بچے ؛جنت کے پھول

(20نومبر،بچوں کے عالمی دن کے موقع پر خصوصی تحریر)
بسم اﷲ الرحمن الرحیم

بچے جنت کا پھول ہوتے ہیں،انسانیت کا مستقبل بچوں سے وابسطہ ہے،انسانوں کاوہ طبقہ جو فطرت سے قریب تر ہے وہ بچے ہی ہیں اور بچے ہی ہیں جنہیں دیکھنا بڑوں کی آنکھوں کی ٹھنڈک کاباعث بنتاہے۔بچے،قبیلہ بنی نوع انسان کا وہ پہلو ہیں جو بہت نازک اور بہت کمزور ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مضبوط اور بہت طاقتوربھی ہے۔بچے کی پیدائش کے ساتھ ہی گھرمیں خوشیوں کاایک سماں سا بندھ جاتاہے،جہاں پہلے کوئی بچہ نہ ہواس گھرمیں بچے کی آمد گویازندگی کی آمدکاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے اور جہاں پہلے بھی بچے موجود ہوں وہاں کے غنچہ بہارمیں ایک اورتروتازہ پھول کااضافہ ہوجاتاہے۔میاں اور بیوی جن کی زندگی جب ایک خاص مدت کے بعد یکسانیت کاشکارہونے لگتی ہے تو خالق کائنات اپنی بے پناہ محبت و بے کنار رحمت کے باعث ان کے درمیان ایک اور ذی روح کااضافہ کردیتاہے جو ان کی حیات نواور ان کی باہمی محبتوں اورچاہتوں کی تاسیس جدیدکاباعث بن جاتاہے۔کاروان حیات آگے بڑھتاہے توایک نسل کے بالیدگی کے بعدجب اس سے اگلی نسل کی آمد کاسلسلہ شروع ہوتاہے تو دادا دادی اور نانانانی اپنے ہی لگائے ہوئے پودوں میں پھل پھول لگتے دیکھ کر پھولے نہیں سماتے ہیں اور اب جب کہ عملی زندگی کی تندوتیزلہروں نے انہیں کنارے کی طرف دھکیلناشروع کردیاہے تو اس آنے والی نسل نوکی مرکزیت انہیں زندگی کاسہارااورنوبہاردلچسپیاں مستعاردینے لگتی ہے اور اوران کے پسماندہ و جہاں رسیدہ چہرے اپنی پوتوں اور نواسوں کو گودوں میں اٹھاکرچمکنے اور دمکنے لگتے ہیں اور انہیں عمررفتہ کی شادمانیاں ایک بار پھر یاددلانے لگتے ہیں۔

بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں اور فطرت انسانی کے بہترین امین ثابت ہوتے ہیں،اس لیے کہ محسن انسانیت ﷺ نے فرمایاکہ ہر بچہ دین فطرت پرپیداہوتاہے۔حق پیدائش ،بچے کے حقوق میں سے سب سے اولین حق ہے۔اس آسمان نے وہ نام نہاد ’’مفکرین‘‘بھی دیکھے جن کے فلسفوں نے بچے کو اس کے اس بنیادی ،اولین اور فطری حق،حق پیدائش ،تک سے بھی محروم کیا۔اس کے بعد بچے کاحق ہے کہ اس کا بہترین نام تجویزکیاجائے۔نام کا حسن شخصیت پر براہ راست اثر انداز ہوتاہے اور نام ہی انسان کا سب سے پہلاتعارف ہے خواہ وہ انسان خود موجود ہو یانہ ہو۔نام کی حقیقت ’’نسبت‘‘سے وابسطہ ہے ،پس بہترین نام وہی ہیں جن میں بہترین نسبت پائی جاتی ہو۔محسن انسانیت ﷺنے ’’عبداﷲ‘‘نام کو پسند فرمایاہے کیونکہ اس میں سب سے اعلی نسبت پائی جاتی ہے کہ ’’اﷲ تعالی کابندہ‘‘۔لا معنی اور بے مقصدنام رکھنے سے احترازکرنا چاہیے،اسی طرح ایسے نام جن سے بد شگونی پیداہوان سے بھی منع کیاگیاہے مثلاََ’’ایمان‘‘یا’’حیا‘‘یا’’برہ(نیکی)‘‘نام رکھنا صحیح نہیں کیونکہ اگران ناموں کے افراد گھر میں نہ ہوں تو جواب دیاجائے گا کہ ایمان نہیں ہے یا حیا نہیں ہے وغیرہ ۔عقیقہ،سرکے بالوں کے برابرچاندی کا صدقہ اور وسعت کے مطابق بہترین طعام و قیام اور تعلیم و تربیت وسیروتفریح بچوں کے کچھ مزیدحقوق ہیں ۔

محسن انسانیت ﷺ بچوں سے بے حد پیارکرتے تھے،خاص طور پر یتیم بچے ان کی توجہ کا مرکزہواکرتے تھے۔حضرت زید،جوغلام بن کرآئے تھے آپ ﷺ نے انہیں اتنی محبت دی کہ انہوں نے اپنے ماں باپ کے پاس جانے سے انکارکردیا۔آپﷺ کو اپنے بچوں سے بھی بہت پیارتھا،آپ کے بڑے بیٹے کانام قاسم تھااسی نسبت سے آپ ﷺ کو ’’ابوقاسم‘‘کہاجاتاتھا۔جب حضرت قاسم فوت ہوئے توآپ ﷺ اشک بارہوگئے۔چاروں بیٹیوں سے اورخاص طور پرخاتون جنت بی بی فاطمۃ الزہراسے آپ ﷺ کو از حد محبت تھی ،ان کے دونوں فرزند حسنین کریمین شفیقین آپ ﷺ کے کندھوں پر سواری کیاکرتے تھے اور جب کبھی حالت سجدہ میں یہ نواسے آپ ﷺ کی کمر مبارک پر سوار ہوجاتے تواس وقت سر نہیں اٹھاتے تھے جب تک کہ وہ دونوں خود نہ اترتے۔قرآن مجید نے حکم دیاہے ’’اپنے بچوں کو بھوک کے خوف سے قتل نہ کرو،ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور انہیں بھی دیں گے‘‘ اس کے علاوہ قرآن نے یہ بھی کہا کہ ’’اپنے آپ کو اور اپنے گھروالوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ‘‘۔چنانچہ بچوں کا یہ بھی حق ہے کہ دوزخ کی جس آگ سے ایک مومن خود بچنے کااہتمام کرتاہے وہاں اپنے بچوں کو بھی اس آگ سے دور رکھنے کابالالتزام انتظام کرے اور اپنے مرنے کے بعد بچوں کی فکر کے ساتھ ساتھ بچوں کے مرنے کے بعد ان کی فکر بھی دامن گیر رہنی چاہیے۔

اپنے بچوں سے جانور بھی پیارکرتاہے،جنگلی درندہ بھی اپنی نسل کی بڑھوتری چاہتاہے اورعلوم معارف سے ناآشناانسانی آبادیوں سے دورزمین کی تہوں سے نیچے اور پانی کے اندھیروں میں چھپی ہوئی مخلوقات بھی اپنی نسلوں کے لیے کیسی کیسی قربانیاں دیتی ہے یہاں تک کہ بعض حشرات الارض تو ایک خول میں انڈے دے کر مرجاتے ہیں تب ان انڈوں سے نکلنے والے بچے اسی جسم مادرکوکھاکراپنے دورہ حیات کا آغاز کرتے ہیں۔لیکن حیرانی ہے اس سیکولر مغربی تہذیب پر جس نے اپنی نسل کے بچوں کو ہی اپنے اوپر بوجھ سمجھ لیا،اتنا ظالم اور اس قدر کرب ناک تجربہ تو اس سے پہلے بھی شاید کسی انسانی تہذیب نے نہیں کیاتھاکہ خود انسان پر اس کی اپنی نسل بوجھ بن کر رہ گئی ہو۔اس سیکولرمغربی تہذیب نے انسانیت کو اس درس معکوس سے آشناکیاکہ بچے انسانی وسائل پر بوجھ ہیں اور انہیں اس دنیامیں آنے سے روک دیاجائے۔ہوس نفس کی ماری اس سیکولرتہذیب نے اپنی ہی نسل کولذت نفسانی کی بھینٹ چڑھایا۔انقلاب فرانس سے شروع ہونے والا یہ تنزلی کاسفرآج تک جاری ہے اوراب تو یہ صورت حال ہے کہ یورپ کے بعض علاقے بچوں کے وجود سے بالکل خالی نظر آتے ہیں،اور ہردوچارسال یا پانچ سالوں کے بعد اکادکااسکول بند ہوجانے کی اطلاعات آتی ہیں کہ اتنے بچے ہی نہیں ہیں کہ سکول کوجاری رکھا جاسکے۔سیکنڈے نیویاکے بعض علاقوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح اس قدر کم ترین ہے کہ کل آبادی میں چودہ فیصدسالانہ تک کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے اور شہر کے شہر خالی ہونے لگے ہیں جبکہ دوسری طرف اوسط عمر میں مسلسل اضافے کے باعث یہ غیرفطری طرزمعاشرت کے ثمرات بد ہیں کہ ایک طرف بچوں کی پیدائش کی شرح ہوشرباحد تک کم ہے تو دوسری طرف دن بدن ریٹائرہونے والے افراد کی ایک لمبی قطاراور طویل فہرست ہے اور وہ ممالک مجبور ہیں کہ درمیان کے خلاکو پر کرنے کے لیے ایشیائی ممالک سے اپنی شہریت کے دروازے کھولیں۔ان یورپی ممالک سے جب کبھی کوئی سیاح ایشیائی ممالک کا سفر کرتے ہیں تو پھول جیسے بچوں سے بھری ہوئی گلدستے جیسی گلیوں کو دیکھ کر وہ پکاراٹھتے ہیں کہ یہ کتنی امیراقوام ہیں ۔

سیکولرمغربی تہذیب کی حامل اقوام کس منہ سے بچوں کاعالمی دن مناتی ہیں جب کہ بچوں کی سب سے بڑی استحصالی قوتیں وہ خود ہیں کہ انہوں نے اپنی گود میں لذت نفسانی سے سرشارسیکولرازم کی پرورش کرکے بچوں کو ان کی مامتاتک سے محروم کیاہے۔بڑے تو پھر بھی اپنے حقوق کی خاطر مظاہرے کرتے ہیں لیکن مامتاسے محروم ڈے کئر سنٹرزمیں نرسوں کے ہاتھوں نیندکی دوائی ملادودھ پی کر ساراسارادن سوتے رہنے والے بچے تواس قابل نہیں ہوتے کہ وہ اپنی ماؤں کے حصول کے لیے سیکولرمغربی جمہوری حقوق کے تحت کوئی مظاہرہ کرسکیں۔اس سیکولرمغربی تہذیب نے بچوں کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی اور ظلم یہ کیاہے کہ عورت کو بھی مزدوروں اورپیشہ وروں کی صف میں کھڑاکرکے خاندانی نظام کو اجاڑ پھینکاہے ۔اس خاندانی نظام کی بقامیں ہی بچوں کاتحفظ پوشیدہ تھااور اب انسانیت کے دعوے داراور انسانی حقوق کے ٹھیکیداریورپ اور امریکہ کے کارپردازگان ایشیائی و اسلامی ممالک کے بچوں کو بھی اسی استحصال کا شکار کرنا چاہتے ہیں جس کی تفصیلات آئے دن اخبارات کی زینت ہیں۔اگروہ واقعی انسانیت کے خیرخواہ ہیں تو بچوں کے عالمی دن کا تقاضا ہے کہ اپنے ملکوں میں خاندانی نظام کو ازسرنو تازہ کریں جس کاواحد اور بالکل ایک ہی راستہ ہے کہ عورت کو اس کی فطری ذمہ داریاں سونپی جائیں کیونکہ نسوانیت اور مامتا لازم و ملزوم ہیں۔

انسانی عقل کتنی ہی ترقی کرجائے وہ وحی کی تعلیمات سے آگے نہیں نکل سکتی،وحی کی تعلیمات میں ہی بچوں سمیت کل انسانیت کی فلاح پوشیدہ ہے۔نکاح وہ ادارہ ہے جس کے ثمرات صحیح النسب بچوں کی صورت میں انسانیت کو میسر آتے ہیں اور انسانی نسل آگے کو بڑھتی ہے۔ نکاح جیسے مقدس ادارے کاتحفظ خاندانی نظام سے ممکن ہے جبکہ بدکاری اور زناجیسے قبیح اعمال براہ راست نکاح جیسے محترم ادارے کو مجروح کرتے ہیں۔خاندانی نظام کی مضبوطی اور زناو بدکاری کی روک تھام کے لیے قرآن مجید نے جہاں بہت سے عائلی قوانین جاری کیے ہیں وہاں غص بصر،استیزان،حجاب اورعورت کو معاشی ذمہ داریوں سے مبراقراردے کردراصل انسان کی آنے والی نسل یعنی بچوں کے روشن مستقبل کی ضمانت دی ہے۔سال بھر میں ایک دفعہ بچوں کاعالمی دن منالینے سے بچوں کے حقوق ادانہیں ہو سکیں گے ۔بچوں کے حقوق اداکرنے کے لیے ضروری ہے کہ فطرت نے ان حقوق کی ادائگی کوجس (ماں) کے فرائض میں شامل کیاہے اسے دنیاکی تمام ذمہ داریوں سے فراغت عطاکی جائے تاکہ وہ ’’بچوں کے حقوق‘‘کوبحسن وخوبی اداکرسکے۔جب ماں واقعی ماں تھی اور اسوۃ رسول ﷺ کی پیروکار تھی تو اس کی گود سے حسنین کریمین جیسے بچے عالم انسانیت کو میسر آئے ،اﷲ کرے کہ ہماری آنے والی نسلوں کوبھی ایسی مائیں مرحمت ہوں کہ وہ بچے اپنے حقوق کے لیے کسی عالمی دن کے محتاج نہ رہیں،آمین۔
Dr Sajid Khakwani
About the Author: Dr Sajid Khakwani Read More Articles by Dr Sajid Khakwani: 470 Articles with 571950 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.