ٹرمپ کارڈ چل گیا

8نومبرتک ہر طرف ہیلری کی فتح اور ٹرمپ کی ناکامی کے چرچے تھے اور تمام تجزیئے ،اسی کے گرد گھوم رہے تھے۔امریکی میڈیا کی اکثریت بھی یہی کہہ رہی تھی مگر 9نومبر کا سورج حیران کن نتائج لیے طلوع ہوا ،ساری کایا ہی پلٹ گئی سب کْچھ اْلٹ گیا ، ہیلری ہار گئی۔اور ڈونلڈ ٹرمپ امریکا کے 45ویں صدر منتخب ہوگئے اور اب ہر طرف ایک ہی حیران کن سوال گردش کر رہا ہے کہ آخر ٹرمپ کیسے ہیلری کی شکست کا باعث بنا اور دوسرا یہ سوال کہ ٹرمپ کیسا صدر ہو گا ۔ٹرمپ کی کامیابی کسی کے وہم و گمان میں نہیں تھی کیونکہ امریکی میڈیا چیخ چیخ کر جائیدادوں کے شعبے کے ارب پتی کاروباری شخصیت ڈونلڈ ٹرمپ کو بد تمیز ،ظالم،کھلم کھلا گفتگو کرنے والا،بد تہذیب اور دغا باز اور مسلمانوں اور تارکین وطن کا دشمن یعنی صدر کے لیے نا اہل جبکہ اس کے برعکس ہیلری کو نہایت نفیس،شائستہ لب ولہجہ اور اہل صدر قرار دے رہے تھے ،مگر سب غلط ثابت ہوا۔20 جنوری 2017 کوٹرمپ امریکا کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھائیں گے اور وہ امریکی فوج کے پہلے ایسے کمانڈر انچیف بنیں گے جو کبھی کسی سرکاری عہدے پر فائز نہیں رہے ،جن کی عمر 70 سال ہے، جب وہ اپنے چار سالہ عہدے کی معیاد کے لیے وائٹ ہاؤس میں داخل ہوں گے وہ امریکی تاریخ کے سب سے عمررسیدہ صدر ہوں گے۔ہیلری کی ہار کو امریکی اسٹیبلشمنٹ کی ہار کہا جائے یا امریکی عوام کی فتح ۔ دونوں ہی باتیں ٹھیک ہیں ٹرمپ بے وقوف نظر آ رہا تھا مگر تھا نہیں۔ٹرمپ کی کامیابی کسی معجزے سے کم نہیں ہے اور اس کامیابی کا سہرا بھی ٹرمپ کے سر جاتا ہے کیونکہ ٹرمپ نے ایسی حکمت عملی اختیار کی جو ہیلری کی شکست اور ٹرمپ کی جیت کی وجہ بنی۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مْہم کے ابتدائی مرحلوں میں سفید فام اکثریت کے جذبات کو زْبان دی ، سب کے خلاف بات کی۔ سفید فاموں کی واضح حمایت ملنے کے بعد ٹرمپ نے مسلمانوں ، تارکین وطن اور خواتین کے بارے میں معذرت خواہانہ رویہ اپنا لیاجبکہ ہیلری نے اپنی مْہم کے دوران ٹرمپ کی پالیسوں سے زیادہ اْن کی شخصی خامیوں پر توجہ مرکوز رکھی۔ دونوں کو ملنے والے ووٹوں کا تجزیہ کیا جائے تو ٹرمپ کے ووٹروں میں زیادہ تر کم پڑھے لکھے اور دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جن کے مسائل کو ڈیموکریٹ کے آٹھ سالہ دور حکومت میں ایڈریس نہیں کیا گیا تھا اور یہی بات ٹرمپ کی فتح اور ہیلری کی شکست کا سبب بنی ۔ اسی لیے تو کہتے ہیں زبان خلق کو نقارہ خْدا سمجھو۔

ٹرمپ واقعی ایک سیاست دان ثابت ہوئے بے شک انہوں نے پہلے کبھی بھی سیاست میں قدم نہیں رکھا تھا،پہلے تو انہوں نے انتشار انگیز بیانات دئیے تھے مگر جیسے ہی وہ صدربنے ،ان کے مزاج نے بھی پلٹا کھایا اوروہ اپنے پہلے ہی خطاب میں امن پسند اور محبت پھیلانے والے پیغامات دینے لگے حتی کہ تمام ممالک کو ساتھ لے کر چلنے اور قوانین کی پاسداری کا پیغام دینے لگے اور ان کی ایک ویڈیو سامنے آئی ہے جس میں وہ پاکستان سے محبت کا اظہار کرتے نظر آئے۔اس ویڈیو میں ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہیں پاکستان سے محبت ہے یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی یہ ویڈیو کب ریکارڈ ہوئی، تاہم اس ویڈیو کو ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔یاد رہے کہ ٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران اکثر و بیشتر پاکستان پر تنقید کرتے نظر آتے تھے۔چونکہ وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز بیانات دینے کی وجہ سے بھی مشہور ہیں، انہوں نے دھمکی دی تھی کہ اگر وہ امریکا کے صدر بن گئے تو وہ مسلمانوں کے امریکا آنے پر پابندی لگادیں گے، اس کے علاوہ وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کھڑی کرنے کی بھی تجویز دے چکے ہیں۔اس کے بر عکس ہیلری سیاست دان ہوتے ہوئے سیاسی پیچیدگیوں کو نہیں سمجھ پائی ،دوران انتخابی مہم وہ ٹرمپ کے خلاف کام کرتی رہی مگر اس کی حکمت عملی کو سمجھ نہیں پائی اور ہیلری نے بھی کبھی سوچا ہی نہیں تھا،جو امریکہ کی پہلی خاتون صدر بننے کا خواب دیکھ رہی تھیں کہ ٹرمپ ان کو ہرا دیں گے ،ٹرمپ بلاشبہ ان کے مد مقابل سب سے کمزور حریف سمجھے جا رہے تھے اور یہی خوش فہمی ہیلری کو لے بیٹھی۔ٹرمپ کی جیت کو ایک لحاظ سے اینٹی میڈیا جیت بھی کہا جا سکتا ہے کیونکہ امریکہ کے تمام بڑے میڈیا گروپس ہیلری کے ساتھ تھے اور ایسا بہت ہی کم ہوتا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ ایسا پہلی بار ہوا کہ میڈیا جس کے ساتھ تھا وہ ہار گیا ۔مگر ایسا ہوا اور ثابت ہوا کہ امریکہ سمیت تمام دنیا کے تجزئیے اور بیانات غلط ہو گئے ۔ ہیلری نے انتخابی نتائج واضح ہونے کے بعد بدھ کو صبح سویرے ٹرمپ کو فون کر کے کامیابی پر مبارک باد د ی جبکہ خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ ہی ہمارے صدر ہیں اور ان کا احترام کرنا چاہیے۔ہیلری نے وعدہ کیا کہ وہ انتخابی مہم کے دوران پیدا ہونے والی تلخی کو دفن کردیں گی اور منقسم ملک کو متحد کرنے کے لیے کام کریں گی۔ہیلری کلنٹن نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ ’ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر بننے والے ہیں لہٰذا ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کھلے ذہن سے ان کا استقبال کریں اور ملک کی قیادت کا موقع دیں‘۔ خطاب کے دوران ہیلری کلنٹن اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور آبدیدہ ہوگئیں اور انتخاب میں ناکامی پر حامیوں سے معافی بھی مانگی۔
امریکی انتخابات کے نتائج نے جہاں امریکیوں کو پریشان کیا وہیں دنیا بھر میں لوگ ان نتایج سے حیران ہیں،گوگل نے 9 نومبر کو اپنے سرچ ٹرینڈ کا ڈیٹا جاری کیا ہے جس میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ دنیا بھر کے لوگ یہ جاننے یا سمجھنے کی کوشش کرتے رہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ حیران کن طور پر کیسے کامیاب ہوئے اور امریکا کا پیچیدہ ووٹنگ نظام کیا ہے۔جیسا آپ توقع کرسکتے ہیں کہ لوگوں نے یہ بھی جاننا چاہا کہ اب ہیلری کلنٹن کیا کریں گی اور ڈونلڈ ٹرمپ کیسے جیت گئے ؟ وغیرہ وغیرہ۔مگر جو سوال لوگوں کو بہت زیادہ ستاتا رہا وہ یہ تھا کہ آخر پولنگ اتنی غلط سمت میں کیوں چلی گئی۔جبکہ برطانیہ میں تو لوگ ڈونلڈ ٹرمپ اور برایگزٹ کے درمیان تعلق بھی ڈھونڈتے رہے۔

امریکہ کی تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھنے کو ملا کہ ایک صدر کے منتخب ہونے کے بعد امریکی عوام سڑکوں پرنکل آئی بلکہ مشتعل افراد نے امریکی پرچم بھی نظر ِ آتش کر دیا۔جبکہ امریکی شہری ’ڈونلڈ ٹرمپ ہمارے صدر نہیں‘ کا نعرہ بھی لگا تے رہے اور متعدد افراد نے امریکہ کو خیر باد کہنے کا فیصلہ تک کر ڈالاہے ان کے نزدیک وہ اب ڈونلڈ کے امریکہ میں نہیں رہ سکتے۔ امریکی حکام کے مطابق زیادہ تر مظاہرے پر امن ہی تھے ، شکاگو میں ٹرمپ ٹاور کے باہرایک ہزار کے قریب افراد اکٹھے ہوئے اورٹرمپ کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے رہے ۔مظاہرین نے ڈونلڈ ٹرمپ کو نسل پرست قرار دیا۔امریکی خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق شکاگو کے ایک رہائشی نے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملک کو تقسیم کردیں گے اور نفرت کو ہوا دیں گے اور ہماری آئینی ذمہ داری ہے کہ اسے قبول نہ کیا جائے ا مریکا میں رہائش پذیر مسلم خواتین نے اعتراف کیا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد وہ اس ملک میں حجاب پہننے کے خیال سے بہت زیادہ خوفزدہ ہیں۔امریکی مسلم خواتین نے اپنے خوف کا اظہار ٹوئٹر کے ذریعے کیا۔ایک خاتون کے بقول ’میری والدہ نے مجھے ٹیکسٹ بھیج کر کہا کہ پلیز اب حجاب نہ پہننا حالانکہ وہ ہمارے خاندان کی سب سے زیادہ مذہبی خاتون ہیں‘۔واضح رہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابی مہم کے دوران اپنے خطابات میں مسلمانوں، ہسپانیوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے متنازع بیانات دئیے تھے جبکہ دیگر ممالک کے حوالے سے بھی ڈونلڈ ٹرمپ نے سخت بیانات جاری کیے تھے۔یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام نے ڈونلڈ ٹرمپ کو اپنا صدر تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے جبکہ امریکا کے کئی قریبی اتحادی ممالک نے بھی ٹرمپ کی فتح پر خدشات کا اظہارکر رہے ہیں۔اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے سے خود امریکی عوام کیوں سراپا احتجاج ہیں ،جبکہ نیویارک میں ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خاندان اور قریبی مشیروں اور ساتھیوں کے درمیان کھڑے ہو کربڑے پرجوش انداز میں کہا کہ میں اس سرزمین کے ہر شہری سے یہ وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمام امریکیوں کا صدر بنوں گا۔پھرکیا وجہ ہے کہ امریکی عوام ٹرمپ کو خطر ناک سمجھ رہے ہیں۔اس کی سب سے بڑی وجہ خود ٹرمپ ہے ۔ ٹرمپ کی شخصیت کے منفی پہلویہ ہیں۔ٹرمپ ایک انتہائی خود پسند شخص ہیں اور صرف اپنی مرضی اور خواہشوں کے پابند ہیں۔کسی بھی طاقت کو خود سے بڑا تسلیم نہیں کرتے اور خود کو کسی بھی اخلاقی معیار کے آگے قابلِ احتساب نہیں سمجھتے، چاہے پھر ان کے عمل کا تعلق روزمرہ کی زندگی سے ہو یا پھر ملک کے لیے ان کا اپنا ایجنڈا ہی کیوں نہ ہو۔اسلحے اور نسل پرستی جیسے مسائل پر ٹرمپ نے انتہاپسند دائیں بازو کو اپنے ساتھ صرف تب ملانا شروع کیا جب انہوں نے اس کی طاقت کو محسوس کیا، جبکہ ان کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ٹرمپ کے لفظوں کی سہل روانی اس بات کی عکاس ہے کہ امریکا کی سیاسی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت رکھنے والے ان مسائل پر اس طرح کے سخت گیر اور باعثِ تقسیم مؤقف اپنانے پر انہیں بالکل بھی افسوس نہیں۔یہ کوئی بے باکی نہیں بلکہ ڈھیٹ موقع پرستی ہے۔لہذا امریکی عوام کا ایک ایسے شخص کو صدرتسلیم کرنا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ یہ تو واضح ہے کہ ایک بناوٹی خیالات رکھنے والاشخص کسی بھی لمحے اپنا ذہن تبدیل کر سکتا ہے اور ہوا کا رخ دیکھتے ہوئے اپنے سابقہ خیالات کے بالکل برعکس باتیں بولنا شروع کردے گا۔یہ تو سب جان چکے ہیں کہ ٹرمپ طاقت کے حصول کے لیے پارٹی کو گہرائی سے تباہ کر چکے ہیں۔ جب ریپبلیکن پارٹی کے سربراہوں نے ٹرمپ کی حمایت نہیں کی تو ٹرمپ نے ان کے ساتھ گستاخانہ لہجہ استعمال کیا۔ ٹرمپ نے ان کا اعتماد حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کی۔ انہوں نے تو بس مطالبہ رکھا اور جب انہوں نے فیصلے سے ڈگمگانا شروع کیا تب ٹرمپ نے برے انداز میں انہیں سزا دے ڈالی۔ وہ پارٹی سے بالاتر حیثیت میں کھڑے ہیں اور ایسا برتاؤ نہیں کریں گے کہ جیسے انہیں کچھ پارٹی کی مرہون منت حاصل ہوا ہے۔ٹرمپ کی شخصیت کاایک منفی پہلو یہ بھی ہے کہ وہ تنقید کرنے والے پر برس پڑتے ہیں، وہ بڑے ہی محتاط انداز میں دیکھتے رہتے ہیں کہ لوگ ان کے بارے میں کیا کہہ رہے ہیں اور بڑی چستی کے ساتھ دیگر لوگوں کی آنکھوں میں ساس کا اعتراف تلاش کرتے ہیں۔ جب وہ اس اعتراف یا تصدیق کو حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو پھر تنقید کا جواب تنقید میں ہی دے ڈالتے ہیں۔علاوہ ازیں ٹرمپ دوسروں سے رائے نہیں لیتے اور زیادہ تر اپنی ذات تک ہی محدود رہتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ کسی مخصوص مسئلے پر لوگ کیا سوچتے ہیں اور پھر جو لوگ ان سے اختلاف رائے رکھتے ہیں وہ انہیں برا بھلا کہتے ہیں۔ جب وہ اپنی سوچ تبدیل کرتے ہیں تو ان کے ارد گرد لوگوں سے بھی ویسی ہی سوچ رکھنے کی توقع کی جاتی ہے۔ کسی بھی فیصلہ سازی میں آس پاس کے لوگوں کا کوئی حصہ شمار نہیں ہوتا، جبکہ ان کے اپنے فیصلے مفاد پرستانہ، لالچ اور خواہش کی تکمیل کے گرد گھومتے ہیں۔مختصراً کہیں تو ٹرمپ کی صدارت ہر حوالے سے زیادہ خطرناک ہونے کی ایک بڑی توقع ہے۔ یعنی ایک ایسا شخص کیسے عالمی مسائل کو حل کر نے میں کامیاب ہو سکتا ہے جو صرف اپنی ذات تک ہی محدود فیصلہ سازی پر یقین رکھنے والا ہو۔لہذا ٹرمپ امریکہ سمیت دنیا بھر کے لیے پچھلے تمام صدور سے کئی گنا زیادہ مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔
Ishrat Javed
About the Author: Ishrat Javed Read More Articles by Ishrat Javed: 70 Articles with 92541 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.