’صفائی نصف ایمان ہے ‘ اور''صفائی میں
خدائی'' ہے میں نے اپنے بچپن سے یہ محاورے ہزاروں بار سنے ہیں،مگر افسوس کہ
صرف سنے ہی ہیں ۔یہ زیادہ تروہ لوگ اپنے خطاب میں کہتے نظر آتے ہیں جو لمبی
لمبی تقاریر کر کے لوگوں کے دلوں کو اپنی مٹھی میں سمیٹ کر بڑے بڑے عہدوں
پر فائز ہو جاتے ہیں مگر مسئلہ تو تب بنتا ہے جب اپنی ہی آنکھوں سے ان
لوگوں کا دوغلا پن اور منافقت کی حد دیکھنے کا اتفاق ہو جائے۔میں نے چار
سالوں سے ایک عجیب واقعہ دیکھا ہے۔ سبز نمبرپلیٹ لگی گاڑی ’اکبرخان روڈ‘ سے
گزرتی ہے ، شیشہ کھلتا ہے اور کچھ کچرا سڑک کے کنارے پھینک کر شیشہ چڑھا
دیا جاتا ہے مجھے تعجب اس سبز نمبر پلیٹ پر ہوتاہے جو اپنے عہدے کی نمائش
کے لیئے لگائی گئی تھی خیر، چند منٹ گزرتے ہیں کہ دوسری گاڑی میں بیٹھے چند
افراد بھی یہی عمل دہراتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہاں کوڑے کا ڈھیر لگ
جاتا ہے۔اب وہی سبز نمبر پلیٹ لگی گاڑی واپس پلٹتی ہے اور میونسپل کمیٹی کو
سڑک کے تنگ ہونے کی شکایت کے ساتھ اس تمام کچرے کا دوش دیتے ہوئے انھیں
انکے فرائض کی یاددہانی کرواتی ہے۔کچھ لمحوں میں صفائی ہوتی ہے اور سڑک صاف
نظر آتی ہے مگر بات تو پھر وہی ہے’صفائی نصف ایمان ہے‘ اور گاڑی میں گند
بھلا کیسے پھنکا جا سکتا ہے؟ لہذا ایک بار پھر سڑک کو کوڑے کا ڈھیر بنایا
جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ایک بندہ اس قدر منافق کیسے ہو سکتا ہے کہ
اپنے بچوں کو پڑھاتا ہو ــ’صفائی پسند اﷲ کو بھی پسند ہوتا ہے‘ مگر اپنے
گرد ہر شخص کے ذہن میں ایک سوال چھوڑ جاتا ہو ’کیا صفائی محض اپنی گاڑی ،اپنے
بنگلے اور اپنی ذات تک محدود ہے؟؟
’ُپاکستان میرا گھر ہے اور اپنے گھر کی دیکھ بھال میری زمے داری ہے‘ یہ وہ
دعویٰ ہے جو ہر عام بندے کو اپنے جھانسے میں گرفتار کر لیتا ہے اور عوام
الفاظوں کے سحرتلے اس قدر دب کر رہ جاتے ہیں کہ انہیں اس دعوے دار کی شیریں
اور مٹھاس بھری تقریر بھا جاتی ہے اور وہ ان جادوئی الفاظوں کے پیچھے چھپے
ہوئے اس قیدیِ نفس کو پہچاننے میں ناکام ہو جاتے ہیں ۔ اخبارات میں اپنی
شان میں قصیدے اور تقریروں میں وہی لفظوں کے کھیل سے سحر طاری کرنا بھی
کوئی چھوٹی بات تھوڑی ہے مگر یہ بھی تبھی کسی بندے کو سحرزدہ کرنے میں
کامیاب ہوگا جب وہ اپنے ظاہر و باطن میں یکساں نکلے ورنہ کہیں نہ کہیں ڈھکی
چھپی منافقت اس طرح کے عمل کے زریعے دعوے دار کے چہرے پر پڑے نقاب کو اٹھا
سکتی ہے، اور یہ منافقت وہ جھوٹ ہے جسکے پاؤں تو ہوتے ہیں مگر وہ جلد ہی
اپنی ذات کا تعقب کرتے کرتے بھیانک حادثے کا شکار ہو جاتا ہے۔ملک بھر میں
ایسی کئی سڑکیں ہیں جو اسی مسئلے سے دوچار ہیں اور ٹریفک کے باعث اگر وہاں
رکنا پڑ جائے تو وہ توقف اجیرن ثابت ہوتا ہے، لہذا بارش کا پہلا قطرہ اسے
بننا ہے جسکی دیکھا دیکھی بارش برسے اور ذاروقطار برسے۔مجھے محسوس ہوتا ہے
اقبال نے انہی حالات کی پیشگوئی کرتے ہوئے کہا تھا:
جلالِ آتش برق وشب پیدا کر تو انقلاب کی عماد کا انتظار نہ کر
اجل بھی کانپ اٹھے وہ شباب پیدا کر جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر |