بچپن میں سنا کرتے تھے کہ چوروں کو بھی مور
پڑ جاتے ہیں ۔اس کا عملی مظاہرہ پیلز پارٹی کے سینئر رہنما جہانگیر بدر کی
وفات کے موقع پر دیکھنے میں آیا ۔ نماز جنازہ میں شرکت کے لیے وزیر اعلی
سند ھ سید مراد علی شاہ اپنے وزراء سمیت مرحوم کی رہائش گاہ تشریف لائے ۔
اس دوران کسی منچلے نے وزیر اعلی سمیت تین چار افراد کی جیبیں صاف کردیں ۔
پھر قل خوانی میں شرکت کے لیے جناب مولابخش چانڈیو سرکاری خرچے پر لاہور
پہنچے ۔ جب قل خوانی اختتام کو پہنچی تو تین چار افراد کی جوتیاں اپنی جگہ
سے غائب تھیں ۔اس پر مولابخش چانڈیو نے برجستہ طنز کرتے ہوئے کہا ۔ "جو بھی
پنجاب میں آئے اپنی جیب بچا کر رکھے ، جیب کٹنے کے خوف سے میں اپنا پرس
بھائی کو دے آیا ہوں ۔ہمیں پنجاب پر اعتبار ہے لیکن پنجاب حکومت پر نہیں" ۔
جہاں تک مولا بخش چانڈیو کی اس گفتگو کا تعلق ہے اﷲ تعالی نے انہیں نہ صرف
گفتگو کرنے کا ملکہ عطاکیا ہے بلکہ وہ تنقید اور دفاع بھی بہت خوب کرتے ہیں
۔کوئی ان کے پیرو مرشد کے خلاف بات تو کرکے دیکھے- اتنی تمہید باندھ کر
عورتوں کی طرح طعنے دیتے ہیں کہ تنقید کرنے والے کو نانی یاد آجاتی ہے ۔ ان
دنوں چودھری نثار اور خواجہ سعد رفیق ان کو بہت چبھتے ہیں۔جو قوم کو ان کا
اصل چہرہ دکھاتے ہیں ۔پیپلز پارٹی کے سابقہ دور میں وہ وفاقی وزیر اور اب
وہ وزیر اطلاعات سندھ کے عہدے پر فائز ہیں ۔سندھ حکومت کی بدترین کارکردگی
کو چاندی کا ورق لگا کر تعریف کے پل باندھنے میں اپناثانی نہیں رکھتے۔ وہ
زرداری خاندان کی پارسائی کی کہانیاں بھی صحافیوں کو چسکے چسکے لے لے کر
خوب سناتے ہیں۔ گزشتہ دور میں پاکستان عالمی سطح پر ایک کرپٹ ملک کی حیثیت
سے مشہور ہوا ۔ یہ پیپلز پارٹی کے سنہری دور کا ہی واقعہ ہے جب ایف بی آر
میں بغیر ٹیکس جمع کروائے ساڑھے پانچ سو ارب روپے کا ریفنڈ حاصل کرلیا گیا
۔ یہ پیپلز پارٹی کے سنہری دور کا ہی کارنامہ ہے کہ پاکستانی حاجیوں نے ارض
مقدس پہنچ کر جھولیاں اٹھا اٹھا کر پیپلز پارٹی حکومت کو بدعائیں دیں ۔ آصف
علی زرداری پہلے مسٹر ٹین پرسنٹ اور بعد میں مسٹر ہنڈرڈ پرسنٹ کے طور پر
مشہور ہوئے ۔ انہی کے دور میں بدترین لوڈشیڈنگ کے علاوہ پٹرول اور ڈالر 55
روپے سے 110 روپے تک جا پہنچااور مہنگائی آسمان کو چھونے لگی ۔ یہ ان کی
بدترین کرپشن کا ہی نتیجہ ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں تین صوبوں میں پیپلز
پارٹی کا صفایا ہوگیا ۔جو پارٹی کبھی وفاق کی زنجیر تھی وہ سندھ تک محدود
ہوکر رہ گئی ۔سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ بہت مقبول ہوئی ۔ ایک نوجوان شلوار کے
بغیر پھٹی پرانی قمیض پہنے ، ننگے پاؤں چل رہا تھا۔ اس پوسٹ کے نیچے لکھا
تھا ۔ بے شک ساری دنیا مر جائے .... بھٹو آج بھی زندہ ہے۔ بھٹو خود تو دنیا
سے رخصت ہوگئے لیکن ان کے نام پر اب بھی عوام کو بطور خاص سندھی عوام کو
بیوقوف بنایاجارہاہے۔ اسی صورت حال کو دیکھ کر ایک دل جلے نے کہا کہ یہ لوگ
خدا کے منکر تو ہوسکتے ہیں لیکن بھٹو کے منکر نہیں ہوسکتے ۔ بھٹو ازم ان کے
مذہب کی بنیاد چکاہے۔ یہ لوگ نسل در نسل بھٹو خاندان کے غلام ہیں اور غلام
ہی رہناچاہتے ہیں۔ایک بار کابینہ کے اجلاس میں رحمان ملک کو تلاوت کے لیے
کہاگیا ان سے سورہ اخلاص بھی نہیں پڑھی گئی۔ یہی حال دوسرے جیالوں کا ہے جو
بھٹو ازم پر دو گھنٹے مسلسل تقریر تو کرسکتے ہیں لیکن قرآن ،نماز اور جنازے
کی دعا بھی انہیں نہیں آتی۔ذوالفقار علی بھٹو کایوم پیدائش ہو یا ان کی
برسی ، بے نظیر بھٹو کا جنم دن ہو یا ان کی موت کادن ۔ سرکاری خزانے سے ہی
تمام انتظامات کیے جاتے ہیں بلکہ پاکستان کے تمام اخبارات میں چار چار
صفحات کے رنگین سپلیمنٹ بھٹو خاندان کے جھوٹے کارناموں پر مشتمل شائع کیے
جاتے ہیں اور الیکٹرونکس میڈیا کا شاید ہی کوئی چینل ایسا ہو جہاں قومی
خزانے سے پیسے خرچ کرکے بھٹو خاندان کی تشہیر نہ کی جاتی ہو۔اب جبکہ سندھ
حکومت کو ایک کٹھ پتلی کی طرح دوبئی سے کنٹرول کیاجارہاہے۔ وزیر اعلی سمیت
جتنے بھی وزیر ، مشیر اور پیپلز پارٹی کے سرکردہ افراد مہینے دس دس چکر
بذریعہ جہاز لگاتے ہیں یہ خرچ بھی قومی خزانے سے ہی کیاجاتاہے ۔ سندھ
اٹھارویں صدی کا منظر کیوں پیش کررہا ہے ،کراچی مسائل کی آمجگاہ کیوں ہے۔
اس کی وجہ یہی ہے کہ عوامی فلاح و بہبود پرپیسہ خرچ کرنے کی بجائے بھٹو
خاندان کی تشہیر پر بے دریغ خرچ کیا جارہا ہے ۔یہ سندھ حکومت کا ہی کارنامہ
ہے کہ کراچی دنیا کے ناقابل رہائش شہروں میں نمایاں پوزیشن پر آچکا ہے ۔
تھر میں خوراک اور ادویات کی عدم فراہمی کی بنا پر ہلاکتیں رکنے کا نام
نہیں لے رہیں ۔تھر کول پراجیکٹ کے لیے توسندھ حکومت کے پاس فنڈ نہیں لیکن
بلاول زرداری کو شہنشاہوں جیسا پروٹوکول فراہم کرنے کے لیے خزانہ بھرا ہوا
ہے ۔وہ وائسرائے کی طرح احکامات جاری کرتے ہیں بلکہ سرکاری خرچ پر ہونے
والے جلسوں اور پریس کانفرنسوں میں وفاقی حکومت کو بھی للکارتے ہیں ۔ مولا
بخش چانڈیو جیسے کتنے ہی بزرگ ان کے سامنے غلاموں کی طرح سر جھکائے کھڑے
ہوتے ہیں۔وہ غلط بات کہے یا صحیح۔ مجال ہے کسی کی کہ وہ ان کی تصحیح کی
جرات کرے ۔اب وہ بی بی کا بیٹا بن کر ایک بار پھر پنجاب کے عوام کو بیوقوف
بنانے کے لیے پر تول رہا ہے۔مولا بخش چانڈیو کو واقعی داد دینی چاہیئے کہ
جواپنی بدترین ناکام حکومت اور کرپٹ ترین رہنماؤں کا دفاع بہت مہارت سے
کررہے ہیں اور ساتھ ساتھ زرداری خاندان کی غلامی کا حق بھی ادا کررہے ہیں
۔لاہور آمد پر جب انہوں نے شہر کی حالت بدلی دیکھی تو شہباز شریف کے وژن کو
تسلیم کرنے کی بجائے حاسدانہ طنز پر اتر آئے ۔ انہیں شاید علم نہیں کہ
جیبیں کاٹنے والے اور جوتیاں چرانے والے پیپلز پارٹی کے ہی جیالے تھے جنہیں
روٹی کپڑا مکان کا جھوٹا وعدہ کرکے وہ گزشتہ تیس سال سے بیوقوف بناتے رہے
ہیں ۔ مدت دراز کے بعدقومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے والے لیڈر جیالوں کے
ہاتھ چڑھے تھے ۔ انہوں نے اظہار محبت تو کرنا ہی تھا ۔ جیبیں صاف کرکے
کرلیا یا جوتے چورا کے کرلیا۔ہر شخص کا اظہار محبت کا انداز مختلف ہوتا ہے
۔ |