لفظ تبدیلی پی ٹی آئی کے لئے ایک چیلینج
اور اس کے مخالفین نے تحریک انصاف کی ایک چھیڑ بنا لیا ہے۔عمران نے کیا کر
لیا عمران کیا کرتا ہے؟تبدیلی کا لفظ اوبامہ نے اپنی انتحابی مہم میں
استعمال کیا۔بہت سوں کو علم ہی نہیں کہ پی ٹی آئی نے بڑے محتاط انداز میں
اس صوبے کی قیادت کی ساڑھے تین سال پہلے سنبھالی جب اس صوبے کو پی ٹی آئی
کے حوالے کیا گیا تو مسلم لیگ کی سوچ تھی کہ پی ٹی آئی خود ہی معافی مانگ
کر اس بھاری پتھر کو چھوڑ دے گی۔حقائق یہ تھے کہ جس وقت حکومت تحریک انصاف
کو ملی اور جن ہاتھوں سے ملی وہ خود اس صوبے میں داخل نہیں ہو سکتے
تھے۔اسفند یار ولی تو رہتے ہی ایوان صدر میں تھے ۔اﷲ کی شان وہ پی ٹی آئی
کی حکومت میں جلوس نکالتے ہیں جلسے کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن اور اے این
پی کی دوستیاں بہت پرانی ہیں کانگریسی ملاؤں اور وطن پرست خدائی خدمت گاروں
کا یارانہ زمانہ قبل از کا ہے۔جماعت اسلامی کے بھی مخصوص حلقے تھے مسلم لیگ
نون ہزارہ کی وارث تھی ایک نوزائیدہ پارٹی نے ان کے زور کو توڑا اور اپنی
راہ نکالی۔ہزارہ میں نون لیگ کی چھٹی صوابی مردان سوات سے اے این پی کو
رخصت اور دیر وغیرہ میں جماعت سے پنجہ آزمائی کی ۔پرویز خٹک خود نئے نئے اس
پارٹی میں آئے لوگوں کو اس مشترکہ حکومت سے کوئی خاص توقعات بھی نہیں
تھیں۔لیکن سچے جذبوں کے ساتھ اس مشکل صوبے کو پی ٹی آئی نے بدل کے رکھ دیا
ہے۔اگر اس کے صوبائی اراکین نے ترقی کی گردن سے ٹانگ نہیں اٹھائی تو کوئی
وجہ نہیں بلدیات سال ڈیڑھ میں انقلاب لا کے دکھا دیں گیں۔بھائیا شفیع میرے
دور پار کے رشتہ دار ہیں بلکہ اب تو قریب ہو رہے ہیں ان کی رہائش موضع
بھرڑے جو اب مسلم آباد کے نام سے جانا جاتا ہے وہاں ہے۔ٹیکسلا سے کے پی کے
میں داخل ہوں تو ترناوہ سے ایک راستہ کوہالہ بالا کی جانب جاتا ہے اسی
راستے پر دھنیاں ایک سٹاپ ہے یہاں سے اوپر پہاڑ کی چوٹی کی جانب چند کلو
میٹر پر یہ خوبصورت گاؤں ہے۔پچھلے اتوار کو وہاں جانے کا موقع ملا۔کے پی کے
ضلع ہری پور کے لوگوں سے اکثر ملاقات رہتی ہے میرا اپنا گاؤں نلہ بھی اسی
علاقے میں ہے۔شادی کے موقع پر لوگوں سے گپ شپ ہوتی ہے۔عزیزم نوید چودھری جو
پی ٹی وی میں ملازم ہیں وہ مجھے وہاں ایک تاجر کے پاس لے گئے میں نے چائے
کی پیالی پر ان سے گفتگو کی۔پوچھا کیا تبدیلی آئی ہے کہنے لگے نہیں جی کوئی
تبدیلی نہیں؟میں جھینپ سا گیا میرا اگلا سوال تھا کیا تھانہ کلچر تبدیل ہوا
ہے؟ کہنے لگے جی ہاں بہت حد تک رویے بدل گئے ہیں رشوت نہیں مانگتے۔ان کا
بیٹا عدنان بھی تھا۔میرا دل چاہا کہ اب راستہ کھلا ہے لگتا ہے لفظ تبدیلی
سے لوگوں کو چڑ ہے۔عدنان نے مجھے بتایا کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمارے
اسکول کے کمرے نئے بنائے گئے ہیں لیبارٹری کا اضافہ ہوا ہے ٹیچر موجود ہیں
اب ہمارے بچے سائینس پڑھنے شہر نہیں جاتے۔محکمہ صحت کے بارے میں بھی ان کے
بڑے مثبت خیالات تھے۔مہربان صاحب نے البتہ جس بات کی طرف اشارہ کیا وہ روڈ
کی حالت زار تھی۔جس کے لئے میری گزارش ہوگی پی ٹی آئی کے جناب یوسف ایوب
خان سے کہ وہ اس طرف بھی توجہ دیں۔لوگوں کا خیال ہے کہ پی کے ۴۹ کا کوئی
وارث نہیں ہے۔البتہ ہری پور کے دیگر حلقے پی ٹی آئی کی حکومت سے فیض یاب ہو
رہے ہیں۔لوگ اس بات پر تو خوش ہیں کہ ان کا پالا پنجاب جیسی ظالم پولیس سے
نہیں ہے بچوں کی تعلیم اچھی ہو رہی ہے صحت کے مسائل کم ہو رہے ہیں۔لیکن ایک
بات بہت ہی اہم ہے کہ کہ سڑکیں بھی اس علاقے کی بنیادی ضرورت ہیں۔ترناوہ سے
کوہالہ ہلی روڈ آثار قدیمہ کا نقشہ پیش کر رہا ہے۔راجہ عامر زمان نے ایک
سال پہلے ۲۲ ملین روپے کی منظوری کی نوید سنائی تھی اس بار جب جناب خٹک ہری
پور آئے تو انہوں نے اس سڑک کے لئے اعلان بھی کیا اب دیکھتے ہیں کب ٹینڈر
ہوتے اور کب کام شروع ہوتا ہے۔پی ٹی آئی قومی اور صوبائی کے دونوں حلقے ہار
گئی ہے قومی کی جیتی ہوئی سیٹ جب تک نون لیگ کی جھولی میں نہیں گئی اس وقت
تک الیکشن ہوتے رہے۔پاکستان تحریک انصاف کے پی کے میں کہاں کھڑی ہے؟اس سوال
کا جواب لوگوں کی اپنی اپنی سوچ کے مطابق ہے۔جنہیں تھوڑا بہت بھی شعور ہے
وہ تھانے کچہری تعلیم کے شعبوں میں وہونے والی مثبت تبدیلی سے متآثر ہیں
البتہ اکثریت آمد ورفت کے مسائل کی وجہ سے پی ٹی آئی کو کوس رہی ہے۔یقینا
اسکول ہسپتال پولیس جنگلات محکمہ مال(جس میں تبدیلی کی شہادتیں کم ہیں) میں
آپ دودھ کی نہریں بہا لیں ان تک رسائی کے لئے سڑک بہت ضروری ہے۔عمران خان
جب درخت لگانے میرے قریبی گاؤں درکوٹ گئے تو پیر سوہاوہ سے کوہالہ سڑک کی
حالت ناگفتہ بہ تھی۔یہ سڑک فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی اور
عمران خان نے کسی حد تک مکمل کرائی ۔اس ایک سڑک بننے کی وجہ سے روزگار کے
مواقع پیدا ہوئے جائدادوں کی قیمتیں بڑھ گئیں لوگ خوش حال ہونا شروع ہو گئے
ہیں۔لہذہ یہ منطق مناسب نہیں کہ سڑکیں اہمیت نہیں رکھتیں۔جاپان نے ۱۹۵۰ میں
پاکستان میں ایک سٹڈی کی اور اس میں کہا گیا کہ راستے اگر بنا دئیے جائیں
تو پاکستان بہت جلد ترقی کر سکتا ہے۔لوگوں نے میٹرو کو خوش آمدید کہا ان کے
نزدیک یہ چیز معنی ہی نہیں رکھتی کہ کون کتنا کھا گیا؟کے پی حکومت کے نزدیک
میگا پراجیکٹس تعلیم صحت ہے لیکن جو لوگ پہاڑی علاقے کے دشوار گزار علاقوں
میں رہتے ہیں کوئی بیمار ہو جائے تو چارپائیوں پر اٹھا کر ہسپتالوں میں
پہنچایا جاتا ہے۔جبری بنگلہ سے نجف پور روڈ جو بنائے گا ووٹوں کی بوریاں
سمیٹ لے جائے گا۔یوسف ایوب صوبائی سیاست کرتے ہیں صوبے کی سیٹ ان کے لئے
بہت اہم ہے شائد اسی لئے پی کے ۵۰ ان کی محبوبہ ہے لیکن پی کے ۴۹ کو یتیم
حلقہ بنا کے چھوڑنا خود ان کے لئے نقصان دہ ہو گا۔ یوسف ایوب نے ان چند
سالوں میں اپنے آپ کو منوایا ہے انہیں پورے ہری پور کا قائد منوانے کے لئے
پی کے ۴۹ کی اشک شوئی کرنا ہو گی۔ دیکھیں اب ۲۰۱۸ کو بھی ڈیڑھ سال کا عرصہ
باقی ہے پی ٹی آئی کیا کرتی ہے؟پی کے انچاس کیا موروثی سیاست رشتے داری کی
نظر ہوتا ہے یا اس علاقے کی حقیقی سوچ کو لے کر سامنے آئے گا۔بہت کچھ ہری
پور کے ترینوں کے پاس ہے۔مارچ آباد کسی کونے میں لگتا نظر آتا ہے یہ وقت
بتائے گا۔ |