تعلیمی اداروں کا تحفظ یقینی بنایاجائے
(Attique Ur Rehman, Islamabad)
تعلیمی ادارے ملک و ملت کی تعمیر و ترقی
میں اہم کردار اداکرتے ہیں ،ان کی اہمیت و ضرورت مسلم ہے مہذب معاشرے
تعلیمی اداروں کی حفاظت اور ان کی تعمیرو ترقی اور فلاح و بہبود پر خصوصی
توجہ دیتے ہیں اس کا مقصد یہ ہوتاہے کہ تعلیمی اداروں کی انتظامیہ طلبہ کی
تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دے سکے اور اسی طرح جدید تعلیم و تحقیق کا
فریضہ احسن طریقہ سے انداز دیا جاسکے۔جبکہ پاکستان کی صورت حال مختلف نظر
آتی ہے بجائے اس کہ کے تعلیم وتعلم کے شعبہ کوبہتر بنانے کیلئے اپنا کردار
اداکریں اور اپنے مال و زمین کو وقف کریں اس کے برخلاف یہاں تعلیمی اداروں
کی اراضی کو سلب کیا جارہاہے جو کہ انتہائی افسوس کن امر ہے ۔اس سے معلوم
پڑتا ہے کہ ہمارے ملک میں سیاسی و مذہبی قائدین کس سطح پر شعبہ تعلیم کو
ترجیح دیتی ہے۔جیساکہ حسب ذیل خبر سے معلوم ہورہاہے کہ ملک کی سب سے بہترین
مادر علمی قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے 202 ایکڑ رقبے پر قبضہ مافیا
قابض،سی ڈی اے نے زمین کی قیمت لینے کے باوجود قبضہ چھڑانے میں تعاون کرنے
سے انکار کر دیا۔ چیئرمین سینٹ سید نیئر حسین بخاری بھی یونیورسٹی کی 56
کنال زمین پر قبضہ کر کے بنگلہ اور فارم ہاؤس بنا لیا۔ یونیورسٹی انتظامیہ
کا کہنا ہے کہ انتظامیہ نے اپنی زمین پر تعمیرات کرنے پر ہمارے ملازمین کے
خلاف ایف آئی آر کاٹ کر کاروائی شروع کردی۔قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد
کے تعلیمی اداروں میں سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے سی ڈی اے یونیورسٹی کی
چاردیواری کرنے میں رکاوٹ بن گئی ہے۔ان خیالات کا اظہار قائد اعظم
یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اشرف نے یونیورسٹی ترجمان ڈاکٹر
الہان نیاز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ڈاکٹر جاوید اشرف
نے بتایا کہ ایک سال کے عرصے میں یونیورسٹی کے گردونواح میں تجاوزات کی بھر
مار ہو گئی ہے۔ہمارے پاس تجاوزات کو ہٹانے کے لیے کوئی فورس موجود نہیں ہے
جبکہ مقامی انتظامیہ اس حوالے سے ہماری مدد کرنے سے انکاری ہے۔انہوں نے کہا
کہ موجودہ سیکیورٹی صورتحال مین کچھ بھی ہو سکتا ہے اس وقت اسلام آباد کے
تعلیمی اداروں میں سب سے غیر محفوظ قائد اعظم یونیورسٹی ہے ہمارے پاس
سیکیورٹی گارڈز کم ہیں پوری یونیورسٹی کے لیے صرف 130 سیکیورٹی گارڈز ہیں
پولیس اور رینجرز کی سیکیورٹی کی گاڑی مخصوص حالات میں کبھی کبھار گشت پر
آتی ہے،انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ یونیورسٹی میں دہشتگردی کا کوئی
واقعہ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی کی زمین کو قبضہ مافیا سے
واگزار کرانے کے لیے قانونی کارروائی کی تیاری کررہے ہیں ہم قانونی طریقے
سے آگے بڑھیں گے۔ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹی کی زمین پر قابضین کے ساتھ
سیٹلمنٹ کی بات آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ہمیں یونیورسٹی کی زمین پر غیر قانونی
قابض افراد کو قانونی طور پر بسانے کا کہا گیا ہے۔اس حوالے سے صدر مملکت جو
کہ یونیورسٹی کے چانسلر ہیں سے بات ہوئی ہے انہوں نے قبضہ واگزار کرانے کے
لیے مکمل حمایت کی یقین دہانی کرائی ہے ایک سوال کے جواب میں یونیورسٹی کے
ترجمان ڈاکٹر الہان نیاز نے بتایا کہ سابق چیئرمین سینٹ نیئر بخاری
یونیورسٹی کی 56 کنال زمین پر قابض ہیں یونیورسٹی کو بنے پچاس سال ہو چکے
ہیں یونیورسٹی کے لیے 1709 ایکڑ زمین الاٹ کی گئی تھی جس کی ادائیگی مکمل
طور پر کی جا چکی ہے ہم نے بارہا سی ڈی اے سے زمین کو قابضین سے خالی کرانے
کا کہا لیکن کوئی پیشرفت نہیں ہو سکی ہے 26 سال سے سی ڈی اے کو خطوط لکھ
رہے ہیں اگر ہم اپنی زمین پر تعمیرات شروع کرتے ہیں تو ہمارے ملازمین کے
خلاف مقدمات درج کر کے کاروائی شروع کر دی جاتی ہے انہوں نے کہا کہ 1709
ایکڑ میں سے 1507 ایکڑ ہمارے پاس ہے 202 ایکڑ زمین پر قبضہ ہے جس میں سے 56
کنال سابق چیئرمین سینٹ اور پیپلز پارٹی کے رہنماء نیئر حسین بخاری کے قبضے
میں ہے۔انہوں نے کہا کہ سی ڈی اے کے ماحولیات کے شعبے نے ہمیں یونیورسٹی کی
چار دیواری سے بھی روک دیا ہے پشاور سکول حملے کے بعد تمام تعلیمی اداروں
کو چار دیواری مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی تھی لیکن سی ڈی اے نے ہمیں کم سے
کم سیکیورٹی انتظامات بھی نہ کرنے دیئے،ہمارے پاس چار دیواری کی تعمیر کے
لیے فنڈز کی بھی کمی ہے۔ یونیورسٹی کے ساتھ ایک کھیل کھیلا جا رہا ہے نا
اہلی کی انتہاء ہے انہوں نے کہا کہ قبضے کا سلسلہ اسی طرح سے جاری رہا تو
پانچ سے دس سال کے اندر پوری یونیورسٹی میں کچی آبادیاں بن جائین گی ہمیں
بے انتہاء مشکلات کا سامنا ہے اور اس کی وجہ سی ڈی اے ہے۔انہوں نے کہا کہ
اگر یونیورسٹی میں خدانخواستہ بد قسمتی سے کوئی ایسا واقعہ ہوا تو ذمہ دار
سی ڈی اے ہوگا ہماری حکومت سی ڈی اے اور متعلقہ اداروں سے اپیل ہے کہ وہ
یونیورسٹی کا رقبہ واگزار کرانے میں ہماری مدد کریں۔ ایک سوال پر انہوں نے
کہا کہ یونیورسٹی سنٹریکیٹ کی منظوری کے بغیر اگر کسی نے قبضہ کرنے کی
اجازت دی تو یہ غیر قانونی ہے۔اس طرح کی صورتحال سے بین الاقوامی اسلامی
یونیورسٹی بھی برسرپیکار ہے کہ وہاں پر مسجد کی تعمیر اور طلبہ و اساتذہ کی
فلاح و بہبود کیلئے ملنے والی امداد کو نامعلوم قوتیں ہضم کرچکی ہیں ۔یہ
خبریں اور اعمال تعلیم و تربیت کے شعبہ کیلئے نقصان دہ ہیں کہ اس سے ملک کے
نوجوانوں کا مستقبل غیر محفوظ ہوجائے گا۔معاملہ اسی پر ختم نہیں ہوتا بلکہ
طلبہ و طالبات کے مستقبل کا جنازہ اس بے حمیتی سے نکالا جارہاہے کہ اصول
الدین فیکلٹی میں غیر متخصصین اساتذہ کی فوج ظفر موج تعینات کردی گئی
ہے۔شعبہ سیرت اور اسلامی تاریخ کا جنازہ نکال دیا گیا ہے کہ اس کی چئیرمین
شپ ایک غیر متخصص کے سپرد کردی گئی ہے۔دوسری جانب شعبہ عقیدہ و فلسفہ اور
شعبہ تقابل ادیان میں بھی اساتذہ کی شدید قلت ہے۔جبکہ اسلامی یونیورسٹی کے
صدر ڈاکٹر یوسف الدریویش اصول الدین فیکلٹی کے اعزازی و جبری ڈین بھی بنے
ہوئے ہیں ان کی معاونت انچارج اصول الدین ڈاکٹر ہارون الرشید کررہے ہیں جن
کو غیر آئنی و غیر قانونی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر سے فل پروفیسر بنایا گیا
ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں پر طلبہ و اساتذہ کا بدترین استحصال کیا جارہاہے۔صدر
پاکستان ،چئیرمین ایچ ای سی اور وفاقی وزارت تعلیم پر ضروری و لازمی ہے کہ
وہ قائد اعظم یونیورسٹی اور اسلامی یونیورسٹی میں جاری علمی و تحقیقی میدان
میں طلبہ کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا نوٹس لیں بصورت دیگر ملک و ملت کا
مستقبل کا کرپٹ و بددیانت اور عہدوں و منصبوں پر ایمان و یقین کی فروختنی
کرنے والے جنازہ نکال دیں گے جس کا خمیازہ صدیوں بعد بھی پورا نہ ہوسکے گا۔ |
|