مصر کی جمہوری حکومت ختم:
امریکہ کی بالادستی اسرئیل کی چالوں میں اولین ترجیع پر ہو تو کیسے ہو سکتا
ہے کہ امریکہ کی مرضی کے بغیر کہیں تبدیلی آسکے ۔بس ابھی ایک طرف مصر میں
صدر محمد مرسی قدم جما ہی رہے تھے کہ وہاں پر جولائی2013ء میں ایک دفعہ پھر
فوج نے زمامِ حکومت سنبھال کر محمد مرسی بمعہ اسلامی سیاسی جماعت " اخوان
المسلمین" کے اہم رہنماء گرفتار کر کے صرف ایک سال پرانی جمہوریت کی بساط
لِپیٹ دی۔ کرنل قذافی کو پہلے ہی سازش سے ہلاک کیا جا چکاتھا اب رہ گیا تھا
شام اور تُرکی ۔افغانستان اور ایران پہلے ہی کئی دہائیوں امریکہ کی
پالیسیوں کے زیرِ عتاب تھے۔
افغانستان میں صدر حامد کرزئی کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو نئے انتخابات میں
اشرف غنی کو وہاں کا اقتدار نصیب ہوا ۔خیال تھا کہ ایک نئے دور کا آغا ز ہو
گا اور وہاں کے حالات بہتر ہو نے کے بعد پاکستان بھی سُکھ کا سانس لے گا
۔لیکن صرف چند ماہ مُثبت رویہ رہنے کے بعد پاکستان کے ساتھ تعلقات میں وہ
گرمجوشی نہ رہی جسکی توقع کی جارہی تھی۔دوسری طرف 2015ء کے وسط میں طالبان
ایک دفعہ پھر بڑے زور سے افغانی شہروں پر حملہ آور ہو ئے اور جس قندوز شہر
سے 2001ء میں آخری شکست ہو ئی تھی وہاں پر قبضہ کر کے اپنی اگلی راہ ہموار
کر نے کی کوششیں شروع کر دیں۔امریکہ کی فوج کی ایک تعداد جو ابھی تک
افغانستان میں وہاں کے سیکیورٹی معاملات کیلئے موجود تھی فی الوقت افغانی
فورسز کی ساتھ مِل کر ایک دفعہ پھر طالبان کے خلاف سرگرمِ عمل ہوگئی۔
آپریشن ضربِ عضب:
نواز شریف جنہوں نے 2013ء کے انتخابات میں کامیابی حاصل کر کے تیسری دفعہ
پاکستان کی وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھااُنکو ملکی سطح کے ساتھ خارجی
سطح پر پاکستان میں سرحدی دہشت گردی کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ لہذا اُنھوں
نے نئے اَرمی چیف جنرل راحیل شریف کے ساتھ مِل کر وزیرستان میں آپریشن ضربِ
عضب کے نام سے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے کامیابیاں حاصل کرنے شروع
کردیں۔اس وجہ سے افغانستان کے ساتھ مذاکرات کے نتائج کچھ معنی خیز نظر نہ
آئے۔
اس دوران ملاعمر کی وفات کی خبر اچانک 29ِجولائی 2015ء کی سہ پہر برطانوی
میڈیا کی وساطت سے بریکنگ نیوز کے طور پر سامنے آئی۔کہ اُنکا انتقال 2 سال
پہلے2013ء میں ہو چکا ہے۔ اُنکی چار بیویاں تھیں۔بہرحال طالبان اپنی نئی
لیڈر شپ کے ساتھ افغانستان میں ڈٹ گئے لیکن ساتھ میں بحرین سے طالبان اور
پھر افغانستان سے بھی یہ بازگشت آنی شروع ہوئی کہ طالبان افغانستان کی
حکومت سے مذاکرات کیلئے بھی قدم بڑھا سکتی ہے۔
ایران،تُرکی،عراق اور شام:
ایران میں 2013 ء کے انتخابات کے بعد بننے والی نئی حکومت کارُخ جب امریکہ
کی طرف ہوا اور چند شرائط پر ایران نے اپنے ایٹمی پلان میں رد وبدل کرنے کی
حامی بھر لی تو امریکہ اسکو اپنی کامیابی سمجھتے ہوئے تُرکی طرف بڑھا ۔جبکہ
ترکی کے سربراہ رجب طیب اردووان اپنی عوامی مقبولیت ، فلاحی کاموں اور
معاشی پالیسیوں کی کے باعث صرف تُرکی میں ہی نہیں بلکہ پورے یورپ میں قدم
جما چکے تھے۔لہذا وہاں بھی جولائی 2016ء میں فوجی بغاوت کی کوشش کی گئی
لیکن عوام نے ٹینکوں کے آگے لیٹ کر اپنے لیڈر کی اہمیت کو اُجاگر کر دیا۔
شام کا معاملہ بھی امریکہ کیلئے دردِ سر بن گیا اور وہاں پر 2016ء تک وہ
مقاصد حاصل نہ ہو پائے جسکی اُس نے منصوبہ بندی کی۔ بلکہ امریکہ کے متعلق
یہ رائے قائم ہو گئی کہ داعش (دولتِ اسلامیہ عراق و شام) کی سرپرستی میں
امریکہ نے کسی قسم کی کسر اُدھار نہیں رکھی۔لہذا جہاں عراق میں داعش اپنے
قدم جمانے کی کوشش کی وہاں شام کے بحران میں صدر بشارالاسد اور داعش کی وجہ
سے ایک بہت بڑی تعداد میں افراد ہلاک ہو گئے۔ شام میں افراد بے گھر بھی
ہوئے اور مہاجروں کی صورت میں دوسر ے ممالک میں خوار بھی ۔ دورانِ منتقلی
سمندر میں ڈوبنے کی خبریں بھی آ تیں ۔خصوصی طور پر معصوم بچوں کی وہ
تصویریں جنکو دیکھ کر آنکھیں اَشک بار ہو جاتیں۔
شام کے بحران نے ایک سوتے شیر کو بھی جاگا دیا اور وہ تھا "روس" ۔جسکی وجہ
سے امریکہ کے صدر اوباما اور روس کے صدر پیوٹن کے درمیان اختلاف کا نیا دور
شروع ہو گیا۔
معاشی سطح پر:
2014 ء کے آخر میں تیل کی قیمتیں اچانک نیچے آنا شروع ہوئیں تو دُنیا بھر
کی عوام کو فائدہ نظر آنا شروع ہو گیالیکن تیل پیدا کرنے والے ممالک کیلئے
یہ ایک نیا کڑا امتحان ثابت ہونا شروع ہو گیا۔ جس میں سعودی عرب جیسی مملکت
کو بھی اپنی معاشی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا پڑ گئی۔ حالانکہ اس دوران وہ
یمن کے حوثیلوں کے خلاف جنگ میں بھی اُلجھا ہوا ہے۔ دوسری طرف برطانیہ نے
2016ء میں یورپی یونین سے علحیدگی اختیار کر لی جسکی وجہ سے یورپ کو ایک
بڑا جھٹکا لگا۔کیونکہ برطانیہ کے اس فیصلے سے مستقبل میںیورپ اور بذاتِ خود
برطانیہ کو کیا معا شی معاملات پیش آسکتے ہیں ایک نئی بحث چھڑ گئی۔ |