مفادات کی سیاست
(Dr Khalid Hussain, Okara)
پاکستان کا قیام ایک نظریہ پر تھا اور اس
نظریہ کی حقانیت کوتسلیم کروانے کیلئے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے
لازوال قربانیاں دی تھیں،کوئی گھرانہ ایسا نہ تھا جس کا خون اس نظریہ کی
آبیاری کیلئے نہ بہا ہو۔جس کا گھر اس کی سربلندی کیلئے نہ لٹا ہو، جس کی
عزت سرعام نہ لٹی ہو،جن کے نو نہال نہ کٹے ہوں جو محفوظ رہے وہ آج کے
سیاستدانوں کی طرح ابن الوقت اور اس نظریہ کے حامی نہیں تھے لیکن ہاں وہ اس
نظریہ کے آڑ میں سادہ لوح مسلمانوں سے ضرورکھیلتے رہے جب پاکستان قائم ہو ا
تو پھر یہ ابن الوقت آگے بڑھے اوراپنے جیسے ہمنواؤں کے ہمراہ اس ملک کے
اعلیٰ ایوانوں تک رسائی حاصل کرگئے۔ جن لوگوں نے اس ارض پاک کی خاطر اپنا
سب کچھ لٹایاوہ پہلے بھی خالی دامن تھے اور اب بھی خالی دامن ہیں لیکن
ہمیشہ کی طرح وہ اب بھی وطن کے ان خراب حالات کی وجہ سے خون کے آنسو رو رہے
ہیں لیکن ان کی سننے والا کوئی نہیں مسند اقتدار پر براجمان سیاسی قوتیں
اپنے آپ کو ملک کا خیر خواہ جبکہ دوسروں کو دشمن سمجھتی ہیں۔قیام پاکستان
سے لیکر ابتک اس ملک میں اگر کسی چیزنے ترقی کی ہے تو وہ کرپشن ہے کرپشن کے
ناسور نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے رکھ دیا ہے باری باری سے اقتدار
کی مزے لینے والی پارٹیوں نے جی بھر کر اس ملک کو لوٹا اور اپنا پیٹ بھرنے
کے ساتھ ساتھ بیرون ملک اپنے اثاثہ جات قائم کرتے ہوئے مغربی معیشت کو دوام
بخشاجبکہ اپنے ملک کی معیشت کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا۔وطن سے محبت رکھنے
والے سیاسی کردار جب بھی پوزیشنمیں آتے دکھائی دیئے تو ان ابن الوقت
سیاستدانوں نے اپنے اختلافات کو پس پشت ڈال کر اکٹھ کر لیااور انہیں بیک فٹ
پر دھکیل دیاکیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہیں شکست ہو گئی تو وہ احتساب کی
چکی سے نہ نکل سکیں گے سو انہوں نے اپنے اوپر نیچے سبھی کو شورے پر لگا دیا
،شورا پینے والے بھی جانتے ہیں کہ اگر یہ منافق سیاستدان آؤٹ ہو گئے تو پھر
ان کی باری ہے اور انہیں کھایا پیا سبھی اگلنا پڑے گا۔
قیام پاکستان سے لیکر ابتک قائم ہونے والی حکومتوں میں پاکستان پیپلز پارٹی
اور پاکستان مسلم لیگ ہی اقتدار میں رہے لیکن نام بدل بدل کر۔نسل در نسل یہ
اقتدار آج کے حکمرانوں تک پہنچا جس میں پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان
مسلم لیگ ن کا دورانیہ سب سے زیادہ ہے اگر ان کے درمیان کوئی آنے کی جرات
کر بیٹھا تو دوبارہ سیاست سے ہی آؤٹ ہو گیا۔اقتدار بھی ان لوگوں کے ہاتھ
میں تھا اور ہے لیکن ملک دشمنی اور ذاتی مفادات کے الزام بھی لگاتے رہتے
ہیں کوئی ان سے پوچھے کہ اگر ملک کے خلاف کوئی کام کر رہا ہے تو اس شخص یا
ادارہ کی بیخ کنی کس کی ذمہ داری ہے ؟قانون اور عوام کے کٹہرے میں ذاتی
سیاست کرنے والوں کو لانا کس کی ذمہ داری ہے ؟الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کی
مثال ہمارے بزرگوں سے ایسے تو نہیں چلی آرہی۔سب سے طویل دورانیہ کا اقتدار
حاصل کرنے والی موجودہ حکومت کے سب سے بڑے صوبہ کے وزیر اعلیٰ کے منہ سے یہ
الفاظ قطعی اچھے اور مناسب نہیں لگتے کہ ترقیاتی منصوبے مکمل ہوگئے تو
مخالفین کی سیاست ختم ہو جائیگی۔وزیر اعلیٰ کو یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہئے
کہ پنجاب میں صرف لاہور ہی نہیں دیگر علاقے بھی ہیں جو اس صوبہ کی آبادی
کا90 فیصد حصہ ہیں اور اس ملک کے 3بھائی(صوبے)اور بھی ہیں ذہنوں میں خلل
اور دلوں میں دراڑ تو آ ہی جاتی ہے جب سب کمائیں اور کھائے ایک۔قربانیاں
سارے دیں اور فوائد سمیٹے ایک ۔معذرت کے ساتھ وزیر اعلیٰ صاحب اس ملک کے
دیگر علاقوں پر بھی توجہ دیں ہو سکتا ہے کہ آپ کو کسی وقت ان علاقوں سے مدد
حاصل کرنا پڑ جائے اور آپ کا کوئی ہمدرد وہاں نہ ہو۔لاہور کی /10 9سیٹیں آپ
کو اقتدار میں نہیں لا سکتی اسی لئے آپ کے پاس وقت ہے کہ لاہور سے ہٹ کر
باقی علاقوں پر بھی توجہ دیں نہ صرف توجہ دیں بلکہ جن علاقوں کے فنڈز ہیں
ان میں ہی لگانے چاہئیں نہ کہ لاہور پر۔
عمران خان پر اگر آپ الزام لگائیں کہ وہ ملک میں جاری منصوبے رکوانا چاہتا
ہے تو عوام آپ کی بات پر یقین اس لئے نہیں کریگی کہ حکومت جو کام تیزی سے
مکمل کر رہی ہے وہ صرف عمران خان کے خوف سے کر رہی ہے آئندہ الیکشن میں وہ
انہیں ٹف ٹائم دیں گے ان کی وجہ سے اداروں پر بھی توجہ اور ملک میں ترقیاتی
منصوبے شروع کئے جار ہے ہیں، ایم این اے ، ایم پی ایز کی باتوں پر کان نہیں
دھرا جاتا تھا اب اس وقت تک ان کے پاس بیٹھتے ہیں جب تک وہ خود نہیں اٹھتے
۔ہر حکومتی نمائندے کو دل کھول کر فنڈز دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ اپنے علاقے
میں حکومتی پوزیشن کو بہتر کر سکے۔ لیکن اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی
گزر چکا ہے ،ملک کے دیگر حصوں کے ساتھ آپ کا سلوک ہمیشہ یاد رہے گا،کیا
کوئی حکومتی نمائندہ جواب دے سکتا ہے کہ ہسپتال اور مریض صرف لاہور ہی میں
ہوتے ہیں،کیا میٹرو ٹرین، اورنج ٹرین،ڈولفن فورس صرف لاہور کے رہائشی ہی اس
کیلئے اہل ہیں ۔کبھی آپ ڈسٹرکٹ اوکاڑہ آئیں جہاں تحصیل دیپال پور میں آپ کے
بڑے بھائی محترم وزیر اعظم نواز شریف نے انتخابی جلسے سے خطاب میں کہا تھا
کہ اگر نوازشریف جیتا تو گلی کوچوں میں وہ کام کرتا نظر آئیگا۔ ملاحظہ کریں
ضلع اوکاڑہ کے ہسپتالوں کی حالت زار، سڑکوں کے وسیع و عریض جال جو لاہور کی
سڑکوں کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں۔ہسپتالوں میں سہولیات نہ
ہونے کے برابر ہیں،سٹاف کے حوالے سے بھی لاہور سے ہٹ کر ہسپتالوں کی حالت
زار انتہائی دکرگوں ہے، تھانوں، کچہری میں آپ کے ایم این اے ایم پی اے کی
مداخلت ہے جو خود تو کام نہیں کرتے لیکن سرکاری عملہ کو یرغمال بنا رکھا ہے
کہ جس کا بھی کام نکلے نام ہمارا آنا چاہئے خدا را لاہوریوں سے ہٹ کر بھی
دوسروں کو اپنا سمجھیں،ورنہ نوجوان طبقہ آپ سے دور جارہا ہے، یہ سب عمران
خان کے گرد آپ کی غلط پالیسیوں اور مفادات کی وجہ سے جمع ہو رہے ہیں اور اس
بات کا آ پ کو بھی اندازا ہے کہ جہاں سے آپ ہزاروں میں جیتتے تھے اب وہ لیڈ
سینکڑوں میں آ چکی ہے،یا یوں کہا جائے کہ جہاں سے عمران خان کا نمائندہ تین
چار ہزار ووٹ لیتا ہے اب وہاں سے چالیس پچاس ہزار ووٹ لے رہا ہے اور وہ بھی
ضمنی الیکشن میں ۔یہ آپ کے لئے نوشتہ دیوار ہے۔آپ کے ترقیاتی کام گئے بھاڑ
میں ،اگر کاموں کے حوالے سے جیت ہوتی تو پرویزمشرف، پرویز الہٰی کبھی بھی
نہ ہارتے ،اپنوں کو نوازنے کی پالیسی آپ کو لے ڈوبے گی، ذاتی مفادات کی
سیاست بھی عوام کو آپ سے دور لے جارہی ہے۔عمران کا کام آپ آسان کر رہے ہیں
دوسرا کرپشن کے خلاف اس کی جنگ اس کیلئے عوام کے دلوں میں نرم گوشہ پیدا کر
رہی ہے۔ اس کا اپنا ایک طویل سیاسی سفر تو ہے ہی ،اس کی اپنی نیک نامی، بین
الاقوامی شہرت اپنی جگہ لیکن آپ کی غلط پالیسیاں اس کا راستہ صاف کر رہی
ہیں جس کی گزشتہ چندماہ میں ہونے والے ضمنی الیکشن کے نتائج گواہی دے رہے
ہیں اور یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ ذاتی مفادات کو اہمیت دینے والوں کو اب
عوام اہمیت نہیں دے گی۔نظریہ ایک بار پھر اپنی پوری جاہ جلال اور حقانیت کے
ساتھ آگے بڑھ رہا ہے گو اس راہ میں مشکلات ہیں لیکن اصل اور حقیقی فتح بھی
انہی میں ہے۔ |
|