شاہ نورانی میں دہشتگردی کی واردات میں اب
تک کی اطلاعات کے مطابق 55سے زائد افراد جاں بحق اور 100سے زائد زخمی ہیں۔
جاں بحق ہونے والوں میں بڑی تعداد میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
دہشتگردی کا یہ واقعہ ایک مرتبہ پھر بلوچستان کی سرزمین پر پیش آیا جہاں اس
سے قبل بھی گزشتہ ڈھائی ماہ میں دہشتگردی کے تین بڑے واقعات ہو چکے
ہیں۔بلاول شاہ المعروف شاہ نورانی کا مزار بلوچستان کے ضلع خضدار کی تحصیل
وڈھ میں واقع ہے۔ مزار ایک پہاڑی سلسلے کے درمیان ہے جس کی وجہ سے مزار تک
پہنچنے کا راستہ انتہائی دشوار گزار ہے یہی وجہ ہے کہ زخمیوں کو سڑک تک
لانے اور اسپتال پہنچانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اس دوران کئی
زخمی راستے ہی میں جاں بحق ہو گئے جبکہ جاں بحق ہونے والوں کی لاشوں کو بھی
منتقل کرنے میں بہت زیادہ دشواری در پیش رہی۔ ۔ واقعہ کی ذمہ داری مبینہ
طور پر داعش نے تسلیم کرلی ہے جبکہ سرکاری سطح پر اتبدائی تحقیق کے مطابق
دہشتگردی گردی کا یہ واقعہ کالعدم جماعتوں کی مشترکہ حکمت عملی کا نتیجہ
تھا۔شاہ نوارانی کا مزار دہشتگردوں کے لئے نسبتاً آسان ہدف تھا کیونکہ مزار
پر نہ تو کوئی خاص سیکیورٹی کا انتظام تھا اور نہ ہی بلوچستان کی حکومت،
انتظامیہ اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی طرف سے یہ سوچا بھی جا
سکتا تھاکہ دہشتگرد اس شاہ نوارانی کے مزار کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔گزشتہ
دنوں کوئٹہ کے قریب پولیس ٹرینگ کالج میں دہشتگردی کا جو واقعہ ہوا اس کے
بارے میں بھی یہی کہا جا رہا ہے کہ کالج کے اطراف کچی دیوار اور کہیں کہیں
سے شکستہ دیوار کی وجہ سے یہ بھی دہشتگردوں گردوں کے لئے ایک آسان ہدف تھا
اور بلوچستان حکومت نے یہ سوچا بھی نہین تھا کہ دہشتگرد اس پر حملہ کریں گے
۔لہذا اب یہ معاملہ نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر کے سیکیورٹی کے اداروں
اور حکومتوں کے لئے فکر انگیز ہونا چاہیے کہ دہشتگردوں کی ملک بھر کے
سرکاری اداروں اور اہم مقامات کے حوالے سے ریسرچ اسٹڈی بہت گہری ہے۔ ان کی
نظر میں ملک بھر کے وہ تمام اہم مقامات ہیں کہ جہاں وہ آسانی سے جب چاہیں
کارروائی کر سکتے ہیں۔ یہ طے شدہ امر ہے کہ دہشتگرد ناخوندہ اور جاہل نہیں
ہیں بلکہ پوری تیاری اور بھر پور ریسرچ کے ساتھ دہشتگردی کر رہے ہیں۔ وہ
جہاں بھی کمزور مقام دیکھتے ہیں اس کی نشاندہی کر لیتے ہیں اور پھر اپنی
ضرورت اور وقت کے مطابق کارروائی کرتے ہیں۔لہذا دہشتگردوں کے بارے میں اگر
کوئی یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ پہاڑی بکرے ہیں اور جدید اور حربی علوم سے نا
واقف ہیں تو وہ زبردست غلطی پر ہے۔دہشتگردوں کا یہ ٹولہ نہ صرف جدید حربی
علوم سے بخوبی واقف ہے بلکہ ریسرچ ورک سے بھی بہت اچھی طرح آشنا ہے۔ جہاں
ہماری سیکیورٹی ایجنسیوں ،انتظامیہ اور حکومتوں کی نظرنہیں جاتی وہاں
دہشتگرد اپنا کام دکھاتے ہیں۔ اتوار کو گوادر پورٹ سے پہلا مال بردار جہاز
روانہ ہونا تھا ۔ یہ قافلہ پاک چین راہداری سے گزر کر گوادر پہلا تھا جس
میں چین سے بھیجے گئے تقریباً 2ہزار سے زائد کنٹینر شامل تھے۔ وزیراعظم
میاں محمد نواز شریف کو اس کا افتتاح کرنا تھا۔ اتور کو یہ سارے کام اپنے
شیڈول کے مطابق ہوئے لیکن ایک رات قبل دہشتگردوں نے دنیا کو یہ پیغام دیا
کہ پاکستان اور خاص طور پر بلوچستان انتہائی غیر محفوظ مقام ہے ۔ یہ
دہشتگردوں کی بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں ریسرچ اسٹڈی کا نتیجہ تھا کہ
انھوں نے سی پیک منصوبے کی افتتاحی تقریب کی ٹائمنگ کے مطابق دہشتگردی کر
کے دنیا کو اپنی مرضی کا پیغام دیا اور ہماری سیکیورٹی ایجنسیاں اور پولیس
ایک مرتبہ پھر دہشتگردوں کی منصوبہ بندی کے سامنے بے بس نظر آئیں۔جہاں تک
بلوچستان حکومت کا تعلق ہے تو اس نے اپنے آپ کو دہشتگردی کے اس واقعہ سے
اتنا ہی دور رکھا جتنا کہ کوئٹہ اورخضدار کے درمیان دوری ہے۔ بلوچستان
حکومت نے ایک مرتبہ پھر اپنی نا اہلی اور دہشتگردی کے اس واقعہ کے بعد اپنی
لاتعلقی ثابت کی تاہم بلوچستا ن کے وزیراعلی ثناء اﷲ زہری نے سی پیک
افتتاحی منصوبے کی تقریب میں اس طرح سینہ تان کے تقریر کی کہ جیسے سارا
منصوبہ ان ہی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ انھوں نے اپنی تقریر میں شاہ نوارنی
کے دہشتگردی کے واقعہ سے تقریباً لا تعلقی برتی۔ یہ ان کا حیران کن طرز عمل
تھا۔سوال یہ ہے کیا مستقبل میں بھی دہشتگرد اسی طرح اپنی مرضی کے ٹارگٹ ہٹ
کرتے رہیں گے ؟ کیا ہمارے حکمرانوں کی سوچ جہاں پر ختم ہوتی ہے وہاں سے
دہشتگردوں کی منصوبہ بندی شروع ہوتی ہے؟ اگر یہ سچ ہے توکیا کبھی ہم ایک
محفوظ اور پر امن ملک بن سکیں گے؟ |