جائیں گے لہٰذا اس خوف کو دل سے نکال کر کام کیا
جائے تو انشا اﷲ 2018 میں کافی اچھے نتائج مل سکتے ہیں ۔اب ذرا ضلع اوکاڑہ
کی پی ٹی آئی کی قیادت کا تعارف ون بائی ون میں کروانا ضروری سمجھتا ہوں کہ
کون کیا ہے ؟ کس طرح پارٹی میں آیا ؟ پارٹی کیلئے اس کا کیا ورک ہے ؟ اس سے
پہلے وہ کس پارٹی میں کس پوزیشن میں تھے ؟ تاکہ قارئین کو اچھی طرح شناسائی
ہوسکے کہ ان کے لیڈران کیا ہیں؟ ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے |