ڈونالڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کا خفیہ راز

ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونالڈ ٹرمپ (Donald trump) مؤرخہ 14 جون 1946 ء کو امریکہ کے مشہور شہر نیویارک کے علاقے ’’کوئینز‘‘ میں پیدا ہوئے ۔1958 ء میں جب ان کی عمر 13 سال کی ہوئی تو انہیں ’’ نیو یارک ملٹری اکیڈمی‘‘ بھیجا گیا ، جہاں وہ نصابی اور غیر نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ سیاسیات طلبہ کا بھی حصہ بنے رہے ۔ ڈونالڈ ٹرمپ نے 1968 ء میں ’’ یونی ورسٹی آف پینسلوانیا‘‘ سے(Economics) اکنامکس ( معاشیات) میں گریجویشن کیا ۔ ڈونالڈ ٹرمپ ’’جمائکا اسٹیٹس ‘‘ کے امیر ترین مضافات میں پلے بڑھے ۔ 1970 ء کی دھائی میں ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے والد ٹائیکون فریڈ ٹرمپ سے بزنس چلانے کے لئے قرضہ لیا اور اس قرضہ سے اپنا ذاتی کاروبار شروع کیا ، خاندانی کمپنی کا کنٹرول حاصل کیا ، اس کا سابقہ نام بدل کر نیا نام ’’ دی ٹرمپ آرگنائزیشن ‘‘ رکھا اور اس طرح وہ اس کمپنی کے صدر اور چیئرمین بن گئے ۔

ڈونالڈ ٹرمپ نے 3 شادیاں کیں ، سب سے پہلے انہوں نے ’’اوانا‘‘ نامی ایک لڑکی سے شادی کی جس سے ان کے تین بچے پیدا ہوئے لیکن اسے طلاق دے دی ۔ دوسری شادی انہوں نے ’’مارلا میپلز‘‘ نامی لڑکی سے کی اور اسے بھی طلاق دے دی ۔ اور پھر تیسری موجودہ شادی ’’سلووینا‘‘سے تعلق رکھنے والی ماڈل ’’ملانیا‘‘ نامی لڑکی سے 2005 ء میں کی اور اس کی ریئلٹی ٹی وی شو ، دی اپرنٹس ٗ نے ڈونالڈ ٹرمپ کو ایک ادا کار کا درجہ دے دیا ہے ۔

اس سے پہلے1987 ء میں پہلی بار ڈونالڈ ٹرمپ نے صدارتی انتخاب لڑنے میں دلچسپی ظاہر کی ۔اور2000 ء میں انہوں نے ریفارم پارٹی کا صدارتی امیدوار بننے کی کوشش کی جس میں وہ ناکام رہے ، لیکن پھر جون 2015 ء میں ری پبلکن پارٹی کے ٹکٹ پر صدارتی انتخابات لڑنے کا اعلان کیا اور حریفوں کو مات دیتے ہوئے پارٹی کی نامزدگی حاصل کرلی ، یہاں تک کہ 2016 ء میں وہ امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے ۔

حالیہ امریکی صدارتی انتخابات 2016 ء میں ڈونالڈ ٹرمپ کے بارے میں عام تاثر یہ دیا جارہا تھا کہ وہ صدارت کے لئے موزوں امید وار نہیں ہیں ، بلکہ وہ ایک سرمایہ دار شخص ہیں اور ان کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ چنانچہ گزشتہ کئی ماہ تک رائے شماری کے جائزوں میں ہیلری کلنٹن کو ڈونالڈ ٹرمپ پر واضح برتری حاصل رہی ہے ، لیکن عین الیکشن کے دن حالات نے یک دم پلٹا کھایا اور ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونالڈ ٹرمپ ایک تاریخی انتخابی مہم کے بعد ہونے والے صدارتی انتخاب میں اپنی مخالف امید وار ہیلری کلنٹن کو شکست دے کر امریکہ کے 45 ویں صدر منتخب ہوگئے ۔

امریکہ میں اس وقت گوری نسل کا تناسب کل آبادی کا 70 فی صد ، کالی رنگت والوں کا 25 فی صد اور مسلمانوں کا 5 فی صد ہے ۔لیکن یہ ایک عجیب بات ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ جو سیاست کی ابجد تک سے اچھی طرح واقف نہیں بلکہ وہ ایک بہت بڑے سرمایہ کار ہیں ان کی حمایت میں ووٹ کاسٹ کرنے وا لوں کی اکثریت یعنی 45 فی صد گوری نسل کے حامل ان لوگوں کی تھی جو کم پڑھے لکھے ، متوسط اور نچلے طبقوں سے تعلق رکھنے والے تھے ،جب کہ ہیلری کلنٹن جو ایک سابق صدر کی اہلیہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک تجربہ کار سیاست دان بھی ہیں ان کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والے 25 فیصد گوری نسل کے حامل ان لوگوں کی تھی جو اعلیٰ تعلیم یافتہ، معتدل خیالات و نظریات کے حامل اور تقریباً نصف کے قریب خواتین کی تھی،لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں قطعاً حیران ہونے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اس لئے کہ ایسا کرنا موجودہ دور کے حالات کے پیش نظر امریکہ کے لئے ایک لابدی اور ناگزیرامر تھاجسے ایک سوچے سمجھے منصوبے اور ایک خاص مشنری کے جذبے تحت عمل میں لایا گیا ، چنانچہ اسے آپ کالی رنگت والے باراک اوبامہ کے آٹھ سالہ عہد صدارت کا ردّ عمل بھی قرار دے سکتے ہیں اور امریکہ کی آباد ی کا نئے آباد کاروں نے جو تھوڑا بہت نقشہ تبدیل کردیا ہے اس پر تحفظات سے بھی تعبیر کرسکتے ہیں ۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف امریکیوں کے دل و دماغ میں پائے جانے والے عناد اور تعصب پر بھی محمول کرسکتے ہیں اور مختلف عوامل کی بناء پر دنیا بھر میں امریکی بالادستی اور بے پناہ اثر و رسوخ میں کسی حد تک کمی کو بھی اس کا سبب قرار دے سکتے ہیں ۔

لہٰذا موجودہ دور کے عالمی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ کے لئے یہ ایک انتہائی ضروری امر تھا کہ وہ دنیا بھر میں اپنی بالادستی اور اپنا غلبہ حاصل کرنے کے لئے امریکی صدارت کی باگ ڈور ڈونالڈ ٹرمپ جیسے اسلاموفوبیا، جذباتی ، جوشیلے اور ایک ایسے بڑے سرمایہ دار شخص کے ہاتھ میں دیدے جو دنیا بھر میں امریکی بالادستی اور اس کے بے پناہ اثر و رسوخ کی کمی کی تلافی کردے اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے قول و فعل اور عمل غرض ہر طرح سے اپنازہر اگلنا شروع کردے۔

چنانچہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ایسا ہی کیا کہ سب سے پہلے انہوں نے اسلام کا نام بدنام کیا اور اس کے بعد انہوں نے مسلمانوں کو حقارت کا نشانہ بنایا۔ یہاں تک کہ امریکی صدارتی انتخابی رات سے بہت عرصہ پہلے ابتدائی اعداد و شمار سے یوں محسوس ہورہا تھا جیساکہ ڈونالڈ ٹرمپ کی اسلام دشمن پالیسیوں کے باعث انہیں کافی حد تک فائدہ حاصل ہورہا ہو۔ بلکہ ہوا بھی یہی کہ امریکی گوری نسل کے حامل اسلام دمشن ووٹر لوگوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان کی طرف کھنچے چلی آرہی تھی ۔چنانچہ دسمبر 2015 ء میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 25 فی صد امریکیوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر پابندی کی حمایت کی تھی ۔ جب کہ مارچ 2016 ء میں میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق 51 فی صد امریکیوں نے ڈونالڈ ٹرمپ کی طرف سے مسلمانوں پر پابندی کی حمایت کی ۔چنانچہ ڈونالڈ ٹرمپ نے ان مختلف جائزوں کے اعداد و شمار کو حقیقت کی نگاہ سے دیکھا ۔ یہاں تک کہ ان کی طرف سے انتخابی مہم جوں جوں آگے کی طرف بڑھتی گئی ووں ووں ان کی اسلام دشمنی حکمت عملی بھی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی ۔

در حقیقت ڈونالڈ ٹرمپ کا گوری نسل کے امریکیوں کے دل جیتنے کا بنیادی راز یہ تھا کہ انہوں نے اپنے ہرقسم کے سیاسی و غیر سیاسی مؤقفات کو ترک کرکے ہاتھ دھوکر انتہائی محتاط انداز میں خراماں خراماں مذہب اسلام اور مسلمانوں کی دشمنی کو اس طرح امریکی گوروں کے دل و دماغ میں بٹھایا کہ وہ ڈونالڈ ٹرمپ کے ہی ہوکر رہ گئے ۔ انہوں نے اسلام دشمن امریکی ووٹروں کی دلی خواہشات کی ترجمانی کی اور ’’اسلام پر امن مذہب ہے‘‘ کے بجائے ’’اسلام ایک دہشت گرد مذہب ہے ‘‘ جیسے اسلام دشمن نعرے لگاکر تعصب و عناد سے بھرے گوری نسل کے امریکیوں کے دل جیت لئے اور اپنے صدارتی اقتدار کے راستے سے ہر قسم کے خس و خاشاک اور روڑوں کو ہٹاکر وائٹ ہاؤس کے منصب صدارت کی چیئر پر بر اجمان ہوگئے۔
Mufti Muhammad Waqas Rafi
About the Author: Mufti Muhammad Waqas Rafi Read More Articles by Mufti Muhammad Waqas Rafi: 188 Articles with 279001 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.