مسئلہ کشمیر اور اس کا حل
(Nazim Ashraf Misbahi, Islampur)
مسلسل تین مہینوں سے کشمیر سلگ رہا ہے۔ ظلم
و تشدد کی آگ میں جل رہا ہے لیکن کسی کو ئی فکر نہیں۔تین مہینے سے زائد
کرفیو نافذ ہے، لوگ گولیوں اور پیلیٹ گنوں کے چھروں کے سائے میں خوف و ہراس
کی زندگی بسر کرہے ہیں۔سو سے زائد کشمیریوںکی موت ہوچکی ہے۔ ہزاروں لوگ
زخمی ہوچکے ہیں،عوتیں بیوہ ،بچے یتیم اور مائیں اولادسے محروم ہورہی
ہیں۔خواتین کی جبرا عصمت دری اور نوجوانوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے
لیکن مسلمان سمیت پوری مہذب دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔کشمیری میڈیا
پر پابندی اور کشمیر کے باہر کا میڈیا خاموش ہے۔یہ صورت حال یقینا انسانیت
اور آزادی کا دم بھرنے والوں کے منہ پر شدید تماچہ ہے اور ان کے جھوٹے
دعوؤں کی حقیقت اجاگر کر ہی ہے۔ ادارہ انوار ہاشمی کشمیریوں کے دکھ میں
برابر کا شریک ہے اور مسئلہ کشمیر اور اس کے حل کے تعلق سے چند باتیں قوم
کے سامنے پیش کررہا ہے۔کشمیر کے موجودہ حالات اور ان کے وجوہات کا جائزہ
لینے سے پہلے کشمیر کی تاریخ ، جغرافیہ اور تنازعہ کشمیر کی اصل وجہ جاننے
کی کوشش کرتے ہیں۔
تاریخ جغرافیہ اور پڑوسی:ریاست جموں و کشمیر بنیادی طور پر۷؍ بڑے ریجنوں
وادی کشمیر، جموں، کرگل، لداخ، بلتستان، گلگت اور پونچھ اور درجنوں چھوٹے
ریجنوں پر مشتمل ۸۴؍ ہزار ۴۷۱؍ مربع میل پر پھیلی ہوئی ہے۔ مذکورہ بالا
تمام ریجنوں کی اپنی اپنی ایک تاریخ ہے جو ہزاروں سال پر محیط ہے۔ ماہرین
ارضیات کا کہنا ہے کہ دس کروڑ سال قبل یہ خطہ سمندر میں ڈوبا ہوا تھا مگر
آہستہ آہستہ خطے کی سر زمین وجود میں آئی اور اس عمل کو بھی ۱۰؍کروڑ سال
گزر چکے ہیں۔ یہ ریاست دنیا کے تینوں پہاڑی سلسلوں:قراقرم، ہمالیہ اور
ہندوکش پر محیط ہے۔ اس کی سرحدیں مجموعی طور پر۷؍ میں سے۵؍ بڑی ایٹمی قوتوں
پاکستان، بھارت، چین، روس اور افغانستان سے ملتی ہیں۔
کشمیر کی بدقسمتی کا آغاز: کشمیریوں کو۱۶؍ مارچ۱۸۴۶ء میں معاہدہ ٔامرتسر
کے ذریعے سکھ حکمراں گلاب سنگھ نے انگریز سے ۷۵؍لاکھ نانک شاہی میں جموں و
کشمیر اور ہزارہ کا علاقہ خرید کر غلام بنایا ۔ کشمیر وہ خطہ ہے جس کی مثال
خوبصورتی، سرسبز و شادابی، قدرتی حسن، بلند و بالا پہاڑ، دنیا کے بہترین
پھلوں، میوؤں، برف پوش پہاڑی سلسلوں، حسین وادیوں، یہاں کے باسیوں کے
مثالی اخلاق اور جفاکشی، اسلام دوستی، محبت و بھائی چارہ، دنیا کے مختلف
خطوں میں کشمیری نوجوانوں کی مثالی خدمات اور اعلیٰ صلاحیتوں کے حوالے سے
دی جاتی تھی۔مگر آج جب کوئی شخص کشمیر کا ذکر کرتا ہے تو فوراً جلاؤ
،گھیراؤ، فوجی کیمپ، عورتوں کی عصمت دری، خوف، ظلم و ستم، تشدد، مایوسی،
قتل و غارت، بچوں کا تاریک مستقبل، تقسیم در تقسیم لائن آف کنٹرول (ایل او
سی) کا تصور ذہن میں آتا ہے۔ کشمیر کا مسئلہ پاکستان اور بھارت کے درمیان
سب سے پرانا حل طلب معاملہ ہے جس کے باعث دونوں ہمسایہ ملکوں کے تعلقات
مسلسل کشیدہ چلے آ رہے ہیں،یہ تنازعہ تقسیم ہندوستان سے چلا آ رہا ہے۔
کشمیر تنازعہ کی بنیادی وجہ:پاکستان اور بھارت دونوں مسئلہ کشمیر پر ایک
بنیادی نظریے پر کھرے ہونے کا دعوٰی کرتے ہیں۔ تقسیم ہند کے دوران جموں و
کشمیر برطانوی راج کے زیر تسلط ایک ریاست ہوتا تھا۔جس کی آبادی۹۵؍ فیصد
آبادی مسلم تھی۔ جب ہندوستان کو تقسیم کیا جارہا تھا تو جن علاقوں میں
مسلم اکثریت تھی وہ پاکستان کو اور جہاں ہندو اکثریت تھی وہ علاقے بھارت کو
دیئے گئے۔ کشمیر میں اکثریتی آبادی تو مسلمان تھے، لیکن یہاں کا حکمران
ایک سکھ تھا اورسکھ حکمران چاہتا تھا کہ بھارت کے ساتھ ہوجائے ۔ لیکن تحریک
پاکستان کے رہنماؤں نے اس بات کو مسترد کیا۔ آج بھی پاکستان کا ماننا ہے
کہ کشمیر میں مسلمان زیادہ ہیں اس لیے یہ پاکستان کا حصہ ہے اور بھارت کا
ماننا ہے کہ اس پر سکھ حکمران تھا جو بھارت سے الحاق چاہتا تھا اس لیے یہ
بھارت کا شہ رگ اور اٹوٹ حصہ ہے۔جس کی وجہ سے ہندوستان نے اپنے آئین کے
آرٹیکل۳۷۰؍ کے تحت کشمیر کوخصوصی حیثیت دی ہوئی ہے۔
تنازعہ کشمیر اقوام متحدہ میں :یکم جنوری۱۹۴۸ء میں بھارت کی جانب سے یہ
معاملہ اقوام ٕمتحدہ میں اٹھائے جانے کے بعد دونوں ملکوں میں فائر بندی کی
ایک عارضی لائن پر اتفاق ہوا جس میں یہ طے پایا کہ دونوں ملک اپنے فوجی
دستوں کو اس لائن سے پیچھے لے جائیں گے۔ سلامتی کونسل نے اپنی قرار داد میں
کشمیر میں رائے شماری کرانے کے لیے پاکستان سے کہاکہ وہ اپنے کنٹرول کے
کشمیر سے فوجی نکال لے، جب کہ بھارت کو امن و امان کے قیام کے لیے کم سے کم
فوجی رکھنے کی اجازت دی گئی۔ پاکستان نے اپنے فوجی انخلا کو بھارتی فوج سے
مشروط کر دیا۔
مسئلۂ کشمیر کو لے کر پاک بھارت جنگ:دونوں ملکوں کے درمیان اگست۱۹۶۵ء میں
کشمیر کے محاذ پراس وقت جنگ چھڑ گئی جب پاکستانی فوجی دستے جنگ بندی لائن
عبور کرکے بھارتی کنٹرول کے علاقے میں داخل ہوئے۔ بھارت نے کشمیر پر دباؤ
کم کرنے کے لیے لاہور کو ہدف بناتے ہوئے بین الاقوامی سرحد پر حملہ کر
دیا۔جنوری۱۹۶۶ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تاشقند میں ایک معاہدے پر دستخط
ہوئے جس کے تحت دونوں ملکوں نے زیر قبضہ متنازع علاقے سے اپنی فوجیں واپس
نکال لیں۔
مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت دوسری جنگ :سن۱۹۷۱ء میں ایک بار پھر دونوں ملکوں
میں کشمیر کے محاذ پر بھی جنگ چھڑ گئی جس کا نتیجہ اگلے سال جولائی میں
شملہ کے مقام پر ہونے والے معاہدے کی شکل میں برآمد ہوا۔ اس معاہدے میں
کشمیر کے متنازع علاقے کی جنگ بندی لائن کو لائن آف کنٹرول کا نام دیا گیا
اور دونوں ملکوں نے کشمیر کے پرانے مسئلے کو باہمی طور پر حل کرنے پر اتفاق
کیا۔لائن آف کنٹرول بننے کے بعد بھی دونوں ملکوں کے فوجیوں کے درمیان
وقتاً فوقتاً جھڑپیں جاری رہیں۔
مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت تیسری جنگ:سن۱۹۹۹ء میں یہ تنازع اس وقت ایک بار
پھر بھڑک اٹھا جب پاکستانی فوجی چپکے سے کار گل کے ان بلند مورچوں پر قابض
ہو گئے جنہیں بھارتی فوج سردیوں میں خالی کرکے نیچے اتر جاتی تھی۔ بھارت دو
مہینوں تک جاری رہنے والی شديد جھڑپوں کے بعد اپنی چوکیوں کا قبضہ واپس
لینے میں کامیاب ہوگیا۔ اس کے علاوہ آئے دن ہندوستان کے زیر کنٹرول کشمیر
اور پاکستان کی سرحد جسے لائن آف کنٹرول کہا جاتا ہے پر بھی گولہ باری کا
تبادلہ ہوتا رہا ہے۔ جس میں اکثر پاکستانی شہری آبادی نشانہ بنتی رہی
ہے۔۲۰۱۰ء میں ہندوستان کا کنٹرول کشمیر کے ۴۳؍فی صد حصے پر تھا جس میں
مقبوضہ کشمیر، جموں، لداخ اور سیاچن گلیشئر شامل ہیں جب کہ پاکستان کے
پاس۳۷؍ فیصد حصہ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کی شکل میں ہے۔
موجودہ کشیدہ حالات : اس سال۸؍جولائی کو کشمیری حریت پسند گروپ حزب
المجاہدین کےکمانڈر برہان الدین وانی کو ہندوستانی فوج نے ایک حملے کے
دوران مار دیا،جس کو لے کر پورے کشمیر میںغم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور
مظاہرے شروع ہوگئے۔حکومت کی طرف کرفیو نافذ کردی گئی جو اَب تک جاری
ہے۔کشمیری نوجوان فوج پر پتھراؤ کرتے ہیں اور فوج مجمع کو منتشر کرنے کے
لیے آنسو گیس اور پیلیٹ گن کا ستعمال کرتی ہے۔ابھی یہ کرفیو اور کشیدگی
جاری ہی تھی کہ ۱۹؍ ستمبر کو لائن آف کنٹرول کے قریب واقع ہندوستانی فوجی
مرکز اڑی پر عسکریت پسندوںنےحملہ کردیا جس نے دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی
کو اپنی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس حملے میں گولیوں کے تبادلے اور تیل کے
ایک ڈپو میں آگ بھڑک اٹھنے سے کم از کم۱۸؍ بھارتی فوجی ہلاک ہوئے اور
چاروں حملہ آور بھی مارے گئے۔ بھارتی عہدے داروں نے پاکستان پر اس حملے
میں معاونت کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ فوجیوں کے خون کو رائیگاں نہیں جانے
دیا جائے گا۔
مسئلہ کشمیر پر پاک بھارت چوتھی جنگ کا امکان:جوہری قوت رکھنے والے دونوں
ہمسایہ ملکوں کی جانب سے تندو تیز بیانات کے ماحول میں۲۹؍ ستمبر کو بھارتی
فوج کے عہدے داروں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے لائن آف کنٹرول کی پاکستانی
جانب کئی مقامات پر سرجیکل اسٹرائیکس کرکے متعدد دہشت گردوں اور ان کے
سہولت کاروں کو ہلاک کردیا۔ جب کہ پاکستان نے سرجیکل اسٹرائیکس کے بھارتی
دعوے کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ بھارتی فوجیوں نے سرحد
پار سے فائرنگ اور چھوٹے ہتھیاروں سے گولہ باری کی تھی، جس کا مؤثر جواب
دیا گیا۔دونوں ملکوں کے مابین معاملات اس قدر سنگین ہوچکے ہیں کہ اب چوتھی
جنگ ہونے کا امکان نظرآتا ہے۔ سوشل میڈیا پر خوب تبصرے اور جنگ کی باتیں
وائرل ہورہی ہیں۔
۸؍جولائی کو ہوئی حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی موت سے کشیدگی
شروع ہوئی ہے،لیکن ابھی تک حالات قابو سے باہر ہیں۔چوتھے مہینےمیں پہنچ چکے
اس کشیدگی میں ریکارڈ کے مطابق۱۰؍ اکتوبر کے دو مقتول کو لے کر ۹۷؍افراد
جاں بحق ہوچکے ہیں۔ہزاروں لوگ زخمی جب کہ پیلیٹ گنوں کی وجہ سے ہزاروں لوگ
آنکھوں کی بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔دس ہزار سے زیادہ لوگوں کی گرفتاریاں
عمل میں آچکی ہیں جب کہ مذہبی شخصیات سمیت ایک ہزار سے زائد لوگوں کو نظر
بند کردیا گیا ہے۔ طلباکی طرف آزادی کے حصول تک تعلیمی اداروں کا مکمل
بائیکاٹ،مسلمانوں کو مسجدوں میں نماز ادا کرنے پر پابندی عائد ہے
اورمعاشیات کے ماہرین کے مطابق کشمیر میں جاری اس کشیدگی کی وجہ سے اب تک
کشمیر کو ۱۲؍ہزار کروڑ کا نقصان ہوچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ بار بار سراٹھاتا کیوں ہے؟ جہادی اور حریت
پسندوں کو ٹھکانے لگانے کے نام پر اسلحہ کے ساتھ تشدد اورکرفیو کیوں نافذ
ہوتا ہے؟آئے دن مظاہرے کیوں ہوتے ہیں؟جنت نشان کشمیر کو ایک خوبصورت
قیدخانہ کیوںبنادیا گیا ہے؟جبراًگھروں کی تلاشی کے نام پر لوگوں کو ظلم و
ستم کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے۔بار بار مسجدوں پر پابندی کیوں عائد ہوتی
ہے؟پی ایس اے کے نام پر کبھی بھی کسی بھی مذہبی شخصیت کو نظر بند کیوں
کردیا جاتا ہے؟آخر کب تک کشمیری بندوق کی گولیوں کے سائے میں زندگی گذاریں
گے ؟ اس کا کوئی حل ہے یا نہیں؟ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنے سے پہلے ہمیں
کشمیر سے تعلق اندرونی و بیرونی سارے مسائل اور حالات پر نظر ڈالنا پڑے گا
اور ہر مسئلے کا تجزیہ کرنا ہوگا۔
مسئلہ کشمیر تین اہم فریقوں میں گھرا ہوا ہے۔۱۔ ہندوستان، ۲۔ پاکستان اور
۳۔ کشمیری عوام۔
جیساکہ ہم نے پہلے ہی بتایا کہ ہندوستان کشمیر کو اپنا ایک اٹوٹ انگ حصہ
مانتا ہےاور آئے دن کے کرفیواور تشدد کے تعلق سے اس کا کہنا ہے کہ وہ
پاکستان کے مکار سیکیورٹی اداروں کے بھیجے ہوئے جہادی تشدد پسندوں کے ساتھ
برسرِ پیکار ہے اور اپنے علاقے کا دفاع کر رہا ہے۔بھارتی فوج کو کشمیر میں
تعینات ہوئے اتنا طویل عرصہ ہوگیا اور اس دوران اس کو اتنے زیادہ وسائل دیے
گئے ہیں کہ اب کشمیری معاشرے پر اس کی گرفت بہت مضبوط پو گئی ہے۔بھارتی فوج
وادی میں ہونے والی ہر قسم کی گفتگو کی نگرانی کرتی ہے بلکہ اس نے کرائے کے
مخبروں کا ایک بڑا موثر جال بچھا لیا ہے اور اسے کشمیر کے کونے کونے کی خبر
ہے۔
اگر آپ کشمیر کو پاکستان کی نظروں سے دیکھیں تو بھارت کشمیریوں کی خواہشات
کوجبراً دبا رہا ہے، جس کے تحت کشمیری پاکستان سے الحاق چاہتے ہیں یا شاید
بھارت سے آزاد ہونا چاہتے ہیں۔
اس مسئلے کو کشمیریوں کی نظر سے دیکھیں تو کشمیری اس و قت چار طبقوں میں
بٹے ہوئے ہیں ۔۱۔ ایک طبقہ وہ ہے جو ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتا
ہے۔۲۔دوسرا گروہ وہ ہے جو پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتا ہے،۳۔ تیسرطبقہ
ہندوستان و پاکستان کسی کے ساتھ الحاق نہیں چاہتے بلکہ وہ صرف امن چاہتے
ہیں ۔۴۔ چوتھا طبقہ وہ ہے حریت پسند ہے یعنی مکمل طور پر بھارت اور پاکستان
سے آزادی چاہتے ہیں اور کشمیر کو ایک الگ ریاست یا ملک کے طور پر دیکھنا
چاہتے ہیں۔ کشمیر سے ظلم و ستم، تشدد اور مظاہروں کی جو خبریں آتی ہیں وہ
اسی چوتھے طبقے کی کارستانیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔
سن ۲۰۰۹ء میں ایک برطانوی ادارے ’’چیتھم ہاؤس کے ذریعے کرائے گئے ایک سروے
کے مطابق ۲۱؍فیصد کشمیری بھارت کے ساتھ اور۱۵؍ فیصد پاکستان کے ساتھ مکمل
الحاق کے حق میں تھے،۱۴؍ فیصد لائن آف کنٹرول کو جوں کا توں برقرار رکھنا
چاہتے تھے اور۴۳؍ فیصد مکمل آزادی چاہتے تھے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان اعداد و شمار سے کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں کیا
جاسکتا ،کیوں کہ بار بار کے تجربے اور سروے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ
کشمیریوں کا کوئی حتمی فیصلہ معلوم نہیں کیا جاسکتا۔ابھی کوئی حادثہ یا
واقعہ رونما ہوجائے تو بھارت مخالف نعروں میں سارے کشمیری شریک ہوجائیں گے
جس کا مطلب ہے سب کے سب بھارت سے آزادی چاہتے ہیں،لیکن جب تشدد ہو تو پھر
امن کی دہائی دینے لگتے ہیں ۔ان سے کوئی بات پوچھیں تو آپ کے سامنے جواب
کچھ اور نجی محفلوں میں بیان کچھ۔تاہم اعداد و شمار کی کمی بیشی سے اس بات
پر کوئی اثر نہیں پڑتا کہ کشمیری عوام مذکورہ چار طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
ایک تو کشمیر بذاتِ خود تاریخی المیہ ہے اس پر مزید المیہ یہ کہ کشمیر کا
مسئلہ یا تو آپ بھارت کی عینک سے دیکھ سکتے ہیں یا پھر پاکستانی عینک سے۔
خود کشمیری اس معاملے کو اپنی عینک سے دیکھنا چاہیں تو ان کی آنکھوں پر
غداری کے کھوپے چڑھا دیے جاتے ہیں یا پھر آنکھوں میں گولی ماردیئے جاتے
ہیں۔بھارت اور پاکستان کو کشمیر بھلے عزیز ہوگا مگر کشمیریوں پر دونوں کو
اعتبار نہیں۔اس کی وجہ کیا ہے ؟یہی جواب مسئلۂ کشمیر کے حل کا پیش خیمہ
ثابت ہوسکتا ہے۔ہم نے پہلے ہی بتایا کہ آئے دن کشمیر سے ظلم و ستم،کرفیوں،
تشدد اور مظاہروں کی جو خبریں آتی ہیں وہ چوتھے طبقے یعنی حریت پسند گروپ
کی کارستانیوں کا نتیجہ ہوتی ہیں۔جس میں پاکستان بھی برابر کاشریک ہے۔یعنی
کشمیریوں پر ہونے والے ظلم و ستم کے ذمہ خود کشمیری اور پاکستانی دونوں ہی
ہیں۔ہندوستان کا تو ذکر ہی الگ ہے،جب آزاد ہندوستان میں حکومت مسلمانوں کے
ساتھ تعصب اورسوتیلا رویہ رکھ سکتی ہے تو کشمیر کے ساتھ کیا کچھ کرسکتا ہے
اس کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
فوج اور کشمیریوں کی رسّہ کشی:دراصل ہوتا یہ ہے کہ کشمیر میں حریت پسند
گروہ آزادی چاہتا ہے،ہندوستان سے مکمل طور پر آزادی ۔یہی وجہ ہے کہ کشمیر
میں ہندوستان مخالف نعرے لگتے ہیں، حکومت مخالف مظاہرے ہوتے ہیں،فوج پر
پتھراؤ کیا جاتا ہے۔اس گروہ کی کئی عسکری تنظیمیں بھی بنیں۔لبریشن فرنٹ
اور حزب المجاہدین وغیرہ گروہ نے ہندوستانی فوج کے خلاف ہتھیار اٹھایا ۔فوج
نے بغاوت کا الزام لگایااور ان باغیوں کو ٹھکانے لگادیا۔صرف یہی نہیں بلکہ
باغیوں کو ٹھکانے لگانے کے نام پر گھر گھر کی تلاشی اور تلاشی کے دوران ظلم
و ستم کے سلسلے۔ان مظالم کے نتیجے میں کشمیری نوجوان سرحد پار چلے جاتے اور
وہاں لوگوں کو بھارتی فوج کے مظالم کی داستان سناکر عسکری طاقت جمع کرکے
پھر ہندوستانی فوج پر حملہ۔اس کے ساتھ ساتھ سرحد پار سے کشمیریوں کی مدد کے
لیے جہادی بھی آتے اور ہندوستانی فوج پھر ان لوگوں کو تلاش کرکے ٹھانے
لگاتی،ساتھ ہی کشمیریوں پر ظلم و ستم کی نئی تاریخ رقم کرتی۔اس طرح پاکستان
سے آئے ہوئے جہادی نہ صرف اپنی جان گنواتے بلکہ کشمیریوں کے لیے مزید
دشواریاں پیدا کردیتے۔بار بار جہادی اور حریت پسندوں کے حملے کے نتیجے میں
ہندوستانی فوج کے لیے ’’افسپا‘‘ قانون بنایا گیا،جس کے تحت اب کوئی بھی
فوجی ماورائے عدالت کسی بھی کشمیری کو قتل کردے تواس پر کوئی مواخذہ
نہیں۔اس قانوں کے بعدحالات یہ بن گئے کہ فوج کو جھوٹی خبر ملتی کہ فلاں جگہ
چند جہادی موجود ہیں،فوج وہاں جاکر بغیر کسی تفتیش کے فورا سب گو گولیوں سے
بھون دیتی ہے۔ حالاں کہ وہ عام امن پسند نہتے شہری ہوتے ہیں اور افسپا جیسے
کالے قانون کی وجہ سے کوئی اس سنگین غلطی کا مواخذہ کرنے والا نہیںہوتا۔اس
کے علاوہ پی ایس اے(PSA) یعنی پبلک سیفٹی قانون اور دیگر انسانی حقوق کی
خلاف ورزیاں ہندوستانی حکومت کشمیر میں انجام دیتی ہے جن کی وجہ سے کشمیری
نوجوان مزید بھڑک اٹھتے ہیں اور جنونی بننے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ماورائے
عدالت قتل، خواتین کی اجتماعی آبروریزی اور بے گناہ کشمیریوں کا قتل۔
پُرامن لوگوں کو گولیوں کا نشانہ بنایا جانا، سیاسی رہنماؤں کی گرفتاریاں
و نظربندیاں، پبلک سیفٹی ایکٹ اور دیگر کالے قوانین اب کشمیر کا مستقل حصہ
ہیں۔
کشمیری نوجوان ہتھیار کیوں اٹھارتےہیں؟:آپ سوچتے ہوں گے کہ کشمیری نوجوان
جنونی کیوں بن جاتا ہے؟ یا وہ ہتھیار کیوں اٹھالیتا ہے؟تو ذرا تصور کیجیے
کہ اگر آپ کے سامنے آپ کی بہن کے ساتھ دس دس فوجی اجتماعی آبرو ریزی کرے
تو اس وقت آپ کی حالت کیا ہوگی؟ یا تو آپ خودکشی کرلیں گے یا ہتھیار
اٹھائیں گے۔آپ کا بھائی بازار سے لوٹ رہا ہو اور اچانک خبر ملے کہ ایک
ہندوستان فوجی نے محض شک یاتفریح کی بنیاد پر آپ کے بے گناہ بھائی کو
گولیوں سے بھون دیاہے تو آپ پر کیا گذرےگا؟ذرا تصور کیجیے کہ رات کے دو
بجے آپ کے گھر پر اچانک چھاپہ پڑتا ہے، آپ کےبڑے بھائی اور باپ کو گولی
مار دی جاتی ہے اور آپ کی بہن کو اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں تو آپ
کیا کریںگے؟ جی ہاں یہ صورت حال ہے کشمیر میں جن کی وجہ سے نوجوان طبقہ
ہندوستان سے مکمل آزادی چاہتا ہے اور ہر کشمیری کی دلی خواہش یہی ہے کہ
کسی نہ کسی طرح سے اسے بھارت سے آزادی مل جائے۔یہی وجہ ہے کہ برہان وانی
جو کشمیریوں کے لیے آزادی کی جنگ لڑ رہا تھا،اس کی موت پر ہر کشمیری سڑک
پر اتر آیا اور آج چوتھے مہینے میں کرفیو کے باوجود مظاہرے جاری ہیں۔
برہان وانی کون؟:ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ کے مطابق اسکول پرنسپل کے
بیٹے اور اسکول میں نمایاں نمبرز حاصل کرنے والے کشمیری طالب علم برہان
الدین مظفر وانی نے صرف۱۵؍ سال کی عمر میں ہندوستانی فورسز کے خلاف ہتھیار
اٹھائے تھے۔میڈیا کے مطابق برہان وانی نے اپنے بڑے بھائی خالد وانی پر
ہندوستانی فوجیوں کے تشدد کے بعد ہتھیار اٹھائے۔خالد وانی کو سال ۲۰۱۰ءمیں
مبینہ طور پر عسکریت پسندوں کی بھرتیاں کرنے کے الزام میں ہندوستانی فورسز
نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔برہان وانی کے والد مظفر وانی نے گذشتہ سال
ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'وہ صرف اس لیے
عسکریت پسند نہیں بنا تھا کہ اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس نے اس
لیے ہتھیار اٹھائے کہ اس نے ہندوستانی فوج کو دیگر لوگوں کو تشدد کا نشانہ
بناتے ہوئے دیکھاہے۔
کشمیر کا مستقبل کیا ہے؟:ان حالات کو دیکھتے ہوئے کشمیر کی دو نسلیںگذرچکی
ہیں،تیسری نسل جھیل رہی ہے اور شاید چوتھی نسل کا مستقبل بھی بہت زیادہ
روشن نہیں ہے۔گزشتہ دو دہائیوں سے نوے ہزار سے زائد بے گناہ کشمیریوں کو
قتل کردیا گیاہے۔پانچ لاکھ سے زائد معذور ہوئے جب کہ۳۰؍ لاکھ سے زائد افراد
مختلف ادوار میں ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے اور آج یہ تعداد ۵۰؍لاکھ سے زائد
ہو چکی ہے۔ صرف مسئلہ کشمیر کو لے کر ہندوستان و پاکستان اور کشمیر کی
کروڑوں جانیں جاچکی ہیں۔یہاں پھر وہی سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر کشمیر کا
مستقبل کیا ہے اور اس مسئلے کا حل کیا ہے؟
سیانے کہاکرتے تھے کہ جب کسی جنگ میں مسلسل ہار ہاتھ آتا ہو تو جنگ کا
میدان تبدیل کردینا چاہیے یا طریقۂ جنگ میں تبدیلی لانی چاہیے اور تاریخ
گواہ ہے کہ اس تکنیکی کہاوت پر جب جب عمل ہوا ہے جیت اور فتح مقدر بنی
ہے۔کشمیریوں کو پہلے یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ تقریبا ستر سال سے جاری ان کی
آزادی کی لڑائی کا موجودہ طریقہ کار ناکام ہوچکا ہے۔آئے دن مظاہروں،
عسکریت پسندی اور نعرے بازی سے مقصد کبھی پورا نہیں ہوسکتا بلکہ اس سے الٹا
کشمیر کے لیے دی گئی ۹۵؍ہزار سے زائد قربانیاں رائیگاں جائیں گی اور کشمیر
کا مستقبل مزید تاریک ہوتا جائے گا۔
ساتھ ہی کشمیری اس بات کو جتنی جلدی تسلیم کرلیں گے ان کے حق میں اتنا ہی
بہتر ہوگا کہ ہندوستان و پاکستان دونوں حکومتیں اس مسئلے کو حل نہیں کرنا
چاہتیں۔کیوں کہ مسئلہ کشمیر اب دونوں ملکوں کے بہت سے مفادات کے ساتھ سیاست
کا بھی حصہ بن چکا ہے۔ہم اس طویل تاریخ کو یہاں چھیڑنا مناسب نہیں سمجھتے
کہ کب کس وزیر اعظم نے اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی اور کیا نتیجہ
برآمد ہوا۔مسئلہ کشمیر کے لیے اب کشمیری بھائیوں کو ہی کچھ کرنا ہوگا۔ہندو
پاک کے مسلمان سے بھی کچھ توقع فضول ہے۔کیوں کہ ایک تو اب مسلمانوں میں وہ
جذبہ اخوت نہیں رہا، اب یہی دیکھ لیجئے ہمارے کشمیری بھائی تین مہینے سے
تشدد اور ظلم کی آگ میں جل رہے ہیں اور دونوں ملکوں کے عوام کو کوئی فکر
ہی نہیں۔دوسرے اس لیے کہ پاک و ہند کے مسلمان خود اپنے ہی مسائل کے حل کے
لیے پریشان ہیں وہ دوسروں کی طرف کیا دیکھیں گے۔لہٰذا کشمیری یہ توقع چھوڑ
دیں کہ دونوں ملک مل کر کشمیر کو الجزائر،اریٹیریا، مشرقی تیمور اور
سوئٹزرلینڈ کی طرح ایک آزاد ملک بنا دیں گے۔کیوں کہ کشمیر کا مسئلہ مذکورہ
ممالک سے بالکل الگ ہے۔الجزائر پرصرف فرانس قابض تھا،اریٹیریا پرصرف
ایتھوپیا کا قبضہ تھا ،مشرقی تیمورصرف انڈونیشیا کے قبضے میں تھا اور
سوئٹزرلینڈپر صرف امریکہ کا قبضہ تھا،جب کہ کشمیر پر دو ملکوں کا دعویٰ ہے
اوردونوں کو یہ خطرہ ہے کہ اگر میں چھوڑ دوں تو دوسرا قبضہ کرلے گا۔نیز یہ
کہ ترقی یافتہ ممالک کے لیے ایسا سمجھ میں آتا ہے لیکن ترقی پذیر ممالک
ایسا اقدام کبھی نہیں کریں گے۔تو کیا اب کشمیریوں کو کبھی آزادی نصیب نہیں
ہوگی؟ یااسے مکمل جمہوریت کا حق نہیں مل سکتا ؟تو اس کا جواب ہے کہ بالکل
ہوسکتا ہے اور ہمیں یقین ہے کہ کشمیری ایسا کردکھائیں ،لیکن طریقہ جنگ کو
تبدیل کرکے۔
انہیں آزادی کی اس جنگ کو دومرحلوں میں لڑنی ہوگی۔پہلے مرحلے میں انہیں
جمہورت کی کوشش کرنی ہوگی اور دوسرے مرحلے میں انہیں آزادی یا خود مختار
ریاست کی۔ویسے اگر جمہورت حاصل ہوجائے تو آزادی کا نعرہ فضول اور بے معنی
ہے،کیوں کہ بغیر جمہورت آزادی محض ایک سراب اور سہانا خواب ہے۔جمہوریت کے
حصول کے لیے بھی انہیں دو مراحل سے گذرنا ہوگا۔
پہلے مرحلے میں انہیں یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ وہ جمہورت کے لائق ہیں،بلفظ
دیگر وہ امن پسند شہری بن سکتے ہیں۔یعنی انہیں یہ تلخ حقیقت حلق سے نیچے
اتارنی ہوگی کہ وہ ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی ہوتے ہوئے ہندوستان مخالف
کوئی بھی حرکت بغاوت قرار پائے گی۔ جنگ جذبات سے نہیں ہوش سے لڑی جاتی
ہے۔آزادی کے لیے لڑنے والے قائدین کا جوشیلا اقدام یا جذباتی فیصلہ ایسا
ہی ہے جیسے محفل سماع میں قوال کو حال آجائے۔
دوسرے مرحلے میں کرنا یہ ہے کہ کشمیر کے لوگ جن مظالم کو جھیل رہے ہیں وہ
جن تکالیف اور درد و اَلم کا سامنا کر رہے ہیں ان کا احساس دنیا کو بھی دلا
دیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے لیے انہیں علم کے میدان میں آگے آنا پڑے
گا۔بالخصوص صحافت اور وکالت کی تعلیم ہر دوسرے یا تیسرے کشمیری کے لیے لازم
قرار دی جائے۔تاکہ کسی ظلم کے رونما ہونے کے وقت اس کی مکمل تفصیلات دنیا
کے سامنے پیش کرسکیں اور جو درد وہ محسوس کرتے ہیں دنیا کو بھی اس کا احساس
دلا دیں۔ پھر وہ اپنی بات رکھیں کہ جب بھارت ہمارے ساتھ ایسا سلوک کرتا ہے
تو عالمی طاقتیں ہمیں ہمارا حق دلائیں۔جو کام ایک مکمل کمیٹی یا گروپ انجام
دیتی ہے وہ کام خود کشمیری نوجوانوں کو کرنا ہوگا۔مثال کے طور پر کوئی بڑا
واقعہ ہونے کے بعد حکومت سی بی آئی انویسٹی گیشن کے لیے یہ معاملہ سی بی
آئی کے حوالے کرتی ہے اور وہ ایک فائل تیار کرتی ہے جس میں مکمل ثبوتوں کے
ساتھ کیس کی ساری تفصیلات ہوتی ہیں۔اسی طرح کشمیری بھائی پر حادثے کی ایک
ایک فائل تیار کرتے جائیں ۔ایک ویب سائٹ بناکر انہیں اس میں اپلوڈ کرتے
جائیں۔تو وہ دن دور نہیں جب عالمی طاقتیں کشمیر پر توجہ کرنے پر مجبور
ہوجائیں گی۔ میری باتیں اگرچہ بہت صبر آزما ہیں لیکن فی الوقت اس کے علاوہ
کوئی چارہ بھی نہیں ہے۔
مسئلہ کشمیر اور واقعہ کربلا:یہ مہینہ محرم الحرام کا ہے۔اس میں امام حسین
کی شہادت ہوئی تھی۔کشمیریوں کو واقعہ کربلا سے سبق لینا چاہیے۔امام حسین کی
شہادت کا مقصد پورا کیسے اور کیوں ہوا؟ جب آپ مکمل طور پر مایوس ہوگئے،
کوئی راستہ ہی نہ رہا، نہ یزید کے ہاتھ پر بیعت کرسکتے ہیں، نہ یزید کو
طاقت کے بل بوتے روک سکتے ہیں۔ تو کیا کریں؟ اگر آپ چاہتے تو ایک لشکر کے
ذریعے یزید پر چڑھائی کرسکتے تھے لیکن ایسا اس لیے نہیں کیا کہ کہیں لوگ یہ
نہ کہیں کہ حکومت کی لالچ تھی اس لیے ایسا کیا۔ تو کریں کیا؟ لوگوں کو کیسے
احساس ہو کہ ظالم اور فاسق کی حکومت اسلامی حکومت نہیں ہے۔ جب کوئی چارہ نہ
رہا تو اپنی اور گھر والوں کی قربانی پیش کردی تب جاکر لوگوں کو احساس ہوا
کہ امام حسین کن حالات سے دوچار تھے کہ اتنا بڑا حادثہ پیش آیا۔پوری
اسلامی دنیا ہوش میں آگئی، قاتلانِ امام کو چن چن کر مارا گیا۔کیا کشمیری
صبر و ضبط،علم و ہنر اور ہوش و تدبر کے ساتھ ایسا ہی خاموش پیغام دے سکتے
ہیں؟بلکہ دینا ہی پڑے گا،کیوں کہ بہر حال اپنا حق لینا ہے۔جیتے جی اگر ہم
اپنے مستقبل کے بھائیوں کے لیے کچھ کرسکے تو یہ ہمارے لیے نصیب کی بات
ہوگی۔
اس کے کے مندرجہ طریقوں پر بھی عمل کیا جاسکتا ہے۔
۱۔ کشمیر میں وسیع پیمانے پر دہشت گرد مخالف تحریک چلائیں۔
۲۔ عوام کو پر امن رہنے ،انتہا پسندی کو روکنے میں ریاستی حکومت کا ساتھ
دیں۔
۳۔موقع بموقع امن و شانتی بنائے رکھنے کے لیے پروگرامز منعقد کریں۔ اس میں
فوج کے اعلی عہدیداران کو بھی شرکت کی دعوت دیں۔
۴۔حقیقی اور عملی تصوف کو فروغ دینے کی کوشش کریں،تصوف کےنام پر پروگرامز
اور سیمینار منعقد کریں اور اس سب کی خوب تشہیر کریں۔اس سے ایک فائدہ تو یہ
ہوگا کہ لوگوں کو دین اسلام پر صحیح طریقے پر عمل کرنے کا موقع ملے
گا۔کشمیر میں بہت سے صوفیا و اولیا نے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی ان کی یاد
تازہ ہوگی اور سب سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ عالمی سطح پر کشمیر کے امن پسند
ہونے کا پیغام جائے گا۔
۵۔ میڈیا سینٹرز قائم کریں اور کثیر تعداد میں میڈیا اور صحافت کی تعلیم
حاصل کریں،کوئی بھی ظالمانہ حادثہ رونما ہوتو تو مکمل تفتیش اور ژثبوت کے
ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔
۶۔ فلاحی ادارے، مذہبی تنظیمیں خطے میں تعلیم عام رنے کی کوشش کرے بالخصوص
صحافت اور وکالت کے لیے طلبا کو مفت تعلیم کا انتظام کریں۔اگر اچھےاور
باصلاحیت وکلا پیدا ہوں گے تو ظاہر ہے وہ کشمیریوں کی بہتر اور مخلصانہ
وکالت کریں اور انصاف کے لیے جدو جہد کریں گے۔
اگر ایسا ہوگیا یقین جانیں وہ دن دور نہیں جب کشمیری عالمی طاقتوں سے اپنی
ہر بات منوائیں گے،بلکہ عالمی طاقتیں ان کے مسائل کی طرف توجہ کرنے پر
مجبور ہوں گی۔ |
|