خیبر پختونخواہ تحریکَ انصاف کی تعلیمی پالیسیوں کا مدفن

تحریک انصاف کی 2013کے انتخابات کی انتخابی مہم نئے پاکستان کی تشکیل کے گرد گھومتی رہی ۔نئے پاکستان کا سب سے بنیادی اور مرکزی نکتہ’’یکساں نظامِ تعلیم،،تھا۔جس میں امیر اور غریب کے بچے کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع فراہم کرنا قرار پایا۔تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان صاحب نے بھی اپنی تقریروں میں یکساں نظام تعلیم کے نفاذ پر تکرار کے ساتھ زور دیا ۔یکساں نظام تعلیم کی پالیسی کو تحریک انصاف کے اہم رہنما جناب جہانگیر ترین نے جیو ٹی وی اور دیگر چینلز پر کچھ اس طرح بیان کیا ہے کہ وہ آٹھویں جماعت تک مکمل طور پر اردو میڈیم نصاب رائج کریں گے اور اس کے بعد طلباء کو انگریزی میڈیم اور اردو میڈیم کا اختیار دیں گے ۔اس کے ساتھ انہوں نے یہ بھی فرمایا کہ وہ بڑی جماعتوں کے نصابات کو بھی اردو میں ترجمہ کروائیں گے۔راقم الحروف کو یاد ہے انہوں نے ایک خاص مثال دے کر بات سمجھائی تھی کہ ہمارے بچے لفظ زاویہ کو اینگل کی نسبت زیادہ آسانی سے سمجھتے ہیں ۔اس کے علاوہ جناب عمران خان صاحب نے بار بار اقبالیات کو نصاب کاحصہ بنانے پر بھی زور دیا ۔حقیقت یہ ہے کہ تحریک انصاف کی یہ پالیسی کافی معقول اور بہتر تھی جس کے نتیجے میں عام آدمی کے بچے کو بھی تعلیم میں فائدہ ملنا تھا مگر جونہی انتخابات ہوئے اور خیبر پختون خواہ میں تحریک انصاف کو واضح برتری مل گئی اور صوبے کے وزیر اعلی ٰجناب پرویز خٹک صاحب نامزد ہوئے ۔ANP(عوامی نیشنل پارٹی) چھوڑ کر تحریک انصاف میں آنے والے ایچیسن کے تعلیم یافتہ پرویز خٹک صاحب نے پورے صوبے میں انگریزی میڈیم بطور یکساں نظام تعلیم کا اعلان کر دیا ۔ان کے اس اعلان پر پڑھے لکھے اور تعلیم یافتہ حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی کہ تحریک انصاف اپنی پالیسیوں اور منشور میں جس طرح کے یکساں نظام تعلیم کی عمارت تشکیل دینا چاہتی تھی اسے ان کی اپنی ہی حکومت نے ڈائنا مائٹ لگا کر زمین بوس کر دیا ۔
ذرا غور کرنے کی با ت ہے کہ تحریک انصاف کی وہ ٹیم جو ANPچھوڑ کر تحریک انصاف میں شامل ہوئی تھی وہ اس سامراجی منصوبے کو ساتھ لے کر آئی تھی ۔اس میں غیر ملکی این جی اوز جیسے DFID,GTZ،USAID اور دوسری سامراجی تنظیموں نے فوراََ پورے صوبے کے نظام تعلیم ،نصاب تعلیم اور اساتذہ کی تربیت کو اپنے قبضے میں لے لیا اور اس طرح خیبر پختون خواہ کی غیور نسل نو کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کا منصوبہ بنا لیا گیا ۔لوگوں کو دکھانے کے لیے چند کانفرنسیں بھی کی گئیں جن میں سامراجی این جی اوز کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی تاکہ ان کے لیے پہلے سے تیار شدہ منصوبے کو پایہء تکمیل تک پہنچانے کے لیے راستہ ہموا رکیا جائے ۔ان کانفرسوں کا انعقاد تو علامتی تھا حقیقت میں یہ منظر نامہ اورپلاٹ پہلے سے تیار شدہ تھا ۔عجیب بات یہ ہے کہ جناب عمران خان صاحب کی دھرنے اور اس کی بڑی بڑی تقاریرمیں غیر ملکی امداد اور قرضے لینے کی شدید مخالفت کرتے نظر آتے ہیں اور لوگوں کو باربار اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی تلقین کرتے ہیں ۔مگر جس صوبے میں ان کی حکومت ہے وہاں پورا نظام تعلیم غیر ملکی بلکہ سامراجی ایجنسیوں کے ہاتھوں میں دے دیتے ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے ہم جیسے سادہ لوح لوگ کہاں جائیں کس کا اعتبار کریں اور کس کا نہ کریں۔بطاہر یہ لگتا ہے کہ تحریک انصاف کے تعلیمی پالیسی بنانے والے اہم افراد بلکہ اس پالیسی کو اتفاق رائے سے منشور کا حصہ بنانے والے افراد KPK کے حکمرانوں کے سامنے یک دم بے بس ہوگئے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اس مسئلے پر لے دے ہوئی ہوگی مگر سامراجی ایجنڈے کے سامنے تحریک انصاف کو اجتماعی ہار ماننا پڑی ۔شاید اسے ٹھنڈے پیٹوں اس لیے برداشت کر لیا گیا ہو کہ تحریک انصاف میں پھوٹ نہ پڑے ور نہ یہ اختلاف باہر نکل کر نقصان کا باعث بن سکتا تھا ۔ایک عام آدمی تحریک انصاف سے یہ سوال کر سکتا ہے کہ اسےDIFD,US.AIDاور دوسری سامراجی تنظیموں کے ساتھ KPKکے کیے گئے معاہدوں کی تفصیلات بتائی جائیں اس بابت KPKکی صوبائی حکومت نے عوام الناس تک معلومات کی رسائی کا قانون بھی منظور کیا ہے ۔یہ قانون آئین پاکستان کی دفعہ۱۱۹ الف کے مطابق ہے کہ" ہر شہری کو مفاد عامہ کے تمام امور کی بابت معلومات تک رسائی کا حق ہے بشرطیکہ یہ قانون ضابطہ اور مناسب پابندیوں کے تابع ہو ۔"

ایک عام شہری یہ بات پوچھنے میں حق بجانب نہیں ہے کہ وہ کون سے تعلیمی منصوبے ہیں جو پرویز خٹک کی حکومت کو وراثت میں ملے یعنی جن کے معاہدے گذشتہANPکی حکومت نے غیر ملکی امدادی اداروں اور این جی اوز سے کیے ؟۔ان تمام معاہدوں کی اصل دستاویزات ان پر دستخط کرنے والے حکومتی ذمہ داران کے ناموں کے ساتھ شائع کی جائیں۔ ان معاہدوں کی کل رقم جزیات سمیت تفصیل کے ساتھ منظر عام پر لائی جائے۔نیز یہ بھی بتایا جائے یہ معاہدے کن شرائط کی بنیاد پر کیے گئے ۔ان معاہدات سے قبل وسیع تر مشاورت کے ثبوت فراہم کیے جائیں اور اس کے بعد پرویز خٹک کی حکومت نے ان امدادی ایجنسیوں کے ساتھ کون کون سے معاہدے کیے ۔یہ معاہدے کل کتنی رقم کے تھے ان معاہدات کا اصل متن کیا تھا اور معاہدہ کرنے والی غیر ملکی این جی اوز کو نصاب تعلیم ،امتحانی نظام اور اساتذہ کی تربیت میں کن کن نکات پر مداخلت کی اجازت دی گئی ۔

ان سب سوالوں کے ساتھ ایک اور سوال کا جواب دینا بھی تحریک انصاف کی حکومت پر فرض ہے کہ نصاب تعلیم کو انگریزی میڈیم بنانے اور رائج کرنے سے پہلے کون کون سے ماہرین تعلیم سے مشاورت کی گئی ؟یاد رہے کہ یہ وہ ماہر تعلیم ہوں جنہوں نے تعلیم کے موضوعات پر تحقیقی اور تخلیقی کام کیا ہو اور حقیقتاََ ماہرین تعلیم کے نام سے پہچانے جاتے ہوں ۔علاوہ ازیں اس بہت بڑی تبدیلی سے پہلے کتنے طلباء اور طالبات پر آزمائشی تحقیق کی گئی کہ آیا انگریزی میڈیم صوبے کے بچوں کے لیے قابل فہم اور قابل عمل ہے بھی کہ نہیں ؟میرا دعوٰی ہے کہ KPKکی حکومت کسی بھی طرح یہ ثابت کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتی اس لیے کہ یہ غیر ملکی ایجنڈا تھا اور ہے جس پر KPKکی حکومت کار فرما ہے ۔

ایک اور نکتہ قابل ذکر یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت نے بھی اسی طرح انگریزی میڈیم کا آغاز کیا تھا جس میں غیر ملکی امدادی ایجنسیوں کے مکمل قبضے کے بعد نصاب ،امتحان اور اساتذہ کی تربیت ان کو پرویز الہیٰ اور میاں شہباز شریف صاحب کی حکومت نے تھالی میں رکھ کر دے دی تھی ۔حتیٰ کہ ان پالیسیوں کی نگرانی کے لیے مائیکل باربراور ریمنڈ جیسے افراد وزیر اعلیٰ پنجاب کے مشیر خاص بن گئے ۔جناب پرویز خٹک صاحب کو پنجاب کی طرف سے یہ شہ بھی مل گئی کہ شہباز شریف صاحب نے پورے پنجاب میں جبراََ انگلش میڈیم نافذ کیا تو ان پر کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹا تو انہیں بھی کچھ نہیں ہوگا ۔یہی سبق یقیناًان سامراجی امدادی ایجنسیوں نے پرویز خٹک اور ان کے وزیروں اور مشیروں کو دیا ہوگا ۔لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ مطلق العنان حکمران آئین شکنی پراس قدر دلیر ہوگئے ہیں کہ کسی بھی قانونی اور آئینی ضابطے کو پامال کرنے پر تیار ہوجاتے ہیں ۔اس میں ذاتی مفادات کے ساتھ دولتِ انگریزیہ کی پشت در پشت غلامی اورموجودہ کاروباری مفادات بھی شامل ہوتے ہیں ۔تحریک انصاف کے بہت سے لوگوں کو KPK کی ان نصابی ،امتحانی اور تدریسی تبدیلیوں کا شروع سے ہی اندازہ تھا اور اب تو KPKکی حکومت کو بھی اس کا اندازہ ہوچکا ہے کہ KPKکے بچوں کے لیے انگریزی میڈیم کسی بھی طرح قابل فہم اور قابل ہضم نہیں ۔اس تباہی کے خوف سے وہ اپنے جلسوں اور جلوسوں میں تعلیم کا ذکر ہی نہیں کرتے ۔اگر کرتے بھی ہیں تو چند نئے سکولوں کی تعمیر اور بچوں کے داخلے اور سامراجی ایجنسیوں سے اساتذہ کی تربیت کی بات کر کے نظام تعلیم کی اصل تباہی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر تے ہیں ۔اسلام آباد میں طویل دھرنے کے دوران بھی تعلیمی امور پر بات کرنے سے گریز کیا گیا ۔کیونکہ سب کو معلوم ہو چکا ہے کہ KPKکا تبدیل شدہ تعلیمی نظام ان کے لیے رسوائی کا سبب بن رہا ہے ۔عمران خان صاحب نے کئی دفعہ لوگوں کے سامنے جاپان کی مثال رکھی کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران تباہ شدہ جاپان پھرسے معاشی طاقت کس طرح بنا ۔انہوں نے کہا کہ جاپانی حکومت نے سڑکیں اور پل بنانے کی بجائے انسانوں پر پیسے خرچ کیے حالانکہ تاریخ بتاتی ہے کہ تباہ شدہ جاپان نے اپنی قومی زبان جاپانی میں لوگوں کو تعلیم دی اور اتحادیوں کی تمام شرائط قبول کیں مگر ذریعہ تعلیم پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا ۔ماہرین تعلیم مفتوح جاپانی حکومت کے اس دانش مندانہ فیصلے کا نتیجہ عظیم الشان ترقی قرار دیتے ہیں ۔یہ الفاظ عمران خان صاحب کی زبان سے کیونکر نکل سکتے تھے جب کہ وہ خود خیبر پختون خواہ میں طوعاََ کرہاََ انگریزی میڈیم رائج کر چکے تھے اور وہ بھی سامراجی امدادی ایجنسیوں کی بھیک کے عوض۔اب وہ کس منہ سے اس آفاقی اور فطری حقیقت کا اعتراف کرتے ۔یہ آئین شکنی اور غیروں کی اپنے نظام تعلیم میں مداخلت کی بد ترین مثال نہیں تو اور کیا ہے ؟ہم تحریک انصاف کے ہر رہنما ،ہر کارکن بلکہ ہر پاکستانی کو آئین پاکستان کی دفعہ251کے مطالعہ کی بار بار دعوت دیتے ہیں جو کہ1973سے لے کر اب تک مسلسل دہائی دے رہی ہے کہ " (1)پاکستان کی قومی زبان اردو ہے اور یوم آغاز سے پندرہ برس کے اندر اندر اس کو سرکاری اور دیگر اغراض کے لیے استعمال کرنے کے انتظامات کیے جائیں (2)شق(1)کے تابع انگریزی زبان اس وقت تک سرکاری اغراض کے لیے استعمال کی ائے گی جب تک کہ اس کے اردو سیتبدیل کیے جانے کے انتظامات نہ ہو جائیں ۔(3)قومی زبان کی حیثیت متاثر کیے بغیر ،کوئی صوبائی اسمبلی قانون کے ذریعے قومی زبان کے علاوہ کسی صوبائی زبان کی تعلیم و ترقی اور اس کے استعمال کے لیے اقدامات تجویز کرسکے گی ۔آئین پاکستان کی مذکورہدفعہ کی تینوں شقوں میں اردو کو ہٹا کر انگریزی کے استعمال کے لیے ایک لفظ بھی موجود نہیں ہے بلکہ انگریزی کو اردو کے ذریعے بدلنا مقصود و منتہیٰ ہے۔کوئی شخص جتنی بھی کوشش کر لے انگریزی کے نفاذ کے لیے شائبہ تک کشید نہیں کر سکتا۔صوبائی زبان کے استعمال کی اجازت دی گئی ہے وہ بھی قومی زبان کی حیثیت کو متاثر کیے بغیر ۔اس کے لیے صوبائی اسمبلی قانوں سازی کرئے گی مگر قومی زبان میں موجود نصاب تعلیم کو یکسر ختم کر کے انگریزی میں نافذ کرنا اس کی قومی اور صوبائی اسمبلی دونوں کی اجازت نہیں ہے کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ یا صوبائی اسمبلی از خود یہ کام کیسے کر سکتا ہے ؟!میاں شہباز شریف(وزیر اعلیٰ پنجاب)نے آئین ،پاکستان کی دفعہ کی صریحاََ خلاف ورزی کر کے بد ترین آمریت کا ثبوت دیا ہے جس کے نتائج آئندہ نسلوں کو جہالت کی میراث کی شکل میں ظاہر ہوتے رہیں گے۔اب خیبر پختون خواہ کی حکومت بھی اسی آئین شکن اور حماقت خیز راہ پر چل پڑی ہے۔آئین کی مذکورہ دفعہ میں پندرہ سال میں اردو کو ہر جگہ نافذ کرنا ضروری تھا ۔یہ ایسا جرم ہے جو اب تک برسرِاقتدار رہنے والی تمام حکومتیں اس کی مرتکب ہوتی رہی ہیں مگر موجودہ حکومت نے اردو کو مکمل دیس نکالا دے کر ملک و قوم کو سامراجی ایجنسیوں کے ہاتھوں بیچ دیا ہے ۔بالفرض اگر قرض وقت پر ادا نہ کیا جائے تو کیا وہ معاف ہو جاتا ہے ؟! ہر گز نہیں ۔بلکہ اور زیادہ ذمہ داری کے ساتھ ادائیگی فرض ہوجاتی ہے ۔بالکل اسی طرح اردو کا ہمہ جہتی نفاذموجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں پر فرض بھی ہے اور نسلِ نو کا قرض بھی ۔اس ضمن میں جو غلطیاں اور کوتاہیاں دانستہ یا غیر دانستہ ہو چکی ہیں ان کے کفارے اور ازالے کا واحد راستہ یہی ہے کہ اردو کو پاکستان کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں اردو کو نافذ کر دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ صوبائی زبانوں کے بھی ابلاغ و ترویج کا بھی بند و بست کیا جائے ہم پہلے ہی انگریزی کے ہاتھوں بہت سا نقصان اٹھا چکے ہیں تا کہ اپنی آئندہ نسلوں کو بھی انگریزی کے ذریعے غلام بنانے کا بند بست کر چکے ہیں۔ اب تو سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی نفاذِ اردو کے حق میں آچکا ہے ۔ اب کیوں یہ دونوں صوبے سابقہ اردو میڈیم بحال نہیں کرتے؟عام آدمی سے غلطی ہو جائے تو اسے عبرت کا نشان بنا دیا جاتا ہے مگر حکمران آئین و قانون کی پوری دنیا کے سامنے دھجیاں بکھیر دیں تو انہیں کوئی نہ پوچھے۔ یہی امر ہے جو دہشت گردی اور لاقانونیت کو فروغ دے رہا ہے۔

خیبر پختونخواہ میں تحریکِ انصاف کی اتحادی جماعتِ اسلامی کی ان امور کی بابت مجرمانہ خاموشی بھی صوبوں اور وفاق کے نظامِ تعلیم کو بہت نقصان پہنچا رہی ہے۔ اسلامی پاکستان کے دعوے داروں کی ناک کے نیچے شہباز شریف دھڑا دھڑ پنجاب میں مڈل تک سکولوں کو مخلوط بنا رہا ہے مگر کوئی احتجاج کرنے کی توفیق نہیں مل رہی ۔ اتنے بڑے بڑے اجتماعات کی بجائے ان تباہ کن پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے تو عوام الناس کی جڑوں تک ان کی پزیرائی بھی ہوتی اور قومی و ملی فریضہ بھی ادا ہوتا جو جماعتِ اسلامی کے شایانِ شان ہوتا۔ خیبر پختونخواہ مین نظامِ تعلیم کی غیر ملکی ہاتھوں میں فروخت کے ہوتے ہوئے حکومت سے اتحاداتنا بڑا جرم ہے کہ شاید تاریخ جماعتِ اسلامی کو کبھی معاف نہ کرے۔
Ishtiaq Ahmad
About the Author: Ishtiaq Ahmad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.