حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر بن عسقلانی شافعی متوفی 852 ھ
لکھتے ہیں :
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ مردوں کے سننے کا انکار کرتی ہیں اور ان کے علم اور جاننے
کا اعتراف اور اقرار کرتی ہیں، امام بیہقی نے فرمایا علم سماعت کے منافی نہیں ہے
اور آیت کریمہ آپ مردوں کو نہیں سناتے (النمل :40) کا جواب یہ ہے کہ آپ مردوں کو بہ
حیثیت مردہ نہیں سناتے لیکن اللہ تعالیٰ مردوں کو زندہ کردیتا ہے اور وہ سن لیتے
ہیں، جیسا کہ قتادہ نے بیان کیا ہے، اور مقتولین بدر کے سننے کی حدیث صرف حضرت عمر
نے روایت نہیں کی اور نہ اس روایت میں حضرت ابن عمر منفرد ہیں بلکہ اس حدیث کو حضرت
ابو طلحہ نے بھی روایت کیا ہے (صحیح البخاری رقم الحدیث : 3976 ۔ صحیح مسلم رقم
الحدیث : 2875) اور اس کی مثل حدیث کو امام طبرانی نے سند صحیح کے ساتھ روایت کیا
ہے اور اس میں یہ اضافہ ہے کہ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! کیا یہ سنتے ہیں ؟ آپ
نے فرمایا وہ اسی طرح سنتے ہیں جس طرح تم سنتے ہو لیکن وہ جواب دینے پر قادر نہیں
ہیں۔ حافظ عسقلانی نے جس حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : حضرت عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بدر کے کنویں
پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اے کنویں والو ! کیا تم نے اس وعدہ کو سچا پا لیا جو تم سے
تمہارے رب نے کیا تھا، کیونکہ میں نے اس وعدہ کو سچا پا لیا جو مجھ سے میرے رب نے
کیا تھا۔ صحابہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! کیا یہ سن رہے ہیں ؟ آپ نے فرمایا یہ اسی
طرح سن رہے ہیں جس طرح تم سن رہے ہو لیکن یہ آج جواب نہیں دے سکتے ! (المعجم الکبیر
ج 10، رقم الحدیث : 10320 ۔ کتاب السنہ، رقم الحدیث : 884 ۔ نیز امام ابن اسحاق نے
اس حدیث کو حضرت انس سے روایت کیا ہے۔ السیرۃ النبویہ، ج 2، ص 250)
اور نہایت عجیب بات یہ ہے کہ امام ابن اسحاق نے مغازی میں یونس بن بکیر کی سند جید
کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے بھی حضرت ابوطلحہ کی حدیث کی مثل کو روایت کیا
ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ جو کچھ میں کہہ رہا ہوں اس کو تم ان سے زیادہ سننے
والے نہیں ہو۔ (السیرۃ النبویہ ج 2، ص 250)
اس حدیث کو امام احمد نے بھی سند حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔ حافظ عسقلانی نے جس
حدیث کا حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے : امام احمد عروہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ
رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ حکم دیا کہ
مقتولین بدر کو کنویں میں پھینک دیا جائے۔ امیہ بن خلف کے علاوہ سب کو پھینک دیا
گیا کیونکہ وہ اپنی زرہ میں پھول چکا تھا۔ جب ان کو کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول
اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے پاس کھڑے ہو کر فرمایا اے کنویں والو !
کیا تم نے اپنے رب کے اس وعدہ کو سچا پا لیا جو اس نے تم سے کیا تھا ؟ کیونکہ میں
نے اس وعدہ کو سچا پا لیا جو مجھ سے میرے رب ن کیا تھا، آپ کے اصحاب نے کہا یا رسول
اللہ ! کیا آپ مردوں سے باتیں کر رہے ہیں ؟ آپ نے ان سے فرمایا انہوں نے جان لیا ہے
کہ میں نے ان سے جو وعدہ کیا تھا وہ برحق ہے، اور لوگ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے سن
لیا۔ میں نے ان سے جو کہا تھا وہ برحق تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)
نے یہ فرمایا تھا انہوں نے جان لیا۔ (مسند احمد ج 18 رقم الحدیث : 4639، طبع قاہرہ۔
مسند احمد ج 6، ص 276، طبع قدیم، دار الفکر) حافظ ابن حجر نے فرمایا ہے کہ حضرت
عائشہ نے یہ روایت کیا ہے کہ میں جو کچھ کہہ رہا ہوں تم اس کو ان سے زیادہ سننے
والے نہیں ہو، ہم کو مسند احمد میں یہ الفاظ نہیں ملے۔ البتہ امام ابن اسحاق کی
روایت میں یہ الفاظ ہیں، بہرحال حافظ ابن حجر فرماتے ہیں : اگر امام احمد کی یہ
روایت (یا امام ابن اسحاق کی یہ روایت) محفوظ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ حضرت عائشہ
نے اپنے سابق انکار سے رجوع فرما لیا، کیونکہ ان کے نزدیک دیگر صحابہ کی روایت سے
یہ امر ثابت ہوگیا تھا جو اس موقع پر حاضر تھے اور حضرت عائشہ اس موقع پر حاضر نہیں
تھیں۔ امام اسماعیلی نے یہ کہا ہے کہ ہرچند کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فہم اور
ذکاوت اور کثرت روایت اور بحر علم میں غواص ہونے کے لحاط سے تمام صحابہ پر فائق ہیں
لیکن ثقہ اور معتمد صحابہ کی روایت کو اسی وقت مسترد کیا جاسکتا ہے جبکہ اس کا مثل
ثقہ روایت میں اس کے منسوخ یا مخصوص یا محال ہونے کی تصریح ہو۔ اور یہ کیوں کر
ہوسکتا ہے جبکہ جس چیز کا حضرت عائشہ نے انکار کیا ہے اور جس چیز کو دوسرے صحابہ نے
ثابت کیا ہے ان کو جمع کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے " انک
لاتسمع الموتی : آپ مردوں کو نہیں سناتے " (انک لا تسمع الموتی) ۔ یہ اس کے منافی
نہیں کہ وہ اس وقت سن رہے تھے۔ کیونکہ اسماع کا معنی ہے سنانے والے کی آواز کو سامع
تک پہنچانا، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہی ان کو سنایا تھا بایں طور کہ اپنے نبی (صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آواز ان تک پہنچائی۔ رہا حضرت عائشہ کا یہ فرمانا کہ نبی
(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا وہ اب جان رہے ہیں یا ان کو اب علم ہورہا
ہے، تو اگر حضرت عائشہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے خود یہ الفاظ سنے تھے
تو یہ دیگر صحابہ کی اس روایت کے منافی نہیں ہے کہ وہ اب سن رہے ہیں بلکہ اس کی
موید ہے، علامہ سہیلی نے جو اس مقام پر بحث کی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ حدیث خرق
عادت (معجزہ) پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ صحابہ نے کہا کیا آپ مردوں سے کلام کر رہے
ہیں تو آپ نے جواب دیا جو صحابہ کی روایت کے مطابق وہ اب سن رہے ہیں اور حضرت عائشہ
کی روایت کے مطابق ان کو اب علم ہورہا ہے، اور جب مردہ ہونے کی حالت میں ان کا عالم
ہونا جائز ہے تو اس حال میں ان کا سامع ہونا بھی جائز ہے۔ اور یہ سماعت یا ان کے سر
کے کانوں سے تھی یا ان کے دل کے کانوں سے تھی۔ اور دیگر صحابہ کی روایت کو حضرت
عائشہ کی روایت پر اس لیے ترجیح ہے کہ وہ اس موقع پر حاضر تھے اور حضرت عائشہ اس
موقع پر موجود نہ تھیں، حضرت عائشہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے " ما انت بمسمع من
فی القبور : آپ ان کو سنانے والے نہیں ہیں جو قبروں میں ہیں " (فاطر :22) ۔ اور یہ
آیت اس آیت کی مثل ہے افانت تسمع الصم او تہدی العمی : تو کیا آپ بہروں کو سنائیں
گے اور اندھوں کو ہدایت دیں گے (الزخرف :4) ۔ یعنی اللہ تعالیٰ ہی ہدایت دیتا ہے
اور وہی توفیق دیتا ہے اور وہی دلوں کے کانوں تک نصیحت پہنچاتا ہے نہ کہ آپ، اور
مردوں اور بہروں کے ساتھ تشبیہ دینے کے لیے کفار کو مردہ اور بہرہ فرمایا، پس حقیقت
میں اللہ تعالیٰ ہی سناتا ہے جب وہ چاہتا ہے اور حقیقت میں نہ اس کا نبی سنا سکتا
ہے نہ کوئی اور، پس اس آیت سے حضرت عائشہ کے استدلال کا دو وجوہ سے کوئی تعلق نہ
رہا۔ اول یہ کہ یہ آیت کفار کو اہل ایمان کی دعوت دینے کے سلسلہ میں نازل ہوئی ہے
اور ثانی یہ کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے اس چیز کی نفی کی ہے کہ
حقیقت میں وہ سنانے والے نہیں ہیں بلکہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ ہی سنانے والا ہے۔
اور اللہ نے صحیح فرمایا ہے وہی جب چاہتا ہے ان کو سناتا ہے وہ جو چاہے کرتا ہے اور
وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ (الروضۃ الانفس، ج 2، ص 74، مطبوعہ ملتان، فتح البار، ج 7، ص
303، 304، مطبوعہ لاہور، 1401 ھ) |