ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
Article Contests
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Blogs
Directory
Weather
MyPage
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
Article Contests
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Blogs
Directory
Weather
MyPage
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
Home
Urdu Articles
Education Articles
آئیے بچے ذبح کریں
(Syed Amjad Hussain Bukhari, )
پاکستان کے نظام تعلیم پر جنتا لکھا گیا اگر اس کی صرف سیاہی ہی جمع کی جائے اور ان کاغذات کو ردی کے طور پر بیچا جائے تو ایک اچھی خصوصیات کا حامل تعلیمی ادارہ تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ مگر اس تعلیمی نظام میں بہتری کے لئے کوششوں پر سر شرمندگی سے جھک جاتا ہے۔جب سے میڈیا میں نجی چینلز کا اضافہ ہوا اور سوشل میڈیا تیزی سے پروان چڑھا ہے اس کے بعد تعلیم کی بہت سی خرابیاں سامنے آرہی ہیں۔مگر ان خرابیوں کے باوجود حکمران اور اپوزیشن کرسی کرسی کھیل رہے ہیں جبکہ عام آدمی کو دال دلیے سے فرصت میسر نہیں۔درس گاہیں رقص گاہیں بنی اور کہیں قتل گاہیں بن رہی ہیں۔کہیں والدین سے بغاوت کا درس پڑھایا جانے لگا اور بعض اداروں میں معاشرے اور اقدار و روایات سے لڑنے کا سبق دیا جارہا ہے۔جی ہاں یہی درس گاہیں جہاں کبھی انسانیت کا درس دیا جاتا تھا، معلم پیار والفت کا نمونہ ہوتے تھے، جہاں استاد اور شاگرد کے درمیان عزت ، احترام اور لگاؤ کا رشتہ تھا وہیں اب ان درس گاہوں سے نفرتیں جنم لے رہی ہیں،خوف پروان چڑھ رہا ہے، کتابوں کے الفاظ کی جگہ چیخیں بلند ہو رہی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے استاد اگر جلاد کہلاتے ہیں تو نجی تعلیمی ادارے مادری زبان کو جاہلوں کی زبان کہہ کر احساس برتری قائم رکھنے کی تگ و دو کر رہے ہیں۔میں حیران ہوتا ہوں کہ کسی دینی مدرسے کا ایک طالب علم زنجیروں میں قید نظر آگیا تو میڈیا سوشل میڈیا نجی محافل ہر جگہ مولوی جاہل قرار پاتا ہے۔مگر فیس نہ ملنے پر بچوں کو سکول سے نکال دینا نظم و ضبط کہلاتا ہے۔نوخیز طالبات کو جو سبق انہیں ان کی مائیں اور بڑی بہنیں پڑھاتی تھیں وہی سبق درس گاہ میں سینکڑوں طلبہ وطالبات کے سامنے پڑھایا اور سکھایا جاتا ہے توجیح یہ پیش کی جاتی ہے کہ ’’شرم کس بات کی‘‘۔صوبوں کے پاس نصاب تعلیم کے اختیارات جانے کے بعد این جی اوز نے صوبوں کو نصاب سازی کے لئے خزانوں کے منہ کھول دئیے۔اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے تیسری اور چوتھی جماعت کے طلبہ و طالبات کو جنسی تعلیم شامل نصاب کردی جاتی ہے۔ تمام لوگ دفاع اور مخالفت میں سامنے آجاتے ہیں مگر اصل کرپشن کی جانب کسی کی نگاہ نہیں پڑتی۔ میرا مقصد نصاب تعلیم یا نظام تعلیم کے بخیئے ادھیڑنا نہیں بلکہ گذشتہ روز چلنے والی دو خبروں نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا،کیڈٹ کالج لاڑکانہ کے چودہ سالہ طالب علم محمد احمد کو اساتذہ کی جانب سے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ اس کا گلا دبایا گیا ،جس سے اس کی قوت گویائی ختم ہوگئی۔وہ اپنے حواس کھو بیٹھا، ایک چلتا پھرتا طالب علم استاد کے تشد د کے باعث مکمل معذور ہوگیا۔ یہ تشدد بچے پر چار ماہ قبل ہوا۔ بچے کے والد کی جمع پونجی اس کے علاج پر خرچ ہوگئی اب جب کہ ڈاکٹروں نے پاکستان میں علاج سے معذرت کرلی تو میڈیا کو بھی خیال آیا کہ اس واقعے کو حکام بالا تک پہنچایا جائے۔ چار ماہ تک خاموشی گو کہ بہت سے سوال پوچھ رہی ہے مگر دیر آید درست آید پہ ہی سر تسلیم خم کرتے ہیں۔ میڈیا پر خبر نے گویا حکام کی آنکھیں کھول دی ، سیکرٹری تعلیم اور سیکرٹری صحت دونوں نے ڈاکٹروں کی ایک ٹیم تشکیل دی۔ قبلہ ڈاکٹرز کی ٹیم تشکیل دینے سے شاید کے بچے کے حواس بحال ہو جائیں، شاید ان کی کچھ تشفی ممکن ہو مگر دل کا وہ غبارجو بوڑھے باپ کی آنکھوں سے موتیوں کی شکل میں نکل رہا تھا اس کی داد رسی کون کرے گا۔ اس کے بڑھاپے کا عصا بننے والے بیٹے کو اس کے سامنے تڑپنے کے لئے چھوڑ تو دیا گیا مگرایسا کرنے والوں کے گرد گھیرا کون تنگ کرے گا۔میڈیا پر ضعیف باپ چیخیں شاید چینلز کی ٹی آر پی بڑھانے میں ممدو معاون ثابت ہوئی ہوگی مگر کیا اس باپ کا درد کسی نے محسوس کیا؟ وہ بوڑھا تو بس ایک ہی صدا لگا رہا تھا اس کے لاڈلے کو معذور کرنے والوں کو پھانسی بھی دے دی گئی تو بھی اس کے زخمی جگر کو مرہم میسر نہیں ہوگی۔مگر خدارا انہیں کیفر کردار تک لازمی پہنچائیے تاکہ جو میرے بیٹے کے ساتھ ہوا وہ کسی اور ماں کے لعل کے ساتھ نہ ہو۔اپنے بیٹے کی وہیل چئیر دھکیل ہوئے سفید داڑھی آنسوؤں سے تر تھی شاید ان آنسوؤں میں بڑھاپے کے ارمان بہہ رہے تھے یا بیٹے کے روشن مستقبل کی امیدیں قطرہ قطرہ بن کر دم توڑ رہی تھیں۔یہ آنسو بہت انمول ہوتے ہیں ، آسانی سے بہتے نہیں ہیں، مگر جب خواب مر جائیں، امیدیں ٹوٹ جائیں، راستے بند ہو جائیں تو سسکیوں اور آہوں کے ساتھ یہ آنسو بھی آ جاتے ہیں دل کا غبار شاید آنکھوں کی برسات کے بعد چھٹ جاتا ہوگا مگرچاک دامن ، چھلنی جگر کے زخم کیسے مندمل ہو سکتے ہیں۔درس وتدریس میں نمایاں مقام کے حامل تعلیمی ادارے اگر یہ کام کرنا شروع کردیں گے تو بھینسوں کے باڑے میں بنے ہوئے سکول میں تعلیم دیتے ہوئے استاد سے کیا توقع کی جاسکتی ہے۔جب احساس برتری کے زعم میں مبتلا اساتذہ طلبہ وطالبات کے ساتھ ذلت آمیز رویہ اپنائیں گے توباقی لوگوں سے کیا امیدیں وابستہ کی جاسکتی ہیں۔مگر احساس برتری سکولوں کی خوبصورتی کے ساتھ وابستہ نہیں ، اجلے بستوں اور خوبصورت و دیدہ زیب وردیوں والے طلبہ وطالبات کو پڑھانا ہی برتری کا معیار نہیں ہے۔ معلم کو تو خود خوبصورت ہونا پڑتا ہے۔ جب معلم کے اندر اخلاق و کردار کی بلندی ہوتی ہے تو اپنے شاگرد کی زندگی کے لئے وہ دریائے کنہار کی موجوں سے الجھ پڑتا ہے۔ جب تعلیم دولت و شہرت کاذریعہ نہیں بنایا جاتا تو معلمہ بس میں لگی آگ کے شعلوں میں کود کر اپنے شاگردوں کو بچا لیتی ہے۔ارے ہاں دشمن کی گولیوں میں اپنے طلبہ کو بچا لینے والی بھی تو معلمہ ہی ہے۔ہاں مجھے گیارہ سال قبل آنے والے زلزلے میں اساتذہ کی قربانیاں یاد آرہی ہیں جو کہ بظاہر اپنی زندگیاں بچا سکتے تھے مگر وہ اپنے شاگردوں کو زندگی دینے کے لئے خود امر ہوگئے۔تعلیم انسان کو شعور دیتی ہے، انسانیت سکھاتی ہے مگر اس دور جدید میں درندگی اور حیوانیت کی مثال دیکھ کر مجھے دور حاضر کے دانشوروں پر ترس آتا ہے ۔ ہاں دوسری خبر جو شاید چند لمحے ہی چینلز پر چلی سکول سے فیس نہ جمع کرانے پر نکال دیا جانے والا طالب علم کراچی میں گندے نالے میں ڈوب کر جاں بحق ہو گیا اور ابھی تک اس کی لاش کی تلاش جاری ہے۔حضور یہ واقعات شاید بڑے شہروں میں ہوتے ہیں تو نظر آجاتے ہیں۔ اندرون سندھ کے گھوٹ، پنجاب ، خیبر اور بلوچستان کے دوردراز گاؤں میں روزانہ ایسے واقعات تسلسل سے رونما ہو رہے ہوتے ہیں ۔ مگر ان واقعات کو نہ میڈیا کور کرتا ہے اور نہ ہی سوشل میڈیا کے لٹھ باز میدان میں آتے ہیں۔مجھے تو ایسا لگ رہا ہے کہ معصوم طلبہ وطالبات پر ہونے والے تشدد اور تعلیمی اداروں کے اس رویے کے ہم خود ہی ذمہ دار ہیں۔کہیں نہ کہیں اس میں ہمارا بھی حصہ ہے۔ ہم خود ہی اپنے ہاتھوں سے کبھی تعلیم اداروں کی بھاری فیسوں اور مطالبات کے ہاتھوں احساس کمتری میں مبتلا کر رہے ہیں تو کبھی اساتذہ کے زبانی اور جسمانی تشدد کو سہنے پر مجبور کر رہے ہیں۔اپنے ہاتھوں سے ہی معصوم بچوں کو ذبح کر رہے ہیں۔ ہمیں اپنی اولادوں سے پیار ہے ان کی تمام خواہشات پوری کرتے ہیں۔ اچھے سے اچھے تعلیمی ادارے میں بھیجتے ہیں تاکہ وہ بہتر تعلیم حاصل کر سکیں۔ مگر کبھی اس پر بات نہیں کہ تعلیم تو ہر شہری کا بنیادی حق ہے اور ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرے۔مگربات کرنے سے کیا حاصل ہونا۔ہمارا وقت گزر گیا اب ہمارے بچوں کا دور ہے۔ یہ جدید دور ہے، چلیں سب باتیں ایک طرف ’’ اپنے بچوں کو مل کر ذبح کرتے ہیں‘‘۔ تاکہ نہ ریاست کو کوئی پریشانی ہو اور نہ ہی کوئی برتری کے نشے میں مبتلا تعلیمی ادارہ یا استاد ہمارے آنسو ؤں کے ساتھ کھیل سکے۔
Comments
Print
PREVIOUS
خیبر پختونخواہ تحریکَ انصاف کی تعلیمی پالیسیوں کا مدفن
NEXT
مولانا آزاد میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام سمینار’’مولانا ابوالکلام آزاد کا اردو صحافت میں حصہ‘‘
About the Author:
Syed Amjad Hussain Bukhari
Read More Articles by
Syed Amjad Hussain Bukhari
:
21 Articles with 10142 views
»
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here >>
Recent
Education
Articles
استاد کیا ہے
کرونا وبا : تعلیم اور طالب علموں پر اثرات
Should children be allowed to use mobile phone?
Countering Islam phobia: The potential role of peace journalism
اساتذہ کی کلیدی اہمیت اور ان کا تحفظ․․․!
View all Education Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
اساتذہ کی کلیدی اہمیت اور ان کا تحفظ․․․!
تعلیمی ادارے جرائم کے گڑھ ذمہ دار کون
طلبہ کا احتجاج اور متعلقہ اداروں کی بے حسی
تجزیاتی و استدلالی مضمون میں فرق
کرونا وبا : تعلیم اور طالب علموں پر اثرات
استاد کیا ہے
Importance of Education
Importance of Female Education
Co education advantages and disadvantages
Hamara Nizam e Taleem In Urdu
Problems of Education in Pakistan
Advantages Of Cost Accounting
19 Nov, 2016
Views: 706
Comments
آپ کی رائے
i agree with u
By:
mini, mindi bhauddin
on Nov, 20 2016
Reply
0
Please Wait Submitting Comments...