لاہور سمیت پنجاب کے دیگر شہروں اور قصبوں
پر گزشتہ دونوں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک نئی قسم کی دھند سامنے
آئی اس سے قبل دھند کے آتے ہی یہ خیال آتا تھا کہ اب موسم سردی مائل ہونے
جا رہا ہے مگر اس بار ماضی کی موسمی روایات یکسر تبدیل ہو گئیں اور ان کے
بدلنے میں موسم کا کوئی کردار نہیں بلکہ یہ جو ہم نے بویا ہے وہی ہم نے آج
کاٹا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ انتہائی تلخ حقیقت ہے جو ہم پر عیاں ہو
گئی ہیں وگرنہ شاید یہ ماضی کا قصہ پارینہ اب نہ ہوتا بلکہ ہمارے جانے کے
بعد ہماری آنیوالی نسلوں کیلئے ہمارا تحفہ ہوتا ہے مگر شکر ہے اﷲ کا لاکھ
لاکھ کہ ہمارے ہی دور میں جو ہم نے بویا تھا وہ کاٹ بھی لیا۔
قارئین……!! گزشتہ دنوں لاہور سمیت پنجاب کے مضافاتی علاقوں میں سیاہی مائل
دھند نے ڈھیرے جمائے رکھے اور ابھی بھی یہ موجود ہے مگر اب اسکا زور ٹوٹ
چکا ہے دراصل یہ دھند نہیں تھی اور نہ ہی ہمیں اسے دھند کا نام دینا چاہئے
بلکہ یہ تو فضائی آلودگی ہے جو ہماری کوتاہیوں اور غلطیوں کا باعث ہے اور
آج ہمارے سامنے موجود ہے ۔انسان نے جس طرح صنعتی ترقی کو دوام بخشا ہے وہ
کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہر روز نئی سے نئی انڈسٹری لگتی جا رہی ہے اور دھویں
کے بادل بڑھتے جا رہے ہیں مگر تیز رفتار ترقی کے اس دور میں ہم صرف روشن
پہلو کی جانب ہی دیکھ رہے ہیں جبکہ تاریک پہلو کی جانب نظر ہی نہیں دوڑا
رہے ہمیں اس جانب بھی توجہ دینا ہوگی ۔
قارئین……!! جا بجا انڈسٹری کے زہر آلود دھویں اور گندگی کے ڈھیراور ساتھ ہی
ساتھ گاڑیوں کا زہر آلود دھواں یہ سب وہ مرکبات ہیں جنکے باعث یہ دھواں جسے
میں زہر آلود دھواں سمجھتا ہوں نے جنم لیا ہے ابھی تو یہ سموگ تھوڑے دن ہی
اپنے نظارے کروا رہی ہے لیکن اگر ہم نے اس جانب بھر پور توجہ نہ دی تو یہ
اپنا نظارہ نہیں بلکہ اپنا ڈیرہ ہی جما لے گی اس لئے اب پوری قوم کو سوچنا
ہوگا ااور نہ صرف قوم بلکہ دنیا کو اس جانب بھر پور توجہ دینا ہوگی وگرنہ
پوری دنیامیں رہنے والے بنی نوع انسان کی زندگیاں خطرے کے ریڈ زون میں داخل
ہوتی نظر آرہی ہیں ۔
فضا میں معلق ہونے والے اس دھویں کے باعث ایک جانب ہماری فضا آلودہ ہے تو
دوسری جانب پاکستان میں مختلف موسموں کی بہاریں بھی معدوم ہو کر رہ جائیں
گی اور ہماری زندگی بے مزا سی ہو کر رہ جائے گی اسلئے اس جانب توجہ دینا
ضروری ہے ۔
قارئین ……!۱ اس وقت دنیا بھر میں سموگ بڑھ رہی ہے گزشتہ مہینوں میں چین میں
بھی اس سے زیادہ زہریلی اور تندو تیز سموگ نے چین کے مختلف علاقوں پر اپنا
جلوہ دکھایا اور کئی دن تک وہاں کے باسی فضا کو زرد آلود دیکھتے رہے اور
ساتھ ہی ساتھ اس زہریلی سموگ کے باعث مختلف بیماریوں کا شکار بھی ہوئے یہ
الگ بات ہے کہ وہاں سے اسکے مضر اثرات کی روداد پاکستان میں اس لئے سنی
نہیں گئی کہ پاکستان میں سیاسی بحران خاتمے کا نام ہی نہیں لیتا کرسی
اقتدار کی حوص نے سب کو ایک ہی مقصد دے دیا ہے اور یوں کوئی اپنی کرسی
بچانے اور کوئی کرسی حاصل کرنے کی جدوجہد میں بھاگتا نظر آرہا ہے اس لئے اس
طرح کے سنجیدہ ایشوز پر کوئی بات نہیں کی جا سکی اور نہ ہی چین میں
ہونیوالی اس سموگ کے بعد پاکستان کے ماحولیات سے متعلق ادارے نے کوئی خاطر
خواہ اقدامات نہیں کئے ۔
چین سمیت ایشیائی ممالک میں ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار
کرتا جا رہا ہے یہی وجہ ہے کہ اگر آپ گزشتہ ایک دو سال پیچھے جائیں تو آپکو
موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کہیں سیلاب تو کہیں لینڈ سلائیڈنگ تو کہیں
سیلابی ریلوں کے باعث بے شمار لوگوں کو گھروں سے بے گھر ہوتے دیکھنے کی
صورت میں نظر آئے گا مگر بد قسمتی سے اس پر کوئی خاص کام نہیں کیا گیا چین
میں تو گزشتہ سال بھی بہت بڑے نقصانات نظر آئے ہیں اسی طرح بھارت میں بھی
ماحولیاتی آلودگی کے باعث کئی بے گھر اور کئی کولینڈ سلائیڈنگ اور کئی کو
تازہ ہوا میسر نہیں اسی طرح اگر آپ سری لنکا کی بات کریں تو وہاں حالات
قدرے بہتر ہیں اس لئے کہ وہاں جنگلات کی تعداد زیادہ ہے اور بنگلہ دیش میں
بھی فضائی آلودگی کے آثرات موجود ہیں ۔
قارئین ……یہ سموگ ہے کیا ہے یہ بھی آپکو بتادیا جائے سائنسی تحقیق کے مطابق
آلودگی کے زہریلے عناصر ہوا کی نمی میں شامل ہو جاتے ہیں اور آکسیجن کا
لیول کم ہو جاتا ہے ،آکسیجن کے کم ہونے کی وجہ درختوں کا کم ہونا ہے ،ہوا
میں زہریلی گیسوں کے ملاپ کی وجہ سے جہاں آکسیجن ختم ہونے لگتی ہے وہاں جب
بارش ہوتی ہے تو یہ سموگ فصلوں کی کاشت کے علاوہ انسانوں کے کئی بیماریوں
کا باعث بن سکتی ہے ۔سموگ ایشیا کے ساتھ ساتھ مغرب کا بھی مسئلہ بنتی نظر
آرہی ہے ا س وقت دنیا بھر میں گاڑیوں کی بھر مار ہیں اور یہ گاڑیاں انتہائی
زہر آلود دھواں خارج کرتی ہیں دنیا کو اب کار سازی کی صنعتوں کو اس جانب
مائل کرنا ہوگا کہ وہ ماحول دوست گاڑیاں تیار کریں جبکہ دوسری جانب پاکستان
میں آٹو رکشے بھی سموگ میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں حکومت کو چاہئے کہ
ایسے تمام آٹو رکشوں پر پابندی لگائی جائے جو ماحول دوست نہیں ہیں جبکہ
دوسری جانب ایسی تمام فیکٹریوں کا خاتمہ بھی کیا جائے جو زہریلے دھویں کو
خارج کرتی ہیں ۔تحقیق سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ امریکہ ،لندن،امریکہ
،جاپان،مصر،روس و دیگر ممالک کو اس سموگ کا سامنا ہے اور وہ اس پر اقدامات
کر رہے ہیں مگر بد قسمتی سے وطن عزیز میں اس پر کوئی کام نہیں ہوا ہمارے
ہاں ہر کسی بڑے حادثے کے بعد ہی حکومت ان ایکشن ہوتی ہے حکومت کو چاہئے کہ
اب روایات بدلے اور محکموں کو بھی اب روایات تبدیل کرلینی چاہئے خاص کر
محکمہ ماحولیات کو اب ان ایکشن ہونا ہوگا دوسری جانب حکومت بھی ماحولیاتی
ایمر جنسی لگاکر زیادہ سے زیادہ شجر کاری مہم بارے عوام کو آگاہی دے اور ہر
گھر کو پابند کیا جائے کہ وہ کم از کم دو پودے ضرورر لگائے اور اس کے لئے
خصوصی طور پر مہم شروع کی جائے اور تمام گھروں کی رجسٹریشن محکمہ ماحولیات
اور ساتھ ہی ٹاؤن انتظامیہ کی مدد سے کی جائے تاکہ شہری اپنے گھروں میں
پودے لگائیں اور یوں اس خطرناک سموگ سے بچا جا سکے ۔
لاہور میں دوسو مائکروکیوبک فی میٹر کے حساب سے سموگ پیدا ہوتی ہے۔ماہرین
کا کہنا ہے کہ سموگ سے بچنے کے لئے جہاں حکومت کو آلودگی کے خاتمہ میں
سنجیدگی اختیار کرنے کی ضرورت ہے وہاں ماحول دوست ایندھن کا استعمال نہایت
ضروری ہوچکا ہے۔اس بارے میں حکومت کو دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کو بند
کردینا چاہئے اور عوام کو بھی اپنا طرز زندگی بدلنا چاہئے۔ماہرین کے مطابق
سموگ دمہ اور سانس کی بیماریوں میں مبتلا افراد کے لئے انتہائی مہلک
ہے۔ہسپتالوں میں سموگ سے متاثرہ افراد کی تعدا بڑھ رہی ہے لہذا حکومت کو ہر
علاقے میں دوا اور احتیاط کے حوالے سے بندوبست کرنا چاہئے۔میڈیا رپورٹ کے
مطابق اس وقت چلڈرن ہسپتال میں ہی اب تک گلے اور سانس کے مرض میں مبتلا
بچوں کی تعداد2000سے زیادہ ہو چکی ہے ۔
لاہور کی ٹریفک پولیس نے جسطرح لوگوں میں ماسک کا شعورپیدا کرنے کے لئے مفت
ماسک تقسیم کئے ہیں اس طرح کی تحریک عام ہونی چاہئے۔ سموگی علاقوں میں رہنے
والوں کو درج ذیل احتیاط برتنی چاہئے۔
سموگ کی ایک وجہ جو امریکی اخبار ’’نیویارک ٹائم‘‘ نے شائع کی ہے مذکورہ
اخبار نے ناسا کا حوالہ دیتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ اس دھند کی بنیادی وجہ
بھارتی پنجاب کے ہزاروں کسانوں کی جانب سے 32 ملین ٹن زرعی فضلہ، گھاس اور
بھوسہ نذر آتش کرنا ہے ، جس کی وجہ سے بھارتی پنجاب اور اس سے ملحقہ
پاکستانی علاقے گزشتہ دو روز سے شدید فضائی الودگی کی لپیٹ میں ہیں۔نیویارک
ٹائم کے مطابق کسانوں کی جانب سے اتنے بڑے پیمانے پر زرعی فضلہ جلانے کا
مقصد ہزاروں ایکڑ رقبے کو اگلی فصل کی کاشت کیلئے پھر تیار کرنا ہے۔ناسا نے
اس حوالے سے ان علاقوں کی سیٹلائیٹ سے لی گئی تصویر اور رپورٹ بھی جاری کی
ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ دھند کی وجہ صرف دیوالی کی آتش بازی نہیں بلکہ اس
میں زرعی فضلے مثلا چاول کے پھوگ کو لگائی جانے والی آگ بھی شامل ہے۔
سرگودھا اور گردونواح میں جمعہ کے روز بھی دھند کے باعث لوگوں کو شدید
مشکلات کا سامنا کرنا پڑا مختلف علاقوں کو جانیوالی شاہراؤں پر ٹریفک کا رش
بھی نہ ہونے کے برابر تھا جبکہ لوگ گلے‘ ناک اور نزلہ زکام کیساتھ بخار
جیسی مبتلا ہورہے ہیں شہریوں کا کہنا ہے کہ دھند کی وجہ سے کاروبار زندگی
معطل ہوکر رہ گیا ہے جبکہ بازاروں میں بھی خریداروں کا رش نہ ہونے کے برابر
ہے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ اس موسم میں نیم گرم پانی گلے‘ نزلے‘ زکام کیلئے
بہترین ہے لوگ نیم گرم پانی کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں تاکہ اس بیماری
سے بچا جاسکے دن نکلنے کے باوجود بھی دھند کے باعث لوگ گاڑیوں کی لائٹیں
جلا کر سفر کرنے پر مجبور تھے جبکہ سکول‘ کالجز اور دفاتر میں جانیوالے لوگ
دھند کی وجہ سے لیٹ پہنچے۔موسمیاتی تبدیلیوں اور موحولیاتی آلودگی کے باعث
سرد موسم کی فوگ اسموگ کی شکل اختیار کرگئی، گرد آلود دھند کی وجہ سے
شہریوں کو آنکھوں اور گلے کی بیماری کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ اسکول
جانے والے بچے بھی آنکھوں کی جلن اور سانس لینے میں دشواری کی شکایت کر رہے
ہیں۔
قارئین……!!اگر ہم خود کو محب وطن شہری سمجھتے ہیں اور اپنی آنے والے نسلوں
کیلئے کچھ چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں توہمیں گرد آلود نہیں بلکہ آکسیجن سے بھر
پور فضا کو چھوڑ کر جانا ہوگا اور اسکے لئے ضروری ہے کہ ہم خود سے عہد کریں
کہ اپنے گھر میں کم از کم ایک یا دو پودے ضروری لگائیں گے اور ساتھ ہی ساتھ
اپنے محلے کے گردو بیش میں بھی پودوں کو لگانے کی جستجو کریں گے یقین جانیں
ہم خود کو ذمہ دار شہری بنا لیں تو یقینا محکمہ ماحولیات اور محکمہ جنگلات
اور محکمہ زراعت سمیت دیگر محکموں کو شرمندہ تعبیر ہونا پڑے گاکیونکہ ہم
اپنی ذمہ داری سے انکو بھی ذمہ دار بنا سکتے ہیں یقینا یہ ہم سب کا فرض ہے
اور آنیوالی نسلوں کا ہم پر قرض ہے اب فیصلہ قارئین آپ پر اور حکمرانوں پر
ہے کہ وہ کس طرح اس بحران کی حقیقت کو جانتے ہوئے کیا حکمت عملی ترتیب دیں
گے ۔ |