مزارات اولیا اور حکومتی رٹ۔۔۔

دنیا کے نقشے پرپاکستان ، بھارت، بنگلہ دیش، عراق، ایران اورشام ایسے ممالک ہیں جہاں صوفیائے کرام کے مزارات کثیر تعداد میں موجود ہیں، سلسلہ چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ اور قادریہ سے تعلق رکھنے والے بزرگوں کی تعلیمات کیساتھ ساتھ ان کے مریدین کی تعداد ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں نفوس پر مشتمل ہیں۔بھارت میں اجمیر شریف میں سلسلہ چشتیہ کے سب سے بڑے بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کا مزار شریف ہے ، دیوہ شریف میں سلسلہ چشتہ کی ایک بڑی شاخ کے بڑے بزرگ حضرت حافظ سید وارث علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے،سلسلسہ قادریہ کے سب سے بڑے بزرگ پیران پیر حضرت شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کا مزار ہے الغرض سلاسل کا سلسلہ برسوں سے چلتا چلا آرہا ہے ، ان سلاسل کے کئی ایسے بزرگان دین کے مزارات کچھ کچے کے علاقوں میں، کچھ بیابان پہاڑوں کی آغوش میں تو کچھ نخلستان تو کچھ دریاؤں کے بیچ و بیچ واقع ہیں ۔ ۔۔۔۔!!

معززقائرین ! آج میں پاکستان میں واقع بزرگان دین کے مزارات کے حوالے سے اپنے قلم کو اٹھانے کی جسارت کررہا ہوں ، خانقاہوں سے دین اسلام کی ترویج و ابلاغ ہمارے معاشرے میں بہت اہمیت رکھتی ہے ، خاص کر کسی بھی سلسلے کے بزرگ کا جب عرس آتا ہے تو وہاں باعث ثواب اور روحانی کیفیات کو سمیٹنے کیلئے پاکستان بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری رہتا ہے ،اعراس کے موقع پر ہر مسلک ، ہر رنگ و نسل، ہر قوم کے عقیدت مند عرس میں شریک ہوتے ہیں۔پاکستان میں اولیا کرام کے مزارات کی دیکھ بھال اور زائرین کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے حکومت پاکستان کی جانب سے ایک ادارہ بنایا گیا ہے جسے اوقاف کہتے ہیں جو وزارت مذہبی امور کے تابع اپنے خدمات پیش کرتا ہے ، حکومت وزارت مذہبی امور کے طفیل ادارہ اوقاف کو سالانہ بھاری بجٹ فراہم کرتا ہے اس کے علاوہ سال بھر زائرین سے مزارات کے اندر چندہ کے بڑے بڑے بکس تعینات کیئے جاتے ہیں جن میں عقیدت مند حسب حیثیت چندہ دیتے ہیں جو لاکھوں سے تجاوز کرکے کڑوروں کی تعداد تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔۔۔۔!!

چند بڑے مزارات جن میں درگاہ حضرت مخدوم سید علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش رحمۃ اللہ علیہ لاہور، درگاہ حضرت خواجہ فرید الدین مسعود گنج شکرمعروف با با فرید رحمۃ اللہ علیہ پاک پتن، درگاہ حضرت سید عبد اللہ شاہ غازی رحمۃ اللہ علیہ کراچی،درگاہ حضرت سید عبد اللہ شاہ اصحابی رحمۃ اللہ علیہ مکلی ۔ٹھٹھہ ،درگاہ حضرت سچل سر مست رحمۃ اللہ علیہ رانی پور۔ خیرپور میرس، درگاہ حضرت سخی عبدالوہاب شاہ جیلانی رحمۃ اللہ علیہ حیدرآباد،درگاہ حضرت شاہ عبد اللطیف بھٹائی رحمۃ اللہ علیہ بھٹ شاہ ہالہ،درگاہ حضرت سید عثمان مروندی المعروف لعل شاہ باز قلندر سہون شریف،درگاہ حضرت شاہ عبداللطیف العروف امام بری رحمۃ اللہ علیہ اسلام آباد اور دیگر صوفیائے کرام کی درگاہ اور مزارات پر وزارت مذہبی امور اور ادارہ محکمہ اوقاف کی جانب سے اعراس کے موقع پر خاص توجہ دی جاتی ہے مگر کئی سو ایسے بزرگان دین کی درگاہیں اورمزارات ایسے ہیں جہاں نہ پانی، نہ بجلی اور نہ ہی بنیادی ضروریات موجود ہوتی ہیں جہاں زائرین اپنی مدد آپ کے تحت اعراس کے موقع پر مسائل حل کرتے ہیں ۔مزارات و درگاہوں کا تحفظ حکومت وقت کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن حکومت اس معاملہ پر اپنی رٹ نہیں پیش کرتی بلکہ ان درگاہوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اس بابت کئی خطرناک واقعات پیش آئے ہیں جس میں زائرین کی بڑی تعداد میں ہلاکت بھی واقع ہوتی رہی ہیں ، آج بلوچستان کے ضلع خضدارکاعلاقہ شاہ نورانی میں خود کش حملہ ہوا، جس میں اب تک کی اطلاع کے مطابق پچاس سے زائد ہلاک اور سو سے زائد زائرین زخمی ہوگئے ،حادثے کی اطلاع پہنچتے ہی صوبہ سندھ کراچی اور صوبہ بلوچستان کے مختلف شہروں کے اسپتالوں میں ایمرجنسی عائد کردی گئی۔یاد رہے کہ شاہ نورانی کا مزار کراچی سے ایک سو بیس کلومیٹرکے فاصلےپر ہے، یہ مقام چاروں طرف سےپہاڑوں میں گھرا ہواہے،، علاقے کی وجہ شہرت صدیوں پراناحضرت سید بلاول شاہ نوارنی کامزارہے۔ شاہ نورانی سنگلاخ پہاڑی علاقہ ہے، دور درازہونے کے باعث علاقے میں کوئی اسپتال نہیں مکین بجلی،موبائل سروس اوردوسری اہم سہولیات سے بھی محروم ہیں۔!! زائرین اپنی گاڑیوں کے ذریعے محبت شاہ کے علاقے تک پہنچ پاتے ہیں، مزار کوجانے کیلئے یا تودشوار گزارراستوں پر پیدل چلنا پڑتا ہے یا پھر وہاں چلنے والے ٹرک کا استعمال کرنا پڑتا ہے جسے کیکڑاکہتے ہیں، زائرین کوعلاقے میں گھاٹیاں، نوکیلے پتھروں اور دیگر مشکلات کا سامناکرناپڑتاہے۔۔!! آج بروزہفتہ بارہ نومبرکی شام کوہفتہ کی نسبت کراچی سے کثیر تعداد میں زائرین شاہ نورانی لاحوت لا مکاں کے مقام پر پہنچے تھے ،ہفتہ اور اتوار کی شام درگاہ میں دھمال ہوتا ہے، دھمال میں پانچ سوکے قریب لوگ موجود تھے، دھماکادرگاہ کے احاطے میں ہوا، اُس وقت دھمال ہورہا تھا کہ جب خود کش دہشت گرد نے خود کو اڑا دیا، دھماکے کے نتیجے میں بچوں، عورتوں سمیت نوجوانوں کی بڑی تعداد اپنےکنبے کے ساتھ حادثے کا شکار ہوئی ۔۔۔۔!!فی الفور فیصل ایدھی نےکراچی سے پچیس ایمبولینس متعلقہ مقام پر روانہ کردی جبکہ حب اور کراچی سے رینجرز اور پاک آرمی کی میڈیکل ٹیمیں روانہ کردی گئیں،اس موقع پر پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کی جانب سےدہشت گردی کے واقع پر شدید مذمت کی گئی، ایدھی، چھیپا اور دیگرفلاحی اداروں کی ایمبولینس نے ریسکیو میں حصہ لیا جبکہ کور کمانڈر کراچی اور کوئٹہ کی جانب سے بھی فی الفور ہنگامی بنیادوں پر طبی امدادی کاموں کیلئے فورسس کوروانہ کردیا گیا جبکہ حب سمیت کراچی کے تمام اسپتالوں میں ایمرجنسی نافز کردی گئی ، سول سوسائٹی کی جانب سے خون ک عطیات اور دیگر سہولیات بھی بہم کی گئیں۔۔!! معزز قائرین ! حکومتی ترجمان کی جانب سے بتایا گیا کہ سیکیورٹی تھریڈ موجود تھیں اگر ایسا تھا تو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیوں نہیں کیئے گئے، ہر بار عوام کی جانوں کا ضیاع ہونے کے بعد از سر نو پلاننگ کیوں کی جاتی ہے؟؟ ایسے مقامات جہاں عوام کا رش یا عوامی تقریبات کا سلسلہ ہو وہاں بنیادی ضروریات کیوں نہیں بہم کی جاتی ہیں جس میں روڈ، پانی، بجلی، مواصلات، اسپتال و کلینک وغیرہ؟؟؟پاکستان کا المیہ ہے کہ حالات جنگ میں ہونے کے باوجود ہماری حکومت اور ادارے کیوں غافل ہوجاتے ہیں ، ہماری پولیس زائرین سے پیسے بٹورنے کے علاوہ ان میں دہشت گردوں کی تلاش کیوں نہیں کرتی؟؟؟ آئی جی پولیس کسی بھی صوبے کا ہو اس کا یہ کہنا قطعی درست نہیں کہ ہماری پولیس ایمانداری کیساتھ اپنے فائض منصبی ادا کرتی ہے یقین جانئیے میرا بہت زیادہ مشاہدہ رہا ہے کہ پولیس ہمیشہ زائرین سے رقم طلب کرتی ہے پھر آگے کا سفر کرنے کی اجازت دیتی ہے جہاں کی پولیس کی نس نس میں کرپشن، رشوت اور بد عنوانی نسی ہو وہاں ایسے واقعات جنم نہیں لیں گے تو پھر کہاں لیں گے، سب سے پہلے پاکستان کے ہر صوبے کی پولیس کو سدھارنا لازم ہے۔۔۔!! دشمن جان چکا ہے کہ پاکستان مین کون بکنے والا ہے اور کون نہیں؟؟؟ اب بھی وقت نہیں گزرا حکومت اپنی رٹ دکھائے اور درگاہوں، مزارات جہاں عوام کی بہت بڑی توداد جاتی ہو وہاں سیکیورٹی کیساتھ کیساتھ بنیادی ضروریات کی یقینی کو قائم کیا جائے انشا اللہ جب ہم اپنے اندر کی خامیوں کو ختم کریں گے تو کبھی بھی دشمن ہمیں زیر نہیں کرسکے گا، اس کیلئے ہمیں اپنے ریاست کے نظام اور اداروں کی خامیوں کو فی الفور دور کرنا ہوگا چاہے اس کیلئے ہمارے اپنے پسندیدہ پارٹی کے لوگوں کو عہدے سے فارغ کرنا پڑے اور ان کی جگہ لائق قابل لوگوں کو لانا پڑے، اگر ہماری حکومتوں نے وطن عزیز اور عوام کیلئے ایسا اقدام کیا تو انشا اللہ ہم ہر سطح پر کامیاب و کامران رہیں گے ، اللہ پاکستان کی حفاظت کرے آمین ثما آمین ۔۔۔!!! پاکستان زندہ باد، پاکستان پائندہ باد۔۔۔۔!! !
جاوید صدیقی
About the Author: جاوید صدیقی Read More Articles by جاوید صدیقی: 310 Articles with 245225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.