در" سماع موتی"صاحب ھِدایہ اور حضرت عائشہ کے انکار پر ملا علی قاری کا فیصلہ

ملا علی سلطان بن القاری متوفی 1041 ھ میں اس بحث میں لکھتے ہیں :
علامہ ابن ھمام نے شرح الہدایہ میں یہ تصریح کی ہے کہ اکثر مشائخ حنفیہ کا یہ موقف ہے کہ مردہ سنتا نہیں ہے کیونکہ انہوں نے کتاب الایمان میں یہ تصریح کی ہے کہ اگر کسی شخص نے یہ قسم کھائی کہ وہ کسی سے کلام نہیں کرے گا، پھر اس نے کسی مردہ سے کلام کیا تو اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی کیونکہ اس کی قسم اس شخص کے متعلق تھی جو سوچ سمجھ کر اس کی بات کا جواب دے اور مردہ اس طرح نہیں ہے۔ (ملا علی قاری فرماتے ہیں) یہ جزیہ اس قاعدہ پر متفرع ہے کہ قسم کی بنا عرف پر ہوتی ہے اور مردہ سے بات کرنے کو عرف میں کلام نہیں کہتے اور اس سے حقیقت میں مردہ کے سننے کی نفی نہیں ہوتی، جس طرح فقہاء نے کہا ہے کہ اگر کوئی شخص یہ قسم کھالے کہ وہ گوشت نہیں کھائے گا تو مچھلی کھانے سے اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو گوشت فرمایا ہے : " وھو الذی سخر البحر لتاکلوا منہ لحما طریا : وہی ہے جس نے تمہارے لیے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ " (النحل :14)

حضرت عمر کی اس حدیث کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر رد کردیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ کس طرح فرما سکتے ہیں کہ تم میرے کلام کو ان (مقتولین بدر) سے زیادہ سننے والے نہیں ہو، جبکہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : آپ مردوں کو نہیں سناتے (النمل :80) اور فرمایا ہے آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں (فاطر :22) ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے، اس کو مسترد کرنا صحیح نہیں ہے خصوصاً اس صورت میں جبکہ اس حدیث اور قرآن مجید کی آیتوں میں کوئی تعارض بھی نہیں کیونکہ مردوں سے مراد قرآن مجید میں کفار ہیں، اور نفی کا حاصل یہ ہے کہ آپ ان کفار کو میرا پیغام سنا کر کوئی نفع نہیں پہنچا سکتے، اور اس آیت میں مطلقاً سنانے کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ اس کی نظری یہ آیت ہے : " صم بکم عمی فہم لا یعقلون : وہ بہرے گونگے اندھے ہیں پس وہ عقل سے کام نہیں لیں گے " (البقرہ :171)

ان کو بہرا، گونگا اور اندھا اس لیے فرمایا کہ وہ کان، زبان اور آنکھوں سے نفع نہیں اٹھاتے تھے۔ اور دوسرا جواب یہ ہے کہ آپ ان کافروں کو ایسا پیغام نہیں سنا سکتے جس سے وہ آپ کے پیغام کو تسلیم اور قبول کرلیں، علامہ بیضاوی نے کہا ہے کہ یہ آیت اور اس کی مثل دوسری آیتوں کا محمل یہ ہے کہ انہوں نے اپنے حواس کو حق بات سننے اور حق کو دیکھنے سے روک لیا تھا، بیشک اللہ جس کو چاہے سناتا ہے اور اس میں ہدایت پیدا کرتا ہے تاکہ وہ اللہ کی آیات میں فہم سے کام لے اور نصیحت حاصل کرے۔ رہی دوسری آیت آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں (فاطر :22) سو اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ کفر پر اصرار کرتے تھے۔ ان کو اس آیت میں مردوں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے ایمان لانے سے مایوس کرنے میں مبالغہ کیا گیا ہے۔ اور اس آیت کی نظیر یہ آیت ہے : " انک لاتھدی من احبب ولکن اللہ یھدی من یشاء : بیشک آپ اس کو ہدایت ایفتہ نہیں بناتے جس کا ہدایت یافتہ ہونا آپ کو پسند ہو لیکن اللہ جو کو چاہتا ہے ہدایت یافتہ بنا دیتا ہے " (القصص :56) ۔ پھر انہوں نے یہ جواب دیا کہ مقتولین بدر کو اپنا کلام سنان، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خصوصیت اور آپ کا معجزہ تھی۔ اور کفار کو زیادہ حسرت زدہ کرنا تھا، میں کہتا ہوں کہ یہ قتادہ کا قول ہے اور یہ جواب اور یہ قول مردود ہے کیونکہ خصوصیت بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہوتی اور وہ یہاں موجود نہیں ہے بلکہ صحابہ کا سوال کرنا اور آپ کا جواب دینا خصوصیت کے منافی ہے اور منکرین سماع موتی پر اس حدیث سے اشکال ہوگا کہ جب لوگ مردہ کو دفن کرکے واپس چلے جاتے ہیں تو وہ کی جوتیوں سے چلنے کی آواز سنتا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 1374 ۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : 932)

اور اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ یہ حدیث دفن کے بعد اول وقت تک کے ساتھ مخصوص ہے تاکہ مردہ منکر نکیر کے سوال کا جواب دے سکے تو یہ جواب اس حدیث سے مردود ہے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ قبرستان میں گئے اور فرمایا السلام علیکم دار قوم مومنین۔ (صحیح مسلم رقم الھدیث : 249 ۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 4304، مرقاۃ المفاتیح، ج 8، ص 11، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان، 1390)

syed imaad ul deen
About the Author: syed imaad ul deen Read More Articles by syed imaad ul deen: 144 Articles with 350606 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.