معزز جج صاحب، قابل قدر اساتذہ کرام،
مہمانان کرام،حاضرین جلسہ اور میرے ہم مکتب طلبہ و طالبات۔۔۔۔
السلام وعلیکم ورحمۃ اﷲ و برکا تہٗ
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھّے
شاید کہ اُتر جائے تیرے دل میں مری بات
آج میں آپ لوگوں کے سامنے ’’علم ایک لازوال دولت ہے ‘‘ اس عنوان پر تقریر
کرنے کی جسارت کررہا ہوں ۔۔۔
معزز اور قابل قدر سامعین۔!!
علم ایک ایسا خزانہ ہے جس کی چوری کا کوئی خوف نہیں ہوتا اور استعمال سے کم
بھی نہیں ہوتا۔۔۔۔
سرور کائنات ،آقائے نامدار ،تاجدار ِ حرم،کالی کملی والے ،سنہری جالی والے،
حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا:مہد سے لہد تک کی علم کی تلاش میں لگے رہو۔
ایک اور جگہ ارشاد فرماتے ہیں جس کا خلاصہ و مفہوم یہ ہے کہ:
علم عمل کا امام ہے۔۔۔۔
حقیقتاً علم ایک ایسی قوت ہے جو دنیا کی تمام تر قوتوں سے افضل ہے ۔۔۔۔۔اور
جس کے زوال کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔۔۔۔۔۔ قدرت کے سربستہ رازوں کا
انکشاف علم ہی کی بدولت ہوا۔۔۔۔ علم کی وجہ سے دنیا کی تمام وسعتیں آج کے
انسان کے سامنے سمٹ گئیں ہیں۔۔۔۔ دوریاں قربتوں میں بدل گئی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔
انسان ہوا پر قابو پاچکا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فضا میں پرواز کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آج
کا انسان خلاء کی وسعتوں پر حاوی ہے۔۔۔۔۔۔۔ چاند پر اپنی فتح کا جھنڈا گاڑ
چکا ہے۔۔۔۔۔۔ علم ہی کی بدولت وہ مظاہرِ قدرت جنہیں وہ پوجتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اس کی خاکِ راہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ علم ہی کا کرشمہ ہے کہ جس پر عمل کرکے آج
ہم گھر بیٹھے دیگر ممالک کے حالات سنتے اور دیکھتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اور مزید
معلومات حاصل کررہے ہیں۔۔۔اور کرتے رہینگے۔۔۔۔!!!!
یہ علم کا ہی فیض ہے۔۔۔۔۔۔ہاں ۔۔۔۔۔میرے معزز سامعین۔۔۔۔ یہ علم کا ہی فیض
ہے ۔۔۔۔۔۔۔انسان کا نام مرنے کے بعد بھی روشن رہتا ہے۔۔۔۔۔۔ ہمارے اور دیگر
اقوام کے عظیم قائدین نے علم کے ذریعے ہی قوم کی سچی اور پرخلوص خدمت کی ہے
۔۔۔۔اور آج بھی ان کے نام زندہ و جاوید ہے۔۔۔۔۔۔۔ بزرگانِ دین ،اولیاء ِعظام
۔۔۔۔بھی علم کی شمع سے لوگوں کو سیدھی اور سچی راہ دکھاتے رہے۔ ۔۔۔۔۔۔علم
کی بدولت ایجادات ۔۔۔۔اور۔۔۔۔ انکشافات کا ایک لامتناہی سلسلہ وجود میں آیا
ہے۔۔۔۔ جس کا دوسرا کنارہ نظر سے دور۔۔۔بہت دور۔۔۔۔ اور بعید از قیاس ہے۔۔۔۔
سامعین۔۔۔!!زرا دھیان دیں۔۔۔!!۔۔اور غور کریں۔۔۔۔۔
سامعین کرام۔۔۔!!
دنیا کی تمام تر ترقی علم پر منحصر ہے۔ ۔۔۔۔علم ہی دراصل ایک انسان کو
انسانی صلاحیتوں سے نوازتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ جس کی بدولت انسان نیکی اور بدی میں
تمیز کرسکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ علم ہی وہ ذریعہ ہے جس کی بدولت انسان دوسرے انسانوں
پر سبقت لے جاتا ہے۔۔۔۔۔ ایک زمانہ تھا جب انسان بجلی کی گرج سے ڈرتا تھا۔۔۔۔۔
اور آج۔۔۔۔۔۔آج۔۔۔۔ وہی انسان اس پر قابو پاچکا ہے۔ ۔۔۔اسے اپنے قبضے میں
کر چکا ہے۔ ۔۔۔بجلی کو کئی اہم کاموں میں استعمال کیا جارہا ہے۔۔۔۔ علم کی
بدولت انسان نے اپنے لئے تفریح طبع کی سہولتیں بھی پیدا کرلیں ہیں۔ ۔۔۔۔۔علم
ایسا نور ہے جس سے جہالت اور گمراہی کی تاریکیاں دورہوجاتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ علم
کی بدولت انسان کی چشمِ بصیرت روشن ہوجاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی بدولت اس میں
نیکی و بدی اور حق باطل کا شعور پیدا ہوتا ہے۔۔۔۔ علم ایسا بیش بہا جوہرہے
جس سے انسان کے اطوار شائستہ اور اخلاق پاکیزہ بن جاتے ہیں۔ ۔۔۔۔وہ دل و
دماغ کو جہالت کے گہرے اندھیروں اور گہرائیوں سے نکال کر اس مقام تک پہنچا
دیتا ہے جہاں حسد و بغض،کینہ ،کپٹ، دشمنی اور لالچ کا گزر نہیں ہوتا۔ ۔۔۔۔۔بلکہ
انسان کو نیکی، خلوص، فیاضی اور دوستی جیسی عظیم صفات عطا کرتا ہے۔۔۔۔۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔۔
دنیا کی یہ تمام تر ترقی علم ہی کی بدولت ہے۔۔۔۔ علم کی بدولت ہی آج کا
انسان خلاء کو مسخر کررہا ہے۔۔۔۔ علم انسان کو جرات، ہمت، استقلال، تدبر و
بردباری اور ہر قسم کی عقدہ کشائی کی صلاحیت بخشتا ہے۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ
انسان نے دنیا کا چپہ چپہ چھان مارا، قطبِ شمالی سے لیکر قطب جنوبی تک زمین
کو رندتا چلا گیا۔۔۔۔۔علم ہی انسان کو باعزت، باوقار اور عظیم تر بناتا ہے
اسی کی بدولت انسان اپنی اور دوسروں کی خدمت کرتا ہے۔۔۔۔ اب تک جتنے بھی
بڑے آدمی گزرے ہیں وہ علم ہی کی بدولت ہی کمالِ عروج پر پہنچے، بڑے بڑے
مراتب حاصل کئے۔ غرض سقراط ہو یا بقراط، بوعلی سینا ہوں یا فردوسی آج بھی
ان کا نام عزت و احترام کے ساتھ لیا جاتا ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ حضرات علم کے
سمندر کے مانند تھے اور ایسی دولت کے مالک تھے جسے ہر کوئی حاصل کرنا چاہتا
ہے تھا لیکن محنت اور کاوش کے بغیر اس کا حصول ناممکن تھا اور آج بھی
ناممکن ہے اس لئے کہ:
علم ایک لازوال دولت ہے |