بھارت نے '' کولڈ وا ر سٹارٹ'' شروع کر دیا ہے؟
(Athar Massood Wani, Rawalpindi)
پاکستان اور بھارت کی جنگی طاقت ،ہتھیاروں کی نوعیت،فوج کی تعداد وغیرہ کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بھارت بڑی فوجی طاقت ہونے کے باوجود اتنی بھی بڑی طاقت نہیں ہے کہ جس کا تواتر سے پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔اقتصادی راہداری اور گوادر پورٹ کی بدولت کسی بھی بیرونی حملے کی صورت چین اپنے اہم اقتصادی راستے کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گا۔پرویز مشرف نے ایک انٹریو میں کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں کو دہشت گرد تسلیم کرنے سے انکا ر کیا۔انہوں نے اسی متعلق سوالات پر ایک خاص بات کہی کہ '' دنیا میں جنگل کا قانون ہے،یہاں خود کو بچانے کے لئے اپنے بازو بنا کر رکھنے پڑتے ہیں''۔یہ حقیقت بھی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ ملکی سلامتی اور ملکی دفاع کے حوالے سے ملک میں الجھائو اور غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پالیسیوں میں ہم آہنگی،اعتماد اور اشتراک عمل کی کمی نمایاں طور پر درپیش ہے۔بھارت کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ جنگ پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو سیاسی بنیادوں پر مضبوط اور مستحکم کیا جائے۔سیاسی انتشار کی صورت ملک درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت سے محروم ہی رہتا ہے۔ |
|
بھارتی فوج نے آزاد کشمیر کے بالائی وادی
نیلم وے لیکر بھمبر کے میدانوں تک فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ شروع کر
رکھا ہے۔ تین روز قبل بھمبر سیکٹر میں بھارتی فوج کی گولہ باری سے پاکستانی
فوج کے سات جوان ہلاک ہو ئے۔بھارتی فوج کی طرف سے اپنے مورچوں میں بیٹھ
کرسیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول)کے پار سے کی جانے والی شدید فائرنگ اور
گولہ باری سے آزاد کشمیر کے متعدد شہری بھی ہلاک و زخمی ہوئے ہیں۔وزیردفاع
خواجہ آصف نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ بھارت نے بھاری ہتھیاروں کا استعمال
شروع کر دیا۔بھارت نے پاکستان کے ساتھ ملنے والی بین الاقوامی سرحد پہ فوجی
اجمتاع کر تے ہوئے جنگ کی تیاری میں مصروف ہے ۔تاہم فائرنگ اور گولہ باری
صرف آزاد کشمیر اور جموں کی ورکنگ بائونڈری کے علاقوں میں کی جا رہی ہے۔
یہ بات اب ایک کھلی حقیقت ہے کہ بھارت افغانستان کے ذریعے پورے پاکستان
دہشت گرد کاروائیاں کرانے کے لئے پاکستان کے ہی بعض عسکری گروپوں کو
استعمال کر رہا ہے۔چین اور پاکستان کے اقتصادی راہداری منصوبے کے خلاف
کاروائیوں پر بھی بھارت خصوصی توجہ دے رہا ہے۔دوسری طرف پاکستان دہشت گرد ی
کے خلاف اہم کامیابیوں کے باوجود دہشت گردی کی تباہ کاریوں پر مکمل طور پر
قابو نہیں پا سکا ہے۔عشروں پہلے بھارت نے پاکستان کے خلاف جنگ کے لئے ''
کولڈ وار سٹارٹ'' کے نظرئیے پر کام شروع کیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں
کئی تبدیلیاں بھی کی گئیں۔موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے سے یہ حقیقت سامنے
آتی ہے کہ بھارت اپنی پلاننگ کے مطابق پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز کر چکا
ہے۔پاکستانی فوج کو اپنے ہی ملک کر اندر مصروف کرنے کے اقدامات کئے گئے ہیں
اور دوسری طرف سرحدوں سے پاکستان پر دبائو میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کو اپنی اس پالیسی پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے بھارت سے
جنگ نہیں کرنی ہے۔اس حکمت عملی سے بھارت کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے۔ اگر
پاکستان اور بھارت کی جنگی طاقت ،ہتھیاروں کی نوعیت،فوج کی تعداد وغیرہ کا
جائزہ لینے سے یہ حقیقت بھی سامنے آتی ہے کہ بھارت بڑی فوجی طاقت ہونے کے
باوجود اتنی بھی بڑی طاقت نہیں ہے کہ جس کا تواتر سے پروپیگنڈہ کیا جاتا
ہے۔جنگی صورتحال میںبھارت کو چین کی سرحد وں پر بھی فوج رکھنے کی ضرورت ہے
جبکہ پاکستان کے لئے اس طرح کی صورتحال نہیں ہے۔بھارت کی فوجی طاقت ابھی
بھی اس قابل نہیں ہے کہ بیک وقت پاکستان اور چین کے خلاف جنگی محاذ آرائی
کا متحمل ہو سکے۔انہی حقائق کے پیش نظر بھارت نے بھر پور فوجی دبائو کے
استعمال کے ساتھ پاکستان کو غیر روائیتی جنگ میں الجھایا ہوا ہے۔چین کے
ساتھ پاکستان کے تعلقات اتنے گہرے ہو چکے ہیں کہ اب لا محالہ پاکستان کا
دفاع بھی چین کے ذمہ داری میں شامل ہوتا جا رہا ہے۔خاص طور پر اقتصادی
راہداری اور گوادر پورٹ کی بدولت کسی بھی بیرونی حملے کی صورت چین اپنے اہم
اقتصادی راستے کا دفاع کرنے پر مجبور ہو گا۔
گزشتہ دنوں سابق آرمی چیف اور پاکستان کے حکمران جنرل (ر) پرویز مشرف نے
ایک انٹریو میں کشمیر میں جہاد کرنے والی تنظیموں کو دہشت گرد تسلیم کرنے
سے انکا ر کیا۔انہوں نے اسی متعلق سوالات پر ایک خاص بات کہی کہ '' دنیا
میں جنگل کا قانون ہے،یہاں خود کو بچانے کے لئے اپنے بازو بنا کر رکھنے
پڑتے ہیں''۔تاہم یہ جنرل پرویز مشرف ہی تھے جنہوں نے بھارت کی طر ف سے
سرحدوں پر فوج کے اجتماع پر آزاد کشمیر میں کشمیری حریت پسندوں کے کیمپ بند
کئے تھے اور بھارت کو لائین آف کنٹرول پرخار دار تاروں کی رکاوٹی باڑ نصب
کرنے کی اجازت دی تھی ،جس سے کشمیر کو ظالمانہ طور پر تقسیم کرنے والی سیز
فائر لائین کو مضبوط بنایا گیا۔
یہ حقیقت بھی اب کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ ملکی سلامتی اور ملکی دفاع کے
حوالے سے ملک میں الجھائو اور غیر یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے۔اس سے یہ
بھی معلوم ہوتا ہے کہ ہماری پالیسیوں میں ہم آہنگی،اعتماد اور اشتراک عمل
کی کمی نمایاں طور پر درپیش ہے۔بھارت کی طرف سے پاکستان پر مسلط کردہ جنگ
پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ ملک کو سیاسی بنیادوں پر مضبوط اور مستحکم
کیا جائے۔سیاسی انتشار کی صورت ملک درپیش خطرات کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت
سے محروم ہی رہتا ہے۔ |
|