ایسی صورتحال میں چھوٹے بچوں اور سانس کی
بیماری میں مبتلا افراد کو خاص طور پر احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ضرورت
ہے
منگل کے حسین دن کا آغاز ہوا تو ہر کوئی معمول کے مطابق اپنی روز مرہ کی سر
گرمیوں میں مصروف ہونے کے لیے اٹھا ،پھر کیا ایک حیرت کا دھچکا لگا کہ دھند
کے بادلوں کی اوٹ میں سورج کی کرنیں چھپ گئیں۔غزالہ نے بھی باقی تما م
خواتین کی طرح سوچا کہ سردی آ گئی تو موسم سرما کی تیاریوں کے لیے لسٹ
بنانے لگی ۔ سوئیٹر اور گرم کپڑے نکالنے ہیں،لحاف اور کمبل نکالنا بھی بہت
ضروری ہے،دھند کے باعث اس نے اپنے بچوں کو سکول بھی نہیں جانے دیا مگر یہ
کیا۔۔۔جتنی دھند تھی۔۔۔اتنی تو سردی تھی ہی نہیں،حیرت کا اگلا دھچکا جو
غزالہ سمیت تمام لاہوریوں کو لگا وہ یہ کہ سردی لگنے کی بجائے آنکھوں میں
چبھن سے پانی بہنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ گرمی محسوس ہو رہی تھی ۔۔۔غزالہ
سوچنے پر مجبور ہو گئی کہ دھند اس قدر ہے کہ سردی ہونی چاہیے مگر یہاں تو
تلخی اور چبھن کا احساس سکون نہیں لینے دے رہا ۔صرف یہ غزالہ کے ساتھ نہیں
ہوا بلکہ لاہورسمیت پنجاب کے مختلف شہر اس آلودہ دھند نما دھوئیں کے شکار
ہیں ۔ مختلف اذہان کے لوگ اس کو مختلف اقسام کے نام دے رہے ہیں۔ درحقیقت با
ت یہ ہے کہ ہم سب پہلے ایک بہت بڑی غلط فہمی کا شکارر ہے کہ یہ دھندہے مگر
بعد ازاں یہ عیاں ہوا کہ یہ آلودگی سے اٹھتا دھواں ہے جسے سموگ کا نام دیا
جا رہا ہے۔
سموگ کیا ہے؟
دراصل سموگ دو الفاظ کامرکب ہے فوگ +سموک یعنی فوگ مطلب دھند اور سموک مطلب
دھواں۔ سموگ فضائی آلودگی کی ایک خطرناک قسم ہے۔اس کی ظاہری شکل لاہور اور
گرد و نواح کے شہری اپنی نظروں سے دیکھ رہے ہیں، کیمیائی طور پر اس میں
صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں کا دھواں، کسی بھی چیز کے جلاؤ سے نکلنے والا
دھواں مثلاً بھٹوں اور پکوان کے اڈوں خصوصامچھلی فروشوں کے تلنے کے عمل سے
نکلنے والا دھواں شامل ہوتا ہے حالیہ سموگ میں دیوالی کی تقریبات میں بڑے
پیمانے پر ہونے والے آتشبازی کا ایک بڑا حصہ گردانا جا رہا ہے سموگ کی وجہ
سے اوزون کی مقدار فضا میں خطرناک حد تک بڑھ جاتی ہے- اگرچہ اکثر ممالک میں
فضائی آلودگی کو مانیٹر کرنے کے لیے آن لائن ’’ائیر کوالٹی انڈیکس میپ‘‘کا
سہارا لیا جاتا ہے جو آپ کو بتاتا ہے کہ آپ کے علاقے میں فضاء کیسی ہے۔سموگ
کی اصطلاح سب سے پہلے لندن میں 1900میں استعمال ہوئی۔اس وقت دنیا بھر میں
سموگ بڑھ رہی ہے، یہ ایشیائی ملکوں کا زیادہ تر سنگین مسئلہ بیان کیا جاتا
ہے حالانکہ یہ پوری دنیا کا روگ بن چکی ہے۔دیکھا جائے تو دنیا بھر میں
آلودگی ختم کرنے کے لئے کاغذی منصوبے بنائے جاتے ہیں۔جس کی وجہ سے آلودگی
کے زہریلے عناصر ہوا کی نمی میں شامل ہوجاتے ہیں اور آکسیجن کا لیول کم
ہوجاتا ہے۔آکسیجن کے کم ہونے کی ایک بنیادی وجہ درختوں کی کاشت نہ کرنا اور
درختوں کی کٹائی ہے۔ہوا میں زہریلی گیسوں کے ملاپ کی وجہ سے جہاں تازہ
آکسیجن مفقود ہوجاتی ہے وہاں جب بارش ہوتی ہے تو یہ سموگ فصلوں کی کاشت کے
علاوہ انسانوں کے لئے غیر متوقع بیماریوں کا باعث بنتی ہے۔لہذا ہر ملک کو
آنے والے وقت میں سموگ سے بچنے کی تدبیر کرنی ہوگی۔اس تدبیر اور احتیاط پر
سب سے پہلے عمل ہوجانا چاہئے تھا کیونکہ سموگ اچانک پیدا نہیں ہوئی۔1952
میں لندن میں سموگ پیدا ہوئی تو اس نے دنیا میں آلارم بجادئیے تھے۔اس وقت
لندن دنیا کا ترقی یافتہ شہر تھا جہاں ہزاروں گاڑیاں سڑکوں پر دھواں چھوڑتی
تھیں اور فیکٹریوں کا دھواں عام تھا۔ اب یہ عالم ہے کہ امریکہ کے دس بڑے
شہروں میں سموگ خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے۔۔اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں نے
کئی دہائیوں سے امریکہ،چین سعودی عرب ایران،انڈیا،پاکستان،مصر ،روس سمیت
کئی ملکوں کوٹریفک اورفیکٹریوں کی وجہ سے ایسے ممالک میں شامل کررکھا ہے
جہاں سموگ کی مقدار بڑھ چکی ہے۔پاکستان کے چار بڑے شہرکراچی،لاہور،کوئٹہ
اورپشاورمیں غیر معمولی طور پر سموگ کی مقدار کے بارے میں تشویش کا اظہار
کیا گیا ہے۔لاہور میں دوسو مائیکروکیوبک فی میٹر کے حساب سے سموگ پیدا ہوتی
ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کے لئے جہاں حکومت کو آلودگی کے
خاتمہ میں سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں ماحول دوست ایندھن کا
استعمال نہایت ضروری ہوچکا ہے۔اس بارے میں حکومت کو دھواں چھوڑنے والی
گاڑیوں کو بند کردینا چاہئے اور عوام کو بھی اپنا طرز زندگی بدلنا چاہئے۔
اس حوالے سے ڈی جی میٹ ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا ہے کہ یہ دھند دسمبر تک
جاری رہنے کا امکان ہے کیونکہ اکتوبر سے قبل وسطی پنجاب میں بارشیں ہونے کے
امکانات نہیں ہیں اور یہ آلودگی بھی بارش کے باعث ہی ختم ہوگی۔ فضائی
آلودگی میں اضافہ شہر میں گاڑیوں کی آلودگی ،زیر تعمیر منصوبوں اور موسم
میں تبدیلی کی وجہ اضافہ ہواہے۔اصل میں سب سے زیادہ کردار آلودگی کو بڑھانے
میں گرم موسم نے ادا کیاہے۔
سموگ کس حد تک خطرناک ؟
سموگ کے کیمیائی اجزا اپنی آزادانہ حیثیت میں بھی خطرناک ہوتے ہیں لیکن
باہم ملنے کے بعد زہریلے ہو جاتے ہیں، سموگ نہ صرف انسانوں بلکہ جانوروں،
پودوں اور فطرت کی ہر چیز کو نقصان پہنچاتی ہے چین میں روزانہ ہزاروں کی
تعداد میں افراد سموگ کی وجہ سے جان ہار بیٹھتے ہیں، وہاں 17 فیصد اموات
سموگ کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتی ہیں۔بھارت کادارالحکومت نئی دہلی بھی اس وقت
سموگ کا شکار ہے۔آلودگی پر نگاہ رکھنے والے ادارے سی ایس ای کے مطابق نئی
دہلی میں ہر سال زہریلی ہوا سے 10 سے 30 ہزار کے درمیان اموات ہوتی ہیں
جبکہ شہر کے 44 لاکھ بچوں میں سے تقریباً نصف کے پھیپھڑے ہمیشہ کے لیے
متاثر ہو چکے ہیں۔سیکریٹری ماحولیات سیف انجم کے مطابق فیکٹریوں سے خارج
ہونے والا دھواں اور مٹی لاہور میں فضائی آلودگی کا سبب ہے، اور ضروری ہے
کہ لاہور کے ساتھ ساتھ صوبے کے دیگر حصوں میں بھی ماحولیاتی قوانین کا
اطلاق یقینی بنایا جائے۔ایک افسر کے مطابق، لاہور کے شمالی حصے میں تقریباً
300 اسٹیل ملز موجود ہیں، بٹاپور تک موجود ان فیکٹریوں میں فیول کے طور پر
کچرے اور استعمال شدہ ٹائرز کو استعمال کیا جاتا ہے۔گزشتہ چند دہائیوں میں
ہونے والی تیزی کے ساتھ صنعت کاری اور مختلف اقسام کی گاڑیوں یا ٹریفک میں
ہونے والے اضافے نے اس مسئلے کو اور بڑھا دیا ہے۔دسمبر اور جنوری کے دوران
سموگ کی وجہ سے سب کچھ مدھم پڑ جاتا ہے اور کچھ مواقع پر تو زندگی ٹھہر سی
جاتی ہے۔ہر سال موسم سرما کے آتے ہی پاکستان کے بالائی اور وسطی حصے شدید
دھند کی چادر اوڑھ لیتے ہیں، اس کی بنیادی وجہ ان علاقوں سے جڑے موسمی
حالات ہیں مگر یہ مسئلہ ہر گزرتے سال کے ساتھ بدتر ہوتا جا رہا ہے، زمین سے
اٹھنے والے آلودگی کے ذرات دھند کے ساتھ مل کر ’سموگ‘ پیدا کر دیتے ہیں جو
کہ گاڑھے دھوئیں کی طرح ہوتی ہے۔ پنجاب سب سے زیادہ آبادی والا صوبہ ہے اور
’انسانی پیدوار کی کمی کے حوالے سے آپ یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اگر ملک
کی آبادی کا ایک بڑا حصہ غیر پیداواری ہو تو اس کے ملک کی مالی حالات پر کس
قدر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
انسانی صحت پر اثرات
سموگ میں زیادہ وقت گزارنے سے مختلف جز وقتی طبی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں
صرف چند گھنٹوں میں ہی سموگ آپ کے پھیپھڑوں میں داخل ہو کر جلن پیدا کر
سکتی ہے، تاہم اگر جلن نہ بھی ہو تو یہ آپ کے پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی
ہے سموگ میں سانس لینے میں دشواری ہو سکتی ہے، خاص کر گہری سانس لینا مشکل
ہو سکتا ہے اگر آپ دمہ کے مریض ہیں تو سموگ میں جانا آپ کے لیے خطرناک ہو
سکتا ہے۔بعض اوقات گہری سموگ میں زہریلے مادے آنکھوں میں جلن اور چبھن پیدا
کرتے ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ ہو سکتی ہیں اور آنسو بہہ سکتے ہیں۔سموگ
سے زیادہ منفی اثرات بچوں اور جوانوں پر پڑتے ہیں تاہم یہ کسی نہ کسی درجے
میں تمام عمر کے افراد کو متاثر کرتی ہے اس صورتحال میں سب سے زیادہ چھوٹے
بچے ، کھلے مقامات پر کام کرنیوالے لوگ، حاملہ خواتین اور سانس کی بیماری
میں مبتلا مریض متاثر ہوتے ہیں۔
عوام کے تاثرات
لاہور کے علاقے شالیمار کے رہائشی طاہر فاروق نے بتایا کہ دھوئیں کے بادل
اس قدر شدید ہیں کہ گھروں کے اندر تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔ گردوغبار کی
وجہ سے متلی کی کیفیت اور آنکھوں میں جلن محسوس ہورہی ہے۔شاہدرہ کے رہائشی
عامر حسین نے بتایا کہ گردوغبار کے بادل صبح سے لے کر شام تک چھائے رہتے
ہیں اور گردوغبار کے باعث ان کی آنکھوں میں جلن ہے اس لیے وہ احتیاطی تدبیر
کے طور پر دھوپ کا چشمہ اور ماسک کا استعمال کر رہے ہیں۔لاہور کے محمد حنیف
کا کہنا ہے کہ اس کیفیت کا خاتمہ اسی وقت ہوگا جب بارشوں کا ایک اچھا سلسلہ
شروع ہوگا اور فی الحال آئندہ چند دنوں میں پنجاب کے علاقوں میں بارش کے
آثار دکھائی نہیں دے رہے-
سموگ کے اثرات
فضا میں چھائی سموگ نے اپنے اثرات کھل کر دکھانے شروع کر دئیے ہیں ،شہری
سانس،گلے کی تکلیف ،نمونیا اور دمے میں مبتلا ہو کر اسپتالوں میں پہنچنے
لگے ہیں تاہم اسپتالوں میں مریضوں کی بڑی تعداد سے اس کے اثرات کا اندازہ
لگانا مشکل نہیں ،اسپتالوں میں سانس،دمے،گلے کی تکلیف ،نمونیا اور الرجی کے
مریضوں کا رش ہے جن میں کم عمر بچے اور بزرگ زیادہ متاثر ہیں۔ لاہور کے
اسپتالوں میں صرف 12 گھنٹوں کے دوران 1200سے زائد مریض پہنچے، جناح اسپتال
میں 130 بچے اور 30 بزرگ شہری ایمرجنسی لائے گئے۔اس کے علاوہ سموگ کی وجہ
سے بیشتر ٹریفک حادثات رونما ہوئے جس کے باعث موٹروے پر متعدد حادثات میں
16 افراد ہلاک ہوئے۔دھند میں الجھن کا شکار ہوکر ایک پک اپ ڈرائیور نے
سامنے آتی گاڑی کے تبدیلی کے اشارے کو نظرانداز کرکے بیچ راستے میں اچانک
بریک لگادی، جس کے بعد پیچھے آنے والی گاڑیاں یکے بعد دیگرے ایک دوسرے سے
ٹکراتی چلی گئیں اور حادثہ 12 افراد کی جان لینے کا سبب بنا، اس کے علاوہ 5
مسافر شدید زخمی بھی ہوئے۔دوسری جانب، فیصل آباد میں چراغ آباد انٹرچینج پر
2 گاڑیوں میں تصادم کی وجہ سے خاتون اور اس کا بیٹا چل بسے۔شیخوپورہ میں
بھی سموگ کے باعث گاڑیوں میں تصادم کی وجہ سے 2 افراد ہلاک اور 12 زخمی
ہوگئے۔غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق، صوبے کے دیگر حصوں میں سموگ کی وجہ سے
مزید ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔
احتیاطی تدابیر
ماہرین نے عوام کو اس تمام صورتحال میں خبردار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر
اختیار کرنے کی تلقین کی گئی ہے کہ اپنے گھروں، دفاتر اور گاڑیوں کے شیشے
بند رکھیں۔ جب تک آلودہ دھوئیں والا موسم ختم نہیں ہو جاتا تب تک کھلی فضا
میں جانے سے گریز کیا جائے۔ خاص کر سانس کی تکلیف میں مبتلا افراد ایسے
موسم میں ہرگز باہر نہ نکلیں۔ ایسے موسم میں جسمانی ورزش کرنے سے بھی دریغ
کیا جائے اور اپنی گاڑیوں کو کھڑے رکھنے کی پوزیشن کے دوران انجن کو چلتا
مت چھوڑیں۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ دل کے مریض گھر وں میں رہ کر اسٹیم
لیں، ٹھنڈے مشروبات اور کھانے پینے کی کھٹی ترش اشیاء سے پرہیز کیا جائے۔
ماسک پہن کر گھروں سے نکلیں،پنکھے نہ چلائیں۔سیکریٹری صحت ڈاکٹر مسعود کا
کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کیلئے آنکھوں میں پانی کے چھینٹے ماریں، اسموگ کے
باعث الرجی اور آنکھ، ناک سے پانی جاری ہوسکتا ہے، آنکھوں کو صاف کرنے
کیلئے ڈراپس بھی استعمال کئے جاسکتے ہیں۔سرجیکل یا دیگر اقسام کے فیس ماسک
استعمال کریں۔کانٹیکٹ لینسز نکال دیں اور عینک استعمال کریں۔سگریٹ نوشی نہ
کریں اور اگر ایسا ممکن نہ ہو تو کم کر دیں۔پانی اور گرم چائے کا زیادہ
استعمال کریں۔باقاعدگی کے ساتھ ناک صاف کریں۔باہر سے گھر لوٹنے پر ہر بار
اپنے ہاتھ ، چہرہ اور جسم کے دیگر کھلے حصوں کو دھو لیں۔بلا ضرورت باہر
جانے سے گریز کریں۔گھر میں موجود ہوا دانوں، کھڑکیوں اور دیگر کھلے حصوں کو
ماسکنگ ٹیپ کے ساتھ بند کردیں یا پھر انہیں گیلے تولیے یا کسی کپڑے کے ساتھ
ڈھانپ دیں۔ہوا صاف کرنے والے ایئر پیوریفائرز کا استعمال کریں۔گھر سے باہر
ہیں تواگر دھند کے باعث آپ کوکچھ بھی نظر نہیں آ رہا ہو تو سڑک پر قطعی طور
پر کھڑے نہ ہوں، بلکہ ٹریفک سے فاصلے پر ایک سائیڈ پر گاڑی کو کھڑا کر
دیں۔آہستہ ڈرائیونگ کریں۔فوگ لائٹ کا استعمال کریں۔گاڑی چلاتے وقت ہائی بیم
لائٹس (تیز چمک والی روشنی) استعمال نہ کریں۔رش والے علاقوں، خاص طور پر
جہاں زیادہ تر ٹریفک جام رہتا ہے ،میں جانے سے گریز کریں۔
سموگ سے نمٹنے کے لیے پنجاب حکومت کی پلاننگ پنجاب حکومت نے بھی سموگ سے
پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پلان بنایا اور کمیٹی بھی قائم کی
۔کمیٹی میں مشیرصحت خواجہ سلمان رفیق کنوینئر،ذکیہ شاہنواز کمیٹی کی
کوکنونیئر،مقرر کی گئی ہیں جبکہ چیف سیکرٹری پنجاب زاہد سعید ،سیکرٹری
سیکنڈری اینڈپرائمری ہیلتھ سمیت دیگرکو بھی شامل کیاگیا ہے۔ تاہم باغوں کے
شہر کے باسیوں کو بارش کا انتظار ہے تاکہ اس مشکل سے نجات مل سکے۔پنجاب کے
شہروں میں سموگ کے حوالے سے کمیٹی نے ابتدائی رپورٹ پیش کردی ہے۔موسمی
تبدیلیوں کی وجہ سے علاقے سموگ کی لپیٹ میں ہیں۔وزیراعلیٰ نے ماحولیاتی
جائزہ کے لیے بیس رکنی کمیٹی تشکیل دی ۔ کمیٹی کی سفارشات کے مطابق سموگ کے
دوران بڑی شاہراہوں پرسفرکرنیوالے مسافراحتیاط برتیں ڈرائیورزاندھیرے میں
سفرکرنے سے گریز کریں اورآنکھوں میں جلن کی صورت میں باربارتازہ پانی
آنکھوں میں ڈالیں۔
خلائی ادارے ناسا کی رپورٹ
خلائی ادارے ناسا نے اپنی موسمیاتی تبدیلیوں کی جانچ کے دوران اس بات کا
انکشاف کیا ہے کہ پاکستان کے صوبے پنجاب میں پھیلتے سموگ کی وجہ بھارتی
پنجاب سے پاکستانی پنجاب میں بڑی مقدار میں داخل ہونے والا خطرناک دھواں
اور گردوغبار ہے۔ذرائع کے مطابق ماہرین اس سے قبل بھی قیاس آرائیاں کر رہے
تھے کہ پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں پھیلتے سموگ کی اصل وجہ پنجاب میں
صنعتی سرگرمیاں نہیں ہیں بلکہ بھارتی سرزمین سے بڑی مقدار میں پاکستانی
پنجاب میں داخل ہوتا خطرناک دھواں اور گردوغبار ہے۔اس بات کی تصدیق کر دی
ہے کہ پاکستانی پنجاب میں سموگ کی بڑھتی مقدار بھارتی پنجاب سے آتا ہوا
صنعتی فضلہ ہے۔ناسا کی جانب سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے
حیرت انگیز طور پر 32 ملین ٹن ذرات جلائی جا رہے ہیں۔رپورٹ میں یہ بھی کہا
گیا ہے کہ بھارت میں جاری دیوالی کی سرگرمیاں اور آتش بازی کے بے تحاشا
مظاہروں کے ساتھ ساتھ بھارتی پنجاب اور ہریانہ میں فصلوں کو جلایا جانا بھی
اس سموگ کی اہم وجوہات میں شامل ہے۔محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر
اور موسمیاتی تبدیلیوں کے ماہر ڈاکٹر قمر الزمان چودھری کا کہنا ہے کہ
پاکستانی پنجاب میں سموگ کی بڑھتی مقدار بارڈر پار موجود صنعتی سرگرمیوں کا
نتیجہ ہے۔ امریکی خلائی ادارے ناسا نے کہا ہے کہ بھارتی پنجاب میں کسانوں
کی جانب سے جلائی جانے والی فصلوں کی باقیات اور گھاس پھوس نذرِ آتش کرنے
سے کثیف دھواں فضا میں جاتا ہے جو سرد موسم میں منجمند ہوکر گاڑھے دھوئیں
یا سموگ کی صورت میں بھارت اور پاکستان پر چھایا رہتا ہے۔سیٹلائٹ سے لی گئی
تصاویر اور ڈیٹا پر مشتمل ناسا کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دھند کی وجہ محض
دیوالی کی آتش بازی نہیں بلکہ اس میں زرعی فضلے مثلاً چاول کے پھوگ کو
لگائی جانے والی آگ بھی شامل ہے۔اس کی وجہ سے ایک جانب تو معمولاتِ زندگی
مثلاً ٹرانسپورٹ اور پروازیں تاخیر کی شکار ہورہی ہیں تو دوسری جانب لوگ
سانس اور آنکھوں کے امراض سمیت کئی بیماریوں کے شکار ہورہے ہیں اور یہ
انسانی دماغ کو بھی متاثر کرتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسموگ میں کاربن مونو
آکسائیڈ، نائٹروجن آکسائیڈ ، میتھین اور کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر ذرات
شامل ہوتے ہیں۔ بھارتی پنجاب اور دیگر اداروں میں 32 ملین ٹن ( 30 ارب
کلوگرام) سے زائد فصلوں اور دیگر اشیا کو جلایا گیا ہے جس سے یہ آلودگی
پیدا ہوئی ہے۔17 سے 20 اکتوبر تک ہریانہ اور بھارتی پنجاب میں کئی مقامات
پر فصلوں کو آگ لگائی گئی تاکہ زمین صاف کرکے اس پر دوسری فصل اْگائی
جاسکے۔ خود یہ دھواں دہلی کو بھی متاثر کررہا اور وہاں بھی دھند کا راج ہے۔ |