نواز لیگ کا ایک اور چھکّا

اب کی بار پروگرام تو امریکی انتخابات پر کالم لکھنے کا تھا کیونکہ وہاں غیر متوقع طور پر ’’پاکستان کی ساس‘‘ ہیلری کلنٹن کو ،ڈونلڈ ٹرمپ نے چاروں شانے چِت کر دیا اور دنیا جہان کے سارے تجزیے ، تبصرے غلط ثابت ہو گئے ۔ اکہتر سالہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت نے پوری دنیا کو ہلا کے رکھ دیا ، سٹاک مارکیٹیں کریش کر گئیں لیکن پاکستان کو ’’کَکھ‘‘ فرق نہیں پڑا۔ یہی نہیں بلکہ دنیا میں پاکستان کی سٹاک مارکیٹ شائد واحد مارکیٹ تھی جس میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ وجہ اُس کی یہ کہ پاکستان پہلے ہی بڑی حد تک امریکہ سے جان چھڑا چکا ہے اور اپنے دیرینہ دوست چین سے محبت کی پینگیں بڑھا رہا ہے ۔ انڈیا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر میٹھائیاں بانٹی گئیں ۔ وجہ شائد یہ ہو کہ نریندر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ ، دونوں ہی کی فطرت ایک جیسی ہے ۔ بھارت کو ٹرمپ مبارک ہو لیکن اُسے ہنری کسنجر کا یہ جملہ ضرور پلّے باندھ لینا چاہیے ’’امریکہ کی دشمنی بُری لیکن دوستی اُس سے بھی بُری‘‘۔ پہلے ہی عرض کر چکے کہ امریکی انتخابات پر قلم اٹھانے کا ارادہ تھا لیکن ہوا یوں کہ سپریم کورٹ نے ہمارے خواجہ آصف سیالکوٹی کے حق میں فیصلہ دے دیا اورلیگیوں نے اِسے ’’ایک اور چھّکا‘‘ قرار دے دیا ،اِس لیے سوچا کہ چلو ایک دفعہ پھر پاکستانی سیاست ہی سہی۔ ٹرمپ پر پھر کبھی ،وہ کون سا کہیں بھاگا جا رہا ہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔

2013ء کے عام انتخابات سے لے کر اب تک سکون محال ہی رہا ۔ہمارے کپتان نے انتخابات کے نتائج سڑکوں پر حاصل کرنے کی کوشش کی ۔ کئی احتجاجی جلسے کیے ، 126 روزہ دھرنا دیا لیکن اِس کے باوجود بھی اُنہیں تقریباََ تمام ضمنی انتخابات میں ہزیمت ہی اٹھانی پڑی ۔ ایک معاملے میں بہر حال وہ سب سے آگے نظر آئے ، معاملہ یہ تھا کہ وہ جہاں بھی گئے مجمع ضرور اکٹھا کر لیا ۔ اِس کی واحد وجہ یہ تھی کہ اُنہوں نے سیاسی جلسوں میں ’’میوزیکل کنسرٹ کی طَرح ڈالی جو متوسط طبقے کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے کشش کا باعث تھی۔ پیسہ جہانگیر ترین کی جیب سے نکلتا رہا ، میوزیکل کنسرٹ پر لڑکے لڑکیاں رقص کرتے رہے ،کپتان صاحب خطاب کا شوق پورا کرتے رہے اور ملک تنزلی کی طرف رواں دواں رہا۔اگر خاں صاحب پچھلے ساڑھے تین سالوں کا حساب کریں تواُنہیں میدانِ سیاست میں اپنا دامن خالی ہی نظر آئے گا۔نوازلیگ تو خیبرپختونخوا کی حکومت خاں صاحب کے سپرد کرکے ایک غلطی کر چکی تھی لیکن وہ اِس سے بھی فائدہ نہ اُٹھا سکے۔ اگر کپتان صاحب انہی ساڑھے تین سالوں میں اپنی تمامتر توانائیاں خیبرپختونخوا کو جنت نظیر بنانے میں صَرف کر دیتے تو یقیناََ آج اُن کا یہ حشر نہ ہوتا کہ ’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں ‘‘۔لیکن کپتان کو تو جلدی ہی بہت تھی اور تاحال ہے، اسی لیے وہ ’’شارٹ کَٹ‘‘ استعمال کر رہے ہیں۔ کسی بیوقوف نے اُن کے کان میں ڈال دیا ہے کہ وہ تیزی سے بوڑھے ہو رہے ہیں ،اگر مزید پانچ سات سال گزر گئے تو پھر وہ اتنے بوڑھے ہو چکے ہوں گے کہ ایٹمی پاکستان کی وزارت کے قابل ہی نہیں رہیں گے ۔ اِس لیے جو کچھ بھی کرنا ہے ،ابھی کرنا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ حماقت دَر حماقت کرتے چلے جا رہے ہیں۔کوئی اُنہیں بتائے کہ اگر اکہتر سالہ ڈونلڈ ٹرمپ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کا حکمران بن سکتا ہے ، تہتر سالہ نریندر مودی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا وزیرِ اعظم بن سکتا ہے ، اَسّی سالہ بابا سعید الزماں صدیقی سندھ کا گورنر بن سکتا ہے اور ستاسی سالہ قائم علی شاہ سندھ کا وزیرِ اعلیٰ بن سکتا ہے تو کپتان 75سال کی عمر میں وزیرِ اعظم بن جائیں تو ہرج ہی کیا ہے (ہمیں یقین ہے کہ اگر کپتان صاحب کی وزارتِ عظمیٰ کی باری آئی بھی تو اِس عمر سے پہلے تو نہیں آنے والی)۔ ویسے بھی نوازلیگ 2018ء تک جو کچھ کر گزرنے کے دعوے کر رہی ہے ، اُنہیں مدّ ِ نظر رکھتے ہوئے تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ اگلے پانچ کیا ، دَس سال بھی اُن کے پَکّے۔ اگر اقتصادی راہداری بن جاتی ہے ، اقتصادی ترقی میں تیزی آ جاتی ہے ، لوڈشیڈنگ کا خاتمہ ہو جاتا ہے ، تو پھر نوازلیگ کی حکومت کو اگلے دَس سال بھی کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ عالمی بینک کی رپورٹ کے مطابق’’ پاکستان ترقی کی بلند ترین سطح پر ہے ،پچھلے 8 سال کے ریکارڈٹوٹ گئے ، ترقی کی شرح نمو چار اعشاریہ سات فیصد ہو گئی جو اگلے دو سالوں میں بڑھ کر پانچ اعشاریہ چار فیصد ہو جائے گی ،سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر ہوئی ، غربت میں کمی آ رہی ہے اور پاکستان تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے‘‘۔ اگر آئی ایم ایف کی اِس رپورٹ کو مدّ ِ نظر رکھا جائے تو پھر نوازلیگ حکومت کے خاتمے کا دور دور تک شائبہ بھی نظر نہیں آتا۔

کپتان صاحب نے 2013ء کے انتخابات کے بعد دھاندلی کا جو شور مچایا تھا ،اُسے وہ تاحال ثابت نہیں کر سکے۔ جن چار حلقوں کی وہ متواتر بات کر رہے تھے، اُن میں سے ایک حلقہ تو آزاد امیدوار نے جیتا اور وہاں نوازلیگ تیسرے نمبر پر آئی۔ اُس حلقے میں جہانگیر ترین کو شکست کا سامنا کرنا پڑا جو کپتان صاحب کے دِل کے بہت قریب ہیں ۔اِس قربت کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ خاں صاحب کی سیاسی آڑھت کا سارا پیسہ جہانگیر ترین ہی کی جیب سے نکلتا ہے ۔ دوسرا حلقہ لاہور میں سردار ایازصادق کا تھا جہاں کپتان کو شکست کا مُنہ دیکھنا پڑا۔ اِس حلقے میں سردار ایازصادق دوبارہ منتخب ہو گئے اور تحریکِ انصاف کو ایک دفعہ پھر شکست ہوئی ۔تیسرا حلقہ لاہور ہی میں خواجہ سعد رفیق والا ہے ،جہاں خواجہ صاحب دوبارہ میدان میں کودنے کے لیے بیتاب تھے لیکن پارٹی فیصلے کے آگے بے بَس ہوئے اور کورٹ سے ’’سٹے آرڈر‘‘ لے لیا ۔ چوتھا حلقہ سیالکوٹ کے خواجہ آصف کا ہے جس کے بارے میں کپتان صاحب متعدد بار یہ کہہ چکے تھے کہ نوازلیگ کی ایک اور وِکٹ گرنے والی ہے ۔ اِس حلقے میں مخالف امیدوار عثمان ڈار تھے جنہیں ہارنے کے بعدانتخابی عذرداری میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ یہ صاحب بھی کپتان صاحب کے دل کے بہت قریب ہیں کیونکہ جیبیں اِن کی بھی بھاری ہیں۔ عثمان ڈار نے کپتان کے کہنے پر خواجہ آصف کے خلاف حلقہ این اے 110 سیالکوٹ میں انتخابی دھاندلی کے الزامات لگائے ۔ الیکشن ٹربیونل نے خواجہ آصف کے حق میں فیصلہ دیاجس پر عثمان ڈار سپریم کورٹ چلے گئے ۔ 10 نومبر 2016ء کو سپریم کورٹ نے بھی خواجہ آصف پر لگائے گئے دھاندلی کے تمام الزامات مسترد کرتے ہوئے تحریکِ انصاف کی درخواست خارج کر دی ۔ اِس کامیابی کو نوازلیگ ’’ایک اور چھَکّا‘‘ قرار دے رہی ہے ۔ خواجہ آصف نے ایک انٹرویو میں کہا ’’’ہماری وِکٹیں اُڑانے والوں کی باتیں خواب وخیال ہی رہیں گی۔ الیکشن کمیشن نے بھی میرے حق میں فیصلہ دیا تھا ۔نواز شریف کا کارکُن ہوں اور اُن کی قیادت میں بیٹنگ کرتا رہوں گا‘‘۔

ہر ضمنی انتخاب اور انتخابی عذرداریوں میں شکست کے بعد کپتان کو اب تو سمجھ لینا چاہیے کہ جس راہ پہ وہ چل نکلے ہیں ، اُس کی منزل وزارتِ عظمیٰ نہیں بلکہ میدانِ سیاست سے ہمیشہ کے لیے ’’آؤٹ‘‘ ہونا ہے ۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ تحریکِ استقلال کے اصغر خاں بھی بہت مقبول ہوئے ۔ اُن کی مقبولیت کسی بھی صورت میں کپتان سے کم نہ تھی ۔پورے پاکستان میں اُنہی کا نعرہ گونجتا تھا اور وہ بھی کپتان ہی کی طرح ’’بڑھکیں‘‘ لگاتے ہوئے بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر پھانسی دینے کے دعوے کیا کرتے تھے ، البتہ اُن کی زبان کپتان کی طرح غیرپارلیمانی ہرگز نہیں تھی ۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ جس شارٹ کَٹ پہ اصغر خاں چلے ، اُسی نے اُنہیں میدانِ سیاست سے ہمیشہ کے لیے ’’آؤٹ‘‘ کر دیا۔ آج نَسلِ نَو کو اصغر خاں کا نام یاد ہے نہ تحریکِ استقلال کا۔ عمران خاں نے بھی وہی راہ اپنائی ہے ۔ اُن کی جماعت کا نام بھی تحریکِ استقلال سے ملتا جلتا ، یعنی تحریکِ انصاف ہے ، دونوں کے ناموں کے ساتھ ’’خان‘‘ کا لاحقہ بھی لگتا ہے ۔ تو کیا عمران خاں کا انجام بھی اصغر خاں جیسا ہونے والا ہے؟۔
Prof Riffat Mazhar
About the Author: Prof Riffat Mazhar Read More Articles by Prof Riffat Mazhar: 893 Articles with 642360 views Prof Riffat Mazhar( University of Education Lahore)
Writter & Columnist at
Daily Naibaat/Daily Insaf

" پروفیسر رفعت مظہر کالمسٹ “روز نامہ نئی ب
.. View More