امریکہ کے صدارتی انتخابات کا نتیجہ جو بھی
نکلے ایک بات یقینی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدارتی نامزدگی امریکی تاریخ کا
انوکھا واقع ہو گا جس کی بازگشت صدیوں سنائی دیتی رہے گی اگر یہ کہا دیا
جائے کہ ٹرمپ کی صدارتی مہم نے امریکہ کا سیاسی اور سماجی نقشہ تبدیل کر کے
رکھ دیا ہے تو بے جا نہ ہو گا امریکہ کے سیاسی میدان میں دیکھیں تو ڈونلڈ
ٹرمپ کے مخالفین اور مداحوں دونون میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ہے اور دونوں
ہی ایک جیسے پرجوش سرگرم ہیں ایک طرف ایسے لوگ ہیں جو انہیں امریکہ کے لیے
باعث شرم قرار دیتے ہیں دوسری جانب ٹرمپ کے کروڑوں حامی سمجھتے ہیں کہ وہ
امریکہ کو پھر سء عظیم طاقت بنانے کی آخری امید ہیں ان دونوں انتہاؤں کے
درمیان ایک بات مشترک ہے کہ دونوں سمجھتے ہیں کہ امریکہ کی تاریخ میں ڈونلڈ
ٹرمپ جیسا صدارتی امیدوار پہلے کبھی نہیں آیا ٹرمپ نے تجارت ،امیگریشن،بین
القوامی معاہدوں،اسلحے۔جنگ اور روس امریکہ تعلقات کے بارے میں نہ صرف وسیع
تر امریکی روایات بلکہ خود اپنی ہی جماعت ،ری پبلکن پارٹی کی پالیسوں سے
انحراف کیا یہی وجہ ہے کہ ماضی میں کبھی اتنے سنئیر راہنماؤں نے اپنی ہی
جماعت کے امیدوار کی اس قدر کھلم کھلا مخالفت نہیں جس قدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ہو
رہی ہے ۔امریکی سیاسی پارٹیاں ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے ،پگڑیا ں اچھالنے
اور الزامات لگانے میں کسی دوسرے ملک سے کم نہیں رہیں لیکن ایک بات ضرور
دیکھنے میں آئی کہ کسی جماعت اور راہنماء نے نظام پر انگلی نہیں اٹھائی ۔ٹرمپ
نے سیاسی اور عدالتی نظام،اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی بدعنوان
قرار دیکر اپنی راہ ضرور الگ بنائی جس پر کئی مبصرین کا خیال ہے کہ ڈونلڈ
ترمپ کامیاب ہوں یا نہ ہوں بات یہی نہیں رکے گی کیونکہ جو نقصان ہونا تھا
وہ تو ہو چکا ہے کیونکہ ٹرمپ نے نسل پرستانہ ،زینو فوبیا،اجنبیوں سے نفرت
پر مبنی اسلامو فوبیا پر مبنی ،افریقی امریکیوں کے خلاف حتکہ نظام کے خلاف
جو بیانات دیے ہیں اب وہ ہاریں یا جتیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ
عوام مشتعل ہوچکی ہے امریکی جمہوریت کی روایات ہے کہ ہارنے والا جیتنے والے
کو تقریر کر کے مبارکباد دیتا ہے مگر ٹرمپ پہلے ہی بتا چکے ہیں کہ اگر اسے
شکست ہوتی ہے تو اپنی شکست کو تسلیم نہیں کریں گے ممکن ہے کہ وہ اپنی شکست
کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اگر ایسی صورٹھال پیدا ہو جاتی ہے تو انکا
اگلا لائحہ عمل کیا ہو سکتا ہے وہ عدالت جائیں گے یا پھر اپنے کروڑوں
حامیوں کو اکسانے والا بیان دیں گے اگر ایسا ہوا تو وہ بھی امریکی جمہوریت
میں پہلا واقع ہو گا جس کے بعد روایت بن سکتی ہے کہا جا رہا ہے کہ کہیں نہ
کہیں یہ خیال کیا جا رہا ہے کہ اگر ٹرمپ ہا گیا تو اسکے حامی سڑکوں پر نہ آ
جائیں کیونکہ ٹرمپ لوگوں کے اندر نفرت پیدا کر چکا ہے جسے ختم کیسے کیا جا
سکتا ہے۔انتہاء پسندانہ تشدد کے تحقیق کار جوناتھن مورگن اپنی ویب سائیٹ پر
لکھتے ہیں کہ جب ڈونلڈ ٹرمپ لوگوں سے کہتے ہیں کہ انتخابات میں دھاندلی ہو
گی تو لوگ اسکی بات پر یقین کرتے ہیں مورگن نے سوشل میڈیا پر ٹرمپ کے
دھاندلی کے الزامات پر مبنی پوسٹوں کی حمایت کرنے والے سینکڑوں ایسے افراد
کی نشاندہی کی ہے جو مختلف مسلح گروپوں سے وابستہ ہیں ان میں سے ایک ایسے
ہی شخس نے فیس بک پر لکھا کہ ہیلری کلنٹن امریکہ کو مسلمانوں سے بھرنا
چاہتی ہے اگر وہ جیت گئی تو پھر وہ انقلاب کا وقت ہو گا باتیں بہت ہو گئیں
بلاگوں میں سختی دکھانے کا وقت گزر گیا اب اصل زندگی میں سخت ہونے کا وقت
ہے ۔امریکی ادارے ،ایس پی ایل سی لا،سنٹر کی ایک رپورٹ میں ٹرمپ کی تقریر و
بیانات کا طلبہ پر اثرات کا جائزہ لیا گیا تو معلوم ہوا کہ فیس بک،انسٹا
گرام،اور سنیپ چیٹ کے اس دور میں وہ امریکی نوجوان جو سیاست سے بڑی حد تک
بیگانہ رہتے تھے اب دو تہائی سے زیادہ اساتذہ کے طلباء نے تشویش ظاہر کی ہے
کہ اگر ٹرمپ صدر بن گئے تو انکے اور انکے خاندان کا کیا بنے گا ؟
ان طلباء کی اکثریت کا تعلق سیاہ فام برادریوں سے ہے یا پھر مہاجرین کے
خادانوں سے ہے اس سروے کے مطابق سیاہ فام طلبہ کی بڑی تعداد کو خدشہ ہے کہ
کہیں انہیں واپس افریقہ نہ بھیج دیا جائے حالانکہ انکے خاندان امریکہ کی
آزادی سے پہلے وہاں آئے تھے ۔ااج سے تقریبا دو ہفتے قبل ہیلری کلنٹن کو
ٹرمپ پر واضع برتری حاصل تھی لیکن اب پہلے ایف بی آئی کی طرف سے ہیلری کے
خلاف ای میلز کھولنے اور پھر اسے یکا یک بند کر دینے سے کنفیوزن پید ہو گئی
ہے اب بھی بیشتر مبصرین کا کہنا ہے کہ ہیلری جیت جائیں گی مگر انکی جیت اس
قدر یقینی نہیں رہی جس قدر پہلے دکھائی دیتی تھی اگر وہ آٹھ نومبر کو فاتح
ٹھہرتی ہے تو تب بھی بعد از انتخابات حالات کے سامنے سوالیہ نشان کھڑا ہو
گیا ہے اگر ٹرمپ ہار کی صورت میں انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کر دیں
تو کیا ہو گا ؟
کہیں ایسا تو نہیں ہو گا کہ عمران خان کی طرح ٹرمپ بھی کسی دھرنے کا اعلان
کر دیں ؟؟
کیونکہ ٹرمپ ایک تقریر میں واضع طور پر اشارہ دے چکے ہیں کہ اسلحہ کے حامی
کلنٹن کا راستہ روک سکتے ہیں ہیلری نے بھی الزام عائد کیا ہے کہ وہ لوگوں
کو تشدد پر اکسا نے کی کوشش کر رہے ہیں۔چونکہ امریکہ میں ادارے بہت مضبوط
ہیں اس لیے اس بات کا امکان تو نہیں کہ بڑے پیمانے پر ہنگامے ہونگے اور فوج
بلانی پڑ جائے گی لیکن یہ ممکن ہے کہ ٹرمپ شکست کی صورت میں مختلف علاقوں
میں مظاہرے ہونگے خاص طور پر نیویارک،جو دونوں امیدواروں کا گڑھ ہے ۔مبصرین
کہتے ہیں کہ اگر نیو یارک کی مسافروں سے کھچا کھچ بھری بس میں ٹرمپ کے کسی
حامی نے فقرہ کس دیا یا پھر شگاگو کے ڈاؤن ٹاؤن میں سیاہ فاموں کی تنظیم ،بلیک
لائیوزئیر کے ایک کارکن نے ٹرمپ کے کسی ووٹر کو طعنہ دے دیا تو اس کی
چنگاری بھڑک سکتی ہے اگر ایسا ہوا تو یہ امریکی سیاست او ر تاریخ دونوں کے
لیے ایک نیا موڑ ہو گا۔ یہ سب قیاس آرائیاں ہی رہیں اور ہیلری کو جتوانت
والے مبصرین کی حیرت اس وقت گم ہو گی جب امریکہ کی دو ریاستوں کے ابتدائی
رزلٹ سامنے آئے جسمیں ٹرمپ کو تقریبا ستر فیصد ووٹ پڑے اور پھر یہ لیڈ ٹوٹ
نہ سکی اور آخر کار ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر منتخب ہو گئے ہیں جن کے
صدر منتخب ہونے کے بعد جہاں مسلمانوں میں تشویش پائی جا رہی ہے وہاں سیاہ
فام اور افریقی بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں جبکہ ہمارا پڑوسی ملک بگلیں
بجا کر خوشی کا اظہار کر رہا ہے ۔آنے والے دنوں میں معلوم ہو گا کہ ڈونلڈ
ٹرمپ مسلمان ممالک کے لیے کیا پالیسی اپناتے ہیں اور امریکہ میں مقیم
پاکستانی و دیگر مسلم ممالک کے مسلمان کتنے محفوظ رہیں گے ۔مگر یہ طے ہے کہ
امریکی عوام نے اپنے ووٹ کی طاقت سے ٹرمپ کو اپنا راہنماء چن لیا ہے اور
ٹرمپ نے جو تقسیم کی لکیر امریکی عوام میں کھینچ دی ہے وہ شاید آنے والے
وقت میں ختم نہ ہو سکے اور نہ ہی امریکیوں کی نفرت محبت میں تبدیل ہو سکے
گی۔ |