جے این یو کے نجیب احمد کی گمشدگی سے راج ناتھ سنگھ کی عزت داؤ پر
(Syed Ahmed Qadri, India)
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی ، دلی کے
کیمپس کے ماہی ما نڈوی ہوسٹل سے ایم ایس سی ، بائیو ٹیکنا لوجی کا طالب علم
نجیب احمد گزشتہ 15 ؍اکتوبر سے گم ہے ۔ ریاست اتر پردیش کے ضلع بدایوں کا
باشندہ نجیب احمد کی ماں اپنے لخت جگر کے سراغ کے لئے در در بھٹک رہی ہے ،
ملک اور یونیورسٹی کے انتظامیہ کے ایک ایک فرد سے اس کی محفوظ واپسی کی
بھیک، زار و قطار رو رو کر گڑگڑا کر مانگ رہی ہے۔ نجیب کی اس ماں اور بہن
شذف مشرف کی آہ و بکا کو سن کر کون سا ایسا پتھر دل ہوگا ، جو نہیں رو پڑے
گا ۔ ایک ویب سائٹ پر نجیب کی ماں اور بہن کو روتے ہوئے دیکھ اور سن کر
یقین کریں کہ میری آنکھیں بھی نم ہو گئیں اور میں اپنے آنسوؤں کو نہیں روک
سکا ۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ جس وقت نجیب کی ماں اور بہن جواہر لعل نہرو
یونیورسٹی کے کیمپس میں طلبہ وطالبات کے درمیان اور پریس کلب میں منعقد
پریس کانفرنس سے مخاطب کرتے ہوئے اپنے نجیب کی بحفاظت واپسی کی گزارش کر
رہی تھیں ، اس وقت بھی وہاں پر موجود بیشتر افراد کی آنکھوں سے آنسو رواں
تھے ۔ لیکن واہ رے اس یونیورسٹی کے وائس چانسلر جگدیش کمار کی بے حسی اور
لاتعلقی کہ اس کی یونیورسٹی کا ایک طالب علم جھگڑے کے بعد غائب ہے اور اس
کی ماں اپنے بیٹے کی گمشدگی کی اطلاع دینے اور اس کی واپسی کے لئے گزارش
کرنے کے لئے، اس سے ملنے کی فریاد کررہی ہے ، لیکن وائس چانسلر نے اس غمزدہ
ماں سے ملنا بھی گوارہ نہیں کیا ۔ وائس چانسلر کی اس بے اعتنائی پر
یونیورسٹی کے طالب علم برہمی واجب ہے اور آخر کار وہاں کے طلبہ وطالبات کو
مجبور ہو کر احتجاج اور مظاہرہ کرناپڑا ۔یونیورسٹی اسٹوڈنٹ یونین کی
سربراہی میں طلبہ نے وائس چانسلر اور دیگر یونیورسٹی کے انتظامیہ کے ذمّہ
داروں کو بیس گھنٹے سے زائد وقفہ تک ایڈمن بلڈنگ میں محاصرہ کر اپنے
مطالبات کو سامنے رکھ کراحتجاج کیا ۔ اس کے بعد بھی جب وائس چانسلر کی جانب
سے کوئی خاص پہل نہیں ہوئی تب کیمپس میں زبردست احتجاج اور مظاہرہ بھی ہوا
۔ جے این یو پہنچ کر اروند کیجریوال ، ششی تھرور، یچوری وغیرہ نے بھی نجیب
کی جلد از جلد واپسی کا مطالبہ کیا ہے ۔نجیب کی ماں جہاں وہ صرف اپنے بیٹے
کی بحفاظت واپسی کی فریاد کر رہی ہے ، وہیں نجیب کی بہن طلبا سے بار بار یہ
گزارش کر رہی ہے کہ ہم لوگوں کو نجیب کی واپسی چاہیے اور اس سانحہ پر کسی
قسم کی سیاست نہیں ہو ۔ بہن تمام طلبأ سے یہ بھی گزارش کررہی ہے کہ وہ اس
مہم کے دوران ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں کہ دشمنوں کو موقع مل جائے اپنی
انتہا پسندی اور شدت پسندی کے مظاہرہ کرنے کا ۔نجیب کی بہن نے میڈیا والوں
سے بھی بطور خاص اپیل کی ہے کہ وہ لوگ اس مسئلہ کو کسی بھی طرح کا رنگ نہ
دیں اور نجیب کی واپسی میں تعاون کریں ۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ماں ، بہن
اور دوسرے ہمدردوں کے احتجاج اور مطالبہ پر پولیس کی ان لوگوں کے ہمدردی
کیا ہوتی ، انلوگوں کے ساتھ بدترین سلوک کیا جا رہا ہے ۔ نجیب کی ماں کو
سڑک سے گھسیٹتے ہوئے جیل میں قید کیا جا رہا ہے ۔ وہ تو تھانہ پہنچ کر دلی
کے وزیر اعلیٰ کیجریوال نے یہ اعلان کر دیا کہ جب تک نجیب کی ماں گھر نہیں
جاتی ہیں ، میں تھنے میں ہی رہونگا ۔ تب جا کر دلی کی بے شرم پولیس نے نجیب
کی ماں ک وآزاد کیا ۔
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی، دلی کی ایک ایسی یونیورسٹی ہے ،جو اپنے قیام سے
اب تک بائیں بازو کے نظریہ کی حامی رہی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں
یہ یونیورسٹی کانگریس کے بھی نشانے پر رہی تھی اور جب سے مرکز میں بھارتیہ
جنتا پارٹی اقتدار میں آئی ہے ، اس وقت سے مسلسل یہ یونیورسٹی انتہا پسندوں
اور شدت پسندوں کی ہدف بنی ہوئی ہے ۔ گزشتہ فروری ماہ سے کنھیا اور عمر
خالد وغیرہ کا جو تنازعہ شروع ہواہے ، وہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے ۔
حکومت اور فرقہ پرستوں کی انتہا پسندی سے یہاں جو طوفان اٹھا اور اس معاملے
میں جس طرح کی نہایت گندی سیاست رچی گئی اور ناقابل یقین حد تک بلکہ بہت
نچلی سطح سے اُتر کر جس طرح سیاست ہوئی اور اس میں مرکزی حکومت کی مشنری ،
تمام شدت پسند تنظیمیں اور میڈیا کا جو منفی رول رہا ، اس سے ملک کی نہ صرف
ملکی سطح پر بلکہ عالمی سطح پربھی کافی رسوائی ہوئی تھی ۔ اس معاملے میں
بہت ذمّہ دار عہدوں پر بیٹھے افراد نے جیسے جیسے جھوٹھے اور غلط بیانات دئے
۔ یہ سب کے سب گرچہ بعد کے حالات اور عدلیہ میں غلط ثابت ہوئے ۔ جس کے باعث
حقیقت یہ ہے کہ مرکزی حکومت اور حکومت کی غلط کارکردگی کا ساتھ دینے والے
میڈیا او ر انتہا پسند تنظیموں کو بھی کافی ذلّت اور رسوائیوں کا سامنا
کرنا پڑا تھا ۔ معاملہ بظاہر سرد پڑ گیا تھا ، لیکن مرکزی حکومت اور شدت
پسند افراد اپنی فضیحت کو فراموش نہیں کر سکے اور اس یونیورسٹی کے ساتھ اس
وقت سے لگاتار تنگ نظری اور سوتیلا پن کا جس طرح ثبوت دیا جا رہا ہے ، اس
سے صاف اندازہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ اس یونیورسٹی کو ہر حال میں حاشیہ پر
ڈالنے کی تیاری میں ہیں ۔ اس یونیورسٹی میں دبدبہ رکھنے والی بائیں بازو کی
تنظیم کے حامیوں کو سبق سکھانے اور انھیں ان کی اوقات بتانے کے لئے منظم
اور منصوبہ بند سازش اندر ہی اندر جاری ہے۔ حکومت اور شدت پسند تنظیمیں اب
جواہر لعل نہرویونیورسٹی کے طلبا کو یہ بھی باور کرانا چاہتی ہے کہ تم
لوگوں نے حکومت اور میرے نامزد کردہ ایک وائس چانسلر سبرامنیم سوامی کے
خلاف بھی تحریک چلا کر انھیں اس یونیورسٹی میں داخل نہیں ہونے دیا تھا ۔بہت
مظاہرہ اور احتجاج کر چکے اورہمیں ’ہوش میں آؤ‘ کا نعرہ بہت لگا لیا اور اب
تم لوگ ہوش میں آ جاؤ ، ورنہ تم لوگوں کا انجام بھی نجیب احمد جیسا ہوگا کہ
وہ اپنی یونیورسٹی کے اپنے ہی ہوسٹل سے غائب کر دیا گیا اور کسی کو پتہ بھی
نہیں چلا۔ یہاں تک کہ مرکزی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کے ذریعہ اپنے ماتحت
محکمہ پولیس کو نجیب احمدکا جلد از جلد سراغ لگانے کی ہدایت دینے اور اسے
تلاش کرنے کے لئے خصوسی ٹیم بھی تشکیل بھی دی گئی ، جو اب تک ناکام ثابت
ہوئی ہے اور وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کی یہ ناکامی نہایت شرمندگی میں کا
باعث بن گیا ہے ۔ اتر پردیش کا الیکشن سر پر ہے ۔ راج ناتھ سنگھ یہ اعلان
کرا رہے ہیں اور اتر پردیش کے عوام سے یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ اتر پردیش میں
ان کی حکومت قائم ہوئی تو یہاں ہر قیمت پر قانون کی حکمرانی ہوگی ۔ اس وعدے
پر لوگوں کا یہ سوال حق بجانب ہے کہ جو وزیر داخلہ اپنے اتر پردیش کے ایک
طالب علم کی گمشدگی کا مسئلہ حل نہیں کر پا رہا ہے ، وہ اس ریاست میں کس
طرح قانون کا نفاذ کرے گا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نجیب کی گمشدگی سے راج ناتھ
سنگھ کی کافی رسوائی ہو رہی ہے کہ جو وزارت راتوں رات پاتال میں چھپے ہوئے
بڑے سے بڑے دہشت گرد کا پتہ لگا لیتی ہے ۔ وہ وزارت ایک طالب علم کا پتہ
لگانے میں ناکام ثابت ہو رہی ہے ، جبکہ مجرین بالکل سامنے ہیں ۔ ایسے لوگوں
کا اتر پردیش میں حکومت بنانے کا دعویٰ کس قدر کھوکھلا ہے ، اس کا ندازہ
لگایا جا سکتا ہے ۔نجیب کا سراغ دینے والے کو دلی کے ایڈیشنل پولیس ڈپٹی
کمشنر پرساد کے ذریعہ انعام کی رقم پچاس ہزار سے بڑھا کر ایک لاکھ کر دیا
گیاہے ، ان سب کے باوجود نجیب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ہے۔ جے این یو
اسٹوڈنٹ یونین کے صدر موہت پانڈے بار بار انتظامیہ کو یہ بتانے کی کوشش کر
رہے ہیں کہ اس گمشدگی میں بھارتیہ ودیارتھی پریشد کا ہاتھ ہو سکتا ہے ۔ اس
لئے کہ 14 ؍اکتوبرکی شب میں جن طلبا سے نجیب کی لڑائی ہوئی تھی اور جن
لوگوں نے نجیب کو زدو کوب کیا تھا اور وہ اس قدر زخمی ہو گیا تھا کہ اسے
صفدر جنگ اسپتال جانا پڑا تھا ، ان لوگوں سے باز پرس ہونی چاہئے ۔ یہ جھگڑہ
یونیورسٹی کے سیکورٹی گارڈ اور وارڈین کی موجودگی میں ہوئی تھی ، جس میں
نجیب کو وکرانت،انکت،اور سنیل نے بری طرح پٹائی کی تھی ۔ ساتھ ساتھ یہ بھی
بات سامنے آئی ہے کہ جس وقت لڑائی ہوئی تھی ، اس وقت وہاں پر بیرونی طلبہ
بھی موجود تھے اور یہ لوگ بار بار نجیب کو جان سے مارنے کی دھمکی بھی دے
رہے تھے ۔اس ،معاملہ کو جب کچھ طلبا یونیورسٹی کے پراکٹر کے پاس لے گئے تو
انھوں نے کہا کہ اس واقعہ کو کمیونل رنگ دے رہے ہو ۔ طلبہ یونین کے رہنمأ
اس بات پر بھی مستقل حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ اب تک ان طلباسے پولیس نے
کوئی پوچھ تاچھ کیوں نہیں کی ہے ۔ ان لوگوں نے پولیس کے اس بے اعتنائی پر
بھی سوال اٹھائے ہیں ۔ لیکن پولیس اس معاملے میں نہ جانے کیوں خاموش نظر
آتی ہے ۔ یہاں تک کہ نجیب کی گمشدگی اور اس سلسلے میں ہونے والے ہنگامہ پر
وائس چانسلر سمیت یونیورسٹی انتظامیہ کی سرد مہری اور لاپرواہی برتے جانے
پر احتجاج اور مظاہرہ کرنے والے طلبا کو 21 ؍اکتوبر کو پارلیامنٹ کے قریب
گرفتار بھی کیا جاتا ہے ۔ لیکن نجیب سے لڑائی کرنے والے طلبا اور نجیب کا
سراغ دینے والوں میں سے کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے ۔ نجیب احمد کی گمشدگی
کے بعد یونیورسٹی میں ایک طوفان کھڑا ہو گیا ہے ، جو اب تھمنے کا نام نہیں
لے رہا ہے ، روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے ۔ ملک کے کئی گوشوں میں بھی
مظاہرہ اور احتجاج کے بڑھتے سلسلہ نے شدت اختیار کر لی ہے۔ نجیب کی گمشدگی
کی گونج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بہت زور و شور سنائی دی ہے ۔ گزشتہ
جمعہ کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین نے جے این یو انتظامیہ اور اے
بی وی پی کے خلاف بہت جم کر احتجاج اور مظاہرہ کیا اور یونیورسٹی کی جامع
مسجد سے باب سر سید تک احتجاجی مارچ نکال کر دہلی انتظامیہ کے نام اپنے چار
نکاتی عرضداشت کو ضلع انتظامیہ کو سپرد کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ جلد از
جلد اس مسئلہ کو بہت سنجیدگی سے حل نہیں کیا گیا تو اے ایم یو کے طلبہ
تحریک چلانے کو مجبور ہونگے ۔ آل انڈیا اسٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے طلبا نے بھی
پٹنہ میں نجیب کی گمشدگی پر احتجاج اور مظاہرہ کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر
مودی کا پتلا نزر آتش کیا ہے ۔ ادھر ریاست بہار کے پورنیہ ضلع کی تمام طلبا
تنظیموں نے اندرا گاندھی اسٹیڈیم میں ایک اہم میٹنگ منعقدکر یہ مطالبہ کیا
ہے کہ جے این یو کے طالب علم نجیب کو جلد از جلد صحیح سلامت واپس لائے جائے
ورنہ اسٹوڈنٹ یونین ملکی سطح پر تحریک چلائے گی ۔ ضلع صدر شوشانت کشواہانے
تمام طلبا کی تظیموں سے گزارش کی ہے کہ اس معاملے میں وہ اس تحریک میں ساتھ
دیں ۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے کہ اگر حکومت کی نیت صاف ہو اور
نجیب کی محفوظ برامدگی کی جانب قدم سنجیدگی سے بڑھایا جائے تو کوئی وجہ
نہیں ہے کہ نجیب کی واپسی نہ ہو ۔ ابھی ابھی ریاست بہار میں دلی سے پٹنہ
ایئر پورٹ پر پہنچتے ہی دو تاجروں کو اغوأ کئے جانے کا معاملہ سامنے آیا
تھا۔ جس میں پٹنہ کی پولیس انتظامیہ نے اس اغوأ کو ایک چیلنج کی شکل میں
لیا اور دو رات کی انتھک کوششوں کے بعد آخر کا ر کئی شہروں میں چھاپہ ماری
کی اور آخر کار جنگل میں قید کئے گئے دونوں تاجروں کو رہا کرانے کا کام
پٹنہ کے ایس ایس پی منو مہاراج نے سر انجام دیا ، جبکہ اغوأ کاروں نے کو ئی
ایسا ثبوت نہیں چھوڑا تھا ، پھر بھی پولیس نے یہ کارنامہ کر دکھایا اور
نجیب کے معاملے میں تو متعدد شواہد موجود ہیں ۔ متعلقہ پولیس نجیب کا
موبائل فون اور اس کا لیپ ٹاپ بھی اپنے قبضے میں لے چکی ہے ۔ افسوس کی بات
ہے کہ ملک کے وزیر داخلہ کی نہ صرف پوری مشنری بھی اس معاملے میں بے دست
وپا نظر آ رہی ہے، بلکہ بذات خود وزیر داخلہ مجبور اور بے دست وپا نظر آ
رہے ہیں ۔ وزیر داخلہ اور ان کی پولیس کو نہ جانے کس کا خوف ستا ئے ہوئے ہے
؟نجیب کی گمشدگی سے پورے ملک کے طلبا حیرت زدہ ہیں اور متحد ہو کر تحریک
چلانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں ۔نجیب کی ماں اور بہن بھی اتنی آسانی سے نجیب
کی گمشدگی کو فراموش کرنے کو تیار نہیں اور اب ان کا ساتھ دینے کو کانگریس
اور آپ کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی تنظیمیں بھی سامنے کھل کر سامنے آ گئی ہیں ۔
ہاں ملک کے مسلم رہنماوں کی اس معاملے پر خاموشی اور بے حسی پر سوال اٹھ
رہے ہیں ، جو بالکل واجب ہیں ۔ |
|