فتح و شکست کی بنیاد
(Tariq Hussain Butt, UAE)
امریکی انتخابات پوری دنیا میں اپنی
مثال آ پ ہیں اور ساری دنیا اس میں دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ امریکی صدر پوری
دنیا کا صدر سمجھا جاتا ہے۔اس کے انتخابی نظام کا موازنہ کسی بھی ملک کے
انتخابی نظام سے نہیں کیا جا سکتا۔یہ ایسا انتخاب ہے جس میں ہر کس و ناکس
کو اپنی قسمت آزمانے کے مکمل مواقع فراہم کئے جاتے ہیں۔امریکہ میں سیاست
کسی کی جاگیر نہیں ہے،اس میں وراثتی جراثیم نہیں ہیں،اس میں خاندانی دھونس
نہیں ہے اور اس میں پارٹی کو کسی مخصوص خاندان میں محصور رکھنے کی روائت
نہیں ہے بلکہ یہ ایک ایسا طرزِ سیاست ہوتا ہے جس میں نامزدگی کا پراسس کئی
مہینوں پر محیط ہوتا ہے اور جس میں صاحب الرائے اور صاحبِ فکر لوگ سامنے
آتے ہیں۔کسی کا بیٹا ہونا،بھائی ہونا،بیوی ہونا،شوہر ہونا یا رشتہ دار ہونا
بالکل غیر اہم ہوتا ہے۔اس دفعہ ان انتخابات میں امریکہ کے مشہورو معروف بش
خاندان نے صدارتی نامزدگی کیلئے بہت ہاتھ پاؤں مارے لیکن ان کے خاندان کا
کوئی فرد ریپبلکن پارٹی کی جانب سے نامزدگی لینے میں ناکام رہا ۔اسی طرح
۲۰۰۸ میں ہیلری کلنٹن امریکہ کے سابق صدر بل کلنٹن کی بیوی ہونے کے ناطے
کسی استثنائی سلوک کی مستحق نہیں بنی تھیں ۔ہونا تو یہ چائیے تھا کہ سابق
صدر بل کلنٹن کی بیوی ہونے کے ناطے انھیں ڈیموکریٹ پارٹی کی نامزدگی سے
سرفراز کر دیا جاتا لیکن ایسا ہونے کی بجائے ایک نیگرو حسین بارک اوبامہ
ڈیمو کریٹ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر سامنے آئے اورامریکی صدر بننے
کا معرکہ سر کر لیا ۔ ایک نیگرو کا صدارتی امیدوار بننا امریکی تاریخ میں
بالکل انوکھا تجربہ تھا۔نیگرو ز کا امریکی معاشرے میں جو مقام ہے اس سے ہم
سب بخوبی آگا ہ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی ڈیمو کریٹ پارٹی نے ہیلری کلنٹن
کی بجائے ایک نیگرو کو پارٹی امیدورا بنا کر یہ ثابت کیا کہ جو بہتر
امیدوار ہو گا وہی کرسیِ صدارت کا امیدوار ہو گا اور رنگ ،نسل،قبیلہ اور
خاندانی پسِ منظر اس کی ذاتی اہلیت کے سامنے خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیگا
اور اس کی ذاتی خوبیاں خاندانی وجاہت پر بھاری تصور کی جائیں گی۔امریکہ میں
آج بھی نیگر و اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود بھی عوام نے
ایک نیگرو کو امریکی صدر منتخب کر کے ساری دنیا کو دکھا دیا کہ ان کے ہاں
ذاتی خصائص خاندانی وجاہت پربھاری ہیں۔کیا پاکستان میں اس طرح سوچا جا سکتا
ہے؟ کیا پاکستان میں وراثتی اقتدار کی زنجیروں سے رہائی ممکن ہے؟ہمارے ہاں
چند خاندانوں نے پاکستان کو یر غمال بنا رکھا ہے اور اپنے خونین پنجوں سے
اسے رہا نہیں کرنا چاہتے۔یہ ایک جنگ ہے جو کئی عشروں سے جاری ہے لیکن اس
میں عوام فتح یاب نہیں ہو رہے بلکہ عوام ہر بار دھوکہ کھا جاتے ہیں اور
اپنے ووٹوں سے انہی لوگوں کو منتخب کر نے کی غلطی دہراتے ہیں جو ان کے
خوابوں اور ان کی خوشیوں کے قاتل ہیں۔ اس جنگ کا آغاز تو ذولفقار علی بھٹو
نے نومبر ۱۹۶۷ میں پی پی پی کی بنیادیں رکھ کر کیا تھا لیکن افسوس صد
افسوس کہ وہی پارٹی ورا ثتی سیاست کی سب سے بڑی علم بردار بن کر سامنے آ
چکی ہے ۔پی پی پی کے ہاں جمہوریت یوں غائب ہو گئی ہے جیسے پی پی پی کبھی
جمہوری پارٹی تھی ہی نہیں حالانکہ پاکستان میں جمہوریت پی پی پی کی عظیم
جدو جہد اور قربانیوں سے پروان چڑھی ہے لیکن تاریخ کا یہی ستم ہے کہ اب وہی
جماعت جمہوری قدروں کی نفی کر رہی ہے ۔ اس کے ہاں نہ تو پارٹی نتخابات ہیں
اور نہ ہی سینئر قیادت کیلئے جماعت کی قیادت کرنے کی گنجائش ہے۔زرداری
خاندان میں جنم لینے والا ہر بچہ پی پی پی کا قائد ہے لیکن وہ لوگ جھنوں نے
سیاست کی صحرا نوردی میں ساری عمر گنوا دی ہے، صاحبِ بصیرت بھی ہیں،علم کی
دولت سے بھی سرفراز ہیں،امانت و دیانت میں بھی کسی سے کم نہیں ہیں اور عوام
کی نظروں میں بھی قابلِ احترام سمجھے جاتے ہیں لیکن اس کے باوجود ان کی
قسمت میں وراثتی قیادت کے سامنے جھکنا ہی لکھ دیا گیا ہے۔ پی پی پی میں ان
کا کوئی مقام اور مرتبہ نہیں ہے،انھیں غلام بن کر رہنا ہے اور اسی غلامی کے
طوق میں مر جانا ان کا مقدر ہے جبکہ امریکہ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ،۔
امریکی انتخابات اپنا ایک مخصوص انداز رکھتے ہیں جس میں پچاس ریاستیں اپنے
الیکٹورل ووٹوں سے صدراتی امیدوار کی جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔امریکہ میں
عوامی ووٹوں کے تناسب سے ہار جیت نہیں ہوتی بلکہ الیکٹورل ووٹ کسی بھی
امیدوار کی ہار جیت کا فیصلہ کرتے ہیں۔فرض کریں کہ کسی ریاست میں ۱۹
الیکٹورل ووٹ ہیں اور ہیلری کلنٹن کو دس لاکھ عوامی ووٹ پڑتے ہیں اور ڈولنڈ
ٹرمپ کو نو لاکھ عوامی ووٹ پڑتے ہیں تو اس ریاست کے تمام کے تمام ۱۹
الیکٹورل ووٹ ہیلری کلنٹن کے کھاتے میں چلے جائیں گے ۔یہ نہیں ہو گا کہ دس
ووٹ ہیلری کلنٹن کے اور نو ووٹ ڈولنڈ ٹرمپ کے ۔اس انتخاب کی سب سے زیادہ
خوبصور تی یہی ہے کہ اس میں ہر امیدوار کو ہر ریاست میں جیتنے کی کوشش کرنی
ہو تی ہے اور جو زیا دہ ریا ستوں میں جیت جاتا ہے وہی صدر بننے کا اہل ہوتا
ہے ۔کئی دفعہ ایسا بھی ہوا ہے کہ بڑی ریاستوں میں جیتنے والا اور زیادہ
عوامی ووٹ حاصل کرنے والا امیدوار صدارتی انتخاب ہار جا تا ہے کیونکہ
صدارتی انتخاب عوامی ووٹوں کی برتری سے نہیں بلکہ الیکٹورل ووٹوں کی برتری
سے جیتا جا تا ہے۔الیکٹورل ووٹوں کا فیصلہ بھی عوامی ووٹوں سے ہی ہوتا ہے
لیکن اس میں ایک نکتہ پوشیدہ ہے کہ بڑی ریاستوں میں جیتنے والا امیدوار
چھوٹی ریاستوں کو بھی اہم سمجھتا ہے اورا ن کے الیکٹورل ووٹ حاصل کرنے کی
سعی کرتا ہے ۔امریکہ کی چند بڑی ریاستوں میں کیلیفورنیا، ٹیکساس اور
فلوریڈا کا شمار ہوتا ہے لہذا ان ریاستوں میں عوامی ووٹ سے جیتنے والا
امریکی صدر اسی وقت صدارتی معرکہ سر کرے گا جب وہ چھوٹی ریاستوں سے بھی
جیتے گا ۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی امیدوار کسی بھی ریاست کو نظر انداز کر کے
صدرِ امریکہ نہیں بن سکتا۔اس لئے مقابلہ بہت سخت ہوتا ہے۔آخری لمحے تک علم
نہیں ہوتا کہ کون فاتح ہو گا اور کون ہار کا مزہ چکھے گا؟۔
اس دفعہ امریکی صدارتی انتخاب پاکستانیوں اور امت ِ مسلمہ کیلئے انتہائی
اہمیت اختیار کر گئے ہیں کیونکہ ان انتخابات میں اسلام اور پاکستان کو
انتخابی موضوع بنایا گیاہے۔ڈولنڈ ٹرمپ نے عظیم تر امریکہ کا نعرہ لگا کر
امریکیوں کی دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔وہ دوسری اقوام کے افراد کو
امریکہ سے بے دخل کرنے اور انھیں امریکہ سے نکالنے کے در پہ ہے۔وہ مسلمانوں
پر دھشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے امریکہ سے ان کا صفایا کرنا چاہتاہے ۔اس
کی نظر میں مسلمان تخریب کاری کی علامت ہیں لہذا انھیں امریکہ میں رہنے کا
کوئی حق حاصل نہیں ہے ۔ وہ افغانستان کی طویل لڑائی میں طالبان کی فتح اور
امریکہ کی شکست کے پیچھے پاکستانی کردار دیکھتے ہیں اس لئے پاکستانیوں سے
ان کی مخاصمت اور نفرت کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔ان کی نظر میں حقانی نیٹ
ورک کو جو کہ ایک دھشت گرد تنظیم ہے پاک فوج کی پشت پناہی حاصل ہے جس سے
امریکہ کو افغانستان میں فتو حات سمیٹنے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑرہا
ہے ۔افغانستان،بھارت اور امریکہ اسی موقف کے علمبردار ہیں کہ آئی ایس آئی
امریکی شکست کی ذمہ دار ہے کیونکہ اس کے روابط مجاہدین کے ساتھ ہیں جو کہ
بالکل غلط تاثر ہے۔اس خفت کو مٹا نے کیلئے ڈولنڈ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم میں
پاکستانیوں اور مسلمانوں کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔اس طرح کا طرزِ عمل
امریکی سوچ اور کلچر کے بالکل منافی ہے کیونکہ امریکیوں کی اکثریت اس طرح
کی منفی سوچ سے کوسوں دور ہے ۔ان کا ایمان ہے کہ کوئی قوم دھشت گرد یا یا
بری نہیں ہوتی بلکہ اس کے افراد اچھے یا برے ہوتے ہیں لہذا ہمیں قوم کی
بجائے افراد کو نشانہ بنانا چائیے۔ہیلری کلٹن اسی سوچ کی نمائندہ ہیں لہذا
ان کا کہنا ہے کہ اسلام امن اور محبت کا مذہب ہے لہذا ہمیں اسلام پر دھشت
گردی کا لیبل لگانے سے پہلے ہزار بار سوچنا چائیے کہ ہم کیا کہہ رہے
ہیں۔جہاں تک دھشت گردوں کا تعلق ہے تو اس کیلئے کسی مذہب یا ملک کی قید
نہیں ہے ہمیں ہر اس فرد کو قانون کے کٹہرے میں لا نا ہے جو دھشت گردی کا
مرتکب ہے ۔اس میں اسلام ،عیسائیت ،یہودیت یا دیگر مذاہب کو کاکوئی تعلق
نہیں ہے۔دھشت گرد صرف دھشت گرد ہو تا ہے اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔شائد
یہی آفاقی سوچ ہیلری کلنٹن کی فتح اور ڈولنڈ ٹرمپ کی شکست کی بنیاد بن جائے
۔،۔ |
|