عزم وحوصلے کی چٹان،عمران خان !
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
1992 میں پاکستانی قوم کے لیئے کرکٹ کا
عالمی کپ جیت کر لانے والے مایہ ناز کرکٹر اور کپتان عمران خان کے نام سے
کون واقف نہیں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں عمران خان کے ناقابل شکست
عزم و حوصلے کی مثالیں دی جاتی ہیں کہ عمران خان نے اپنی خداداد صلاحیتوں،
خود اعتمادی اور مثالی عزم و حوصلے کے بل بوتے پر پاکستان کے لیئے وہ بڑے
بڑے کام کردکھائے ہیں جنہیں کرنا عام طور پر حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے
لیکن آفرین ہے عمران خان پر جس نے قائدانہ صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرتے
ہوئے پاکستانیت کے جذبے سے سرشار ہوکرنہ صرف پاکستان کو کرکٹ کا ورلڈ کپ کا
چیمپئن بنایا بلکہ شوکت خانم میموریل جیسا اعلیٰ درجہ کا فلاحی اسپتال قائم
کرکے ملک بھر کے غریب عوام کو کینسر جیسے موضی مرض کے مہنگے ترین علاج و
معالجے کی سہولت فراہم کرکے وہ کام کیا جسے کئی بار اقتدار میں آنے والے
حکمران نہ کرسکے اسی طرح عمران خان نے نمل یونیورسٹی قائم کرکے اعلیٰ تعلیم
حاصل کرنے کے شائقین طلبہ وطالبات کے لیئے بین الاقوامی معیار کا ایک ایسا
تعلیمی ادارہ قائم کیا جس سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈگری لے کر عملی میدان
میں قدم رکھنے والوں کو ہر جگہ ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا ہے ۔
عمران خان کی جانب سے انجام دیئے جانے والے یہ وہ چند بڑے کارنامے میں
جنہیں پایہ تکمیل تک پہنچانے کا تصور کرتے ہوئے بھی لوگ گھبراتے ہیں لیکن
عمران خان نے اپنے چٹان جیسے عزم وحوصلے اور بلا کی خود اعتمادی کی وجہ سے
ہمیشہ ہر طرح کے چیلنجوں کا جواں مردی سے مقابلہ کیا ہے ۔کھیل اور فلاحی
سرگرمیوں کے بعد عمران خان نے سیاست کے میدان میں آنے کا فیصلہ کیا تو
ابتدا میں انہیں اکثر سیاست دانوں کی جانب سے مذاق کا نشانہ بنایا گیا کہ
ایک کرکٹر کیا سیاست کرے گا ؟ لیکن عمران خان نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا
مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف جیسی انتہائی متحرک اور منظم سیاسی
جماعت قائم کرنے کے بعد پاکستانی سیاست میں نہایت تیزرفتاری سے جگہ بنا کر
تمام ناقدین کے منہ بند کردیے ۔
عمران خان نے جھوٹ ،کرپشن اورمفاد پرستی پر مبنی پاکستان کی روایتی سیاست
کو مسترد کرتے ہوئے اپنے لیئے سچائی اور حب الوطنی پر مبنی ایک مشکل سیاسی
راستے کا انتخاب کیا جس میں انہیں ابتدا میں شدید رکاوٹوں اور پریشانیوں کا
سامنا کرنا پڑا لیکن ہمت نہ ہارنے کی خداداد صلاحیت کے مالک عمران خان نے
اپنے عزم و حوصلے کو بروئے کار لاتے ہوئے مسلسل سیاسی جدوجہد کے ذریعے آخر
کار انتخابی معرکے میں بھی نمایاں کامیابی حاصل کرکے ایک بار پھر اپنے
مخالفین اور ناقدین کو حیرت سے دوچارکردیا اور عمران خان کی پارٹی کو تانگہ
پارٹی قرار دینے والے سیاستدانوں کو منہ کی کھانی پڑی ،ایک کامیاب کرکٹر ،
کامیاب کپتان، کامیاب فلاحی شخصیت کے بعد عمران خان نے خود کو ایک کامیاب
سیاستدان بھی ثابت کردیا یہ الگ بات ہے کہ وہ بھرپور سیاسی جدوجہد ،اعلیٰ
تعلیمی قابلیت ،خدادا د قائدانہ صلاحیت ،پاکستان سے سچی محبت اورانتھک
سیاسی سرگرمیوں کے باوجود اب تک پاکستان کے وزیراعظم نہیں بن پائے لیکن ان
کی عوامی مقبولیت اور سیاسی بصیرت وزیراعظم کے عہدے پر فائز رہنے والے کئی
افراد سے کہیں زیادہ ہے
عمران خان کے جلسے ،جلوس ہوں یا ریکارڈ میکر دھرنے ہر جگہ عوام کا سمندر
امڈ آتا ہے جو اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ پاکستانی عوام عمران خان اور ان
کی قائم کردہ سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف سے والہانہ محبت کرتے ہیں
اور وہ اپنے ووٹ کے ذریعے عمران خان کی پی ٹی آئی کے نمائندوں کو منتخب
کرکے اسمبلیوں میں بھیج کر وہ حقیقی تبدیلی لانا چاہتے ہیں جس کی بات عمران
خان اپنی ہر تقریر اور انٹرویومیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے
پاکستان کی سیاست پر آج بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی مظبوط گرفت کی وجہ سے
عمران خان اپنے جذبے ،خلوص ،مثالی عزم وحوصلے اور انتھک سیاسی جدوجہد کے بل
بوتے پر خیبر پختون خواہ ( KPK)میں پی ٹی آئی کی حکومت بنانے میں کامیابی
حاصل کرنے اور پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو بھرپور ٹف ٹائم دینے کے باوجود
وزیراعظم کا منصب حاصل کرنے میں تاحال ناکام نظر آتے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت جب سے آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آئی ہے اس
پارٹی کی مقبولیت کا گراف نہایت تیزی کے ساتھ نیچے آیا ہے اور PPP جو بھٹو
صاحب اور بے نظیر بھٹو کے دور اقتدار میں پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی
مانی جاتی تھی آج وہ عملاً صرف صوبہ سندھ تک محدود ہوکر رہ گئی ہے کہ پنجاب
میں تو عمران خان کی پی ٹی آئی نے پیپلز پارٹی کی جگہ لے کر پیپلز پارٹی کو
پنجاب میں 440 ووٹ کا جو سیاسی جھٹکا دیا ہے اس کے اثرات سے پیپلز پارٹی
شاید ہی کبھی نکل پائے لیکن چونکہ مسلم لیگ (ن) اور موجودہ پیپلز پارٹی کی
سیاست کا محور سندھ اور پنجاب کے جاگیر دار اور وڈیرے ہیں اور پھر ان دونوں
پارٹیوں کے سربراہوں آصف زرداری اور نوازشریف نے روایتی سیاسی دشمنی کو خیر
باد کہہ کر آپس میں مفاد پرستانہ دوستی کررکھی ہے اس لیئے اب کسی بھی دوسری
سیاسی جماعت کے سربراہ کے لیئے وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنا انتہائی مشکل
ہوچکا ہے ۔
ماضی میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) چونکہ آپس میں سیاسی رسہ
کشی میں مصروف رہا کرتی تھیں اور ایک دوسرے کے زمانہ اقتدار میں ہرطرح کے
ہتھکنڈے اخیتار کرکے اقتدار میں آنے کے لیئے ہمہ وقت تیار رہا کرتی تھیں اس
لیئے کئی بار ان دونوں مذکورہ پارٹیوں کی حکومتیں قبل از وقت ختم ہوگئیں یا
کردی گئیں اور ان دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں کی باہمی چپقلش کی وجہ سے فوج کو
بھی اقتدار میں آنے کا موقع ملا جس کی وجہ سے پاکستان پر ایک طویل عرصہ تک
فوجی حکمرانوں نے حکومت کی اور نظریہ ضرورت کے تحت ضمیر فروش اور مفاد پرست
سیاستدانوں کو عہدے اور مراعات دے کرفوجی حکمران آرام سے حکومت کرتے رہے
لیکن پھر ان دونوں سیاسی پارٹیوں کی اعلیٰ قیادت جن میں محترمہ بے نظیر
بھٹو اور نواز شریف شامل تھے نے پاکستان میں فوج کو اقتدار میں آنے سے
روکنے کے لیئے آپس میں سیاسی صلح کرکے میثاق جمہوریت کے نام سے ایک تاریخی
دستاویز پر دستخط کیئے لیکن اس دستاویز کو بنانے والے سب سے اہم ترین کردار
محترمہ بے نظیر بھٹو کو 27 دسمبر2007 کوایک شاندار عوامی جلسے کے اختتام کے
بعد راولپنڈی کے لیاقت باغ کے باہر فائرنگ کرکے شہید کردیا گیا اور یوں
میثاق جمہوریت کے جو ثمرات پاکستانی قوم کو ملنے چاہیئے تھے وہ نہ مل سکے
کہ پیپلز پارٹی کی قیادت پہلی بار بھٹو خاندان کے ہاتھوں سے نکل کر آصف علی
زرداری کے ہاتھوں میں چلی گئی ۔
آصف علی زرداری کو صدر پاکستان کے عہدے تک پہنچانے کے لیئے نواز شریف نے
اہم ترین کردار ادا کرکے میثاق جمہوریت کے سلسلے کو آگے بڑھایا لیکن چونکہ
بھٹو خاندان اور زرداری کے طرز سیاست اور سوچ میں زمین آسمان کا فرق نمایاں
تھا چنانچہ میثاق جمہوریت کی دستاویز کے مالک بنتے ہی نواز شریف اورآصف
زرداری نے بھٹو صاحب اور بے نظیر بھٹو کی حب الوطنی پر مبنی اصولی سیاست کے
نظریہ کو نیست ونابود کرتے ہوئے مفاد پرستی اورابن الوقتی کی منفی سیاست کا
وہ شرمناک مظاہر ہ پیش کیا جس نے نہ صرف پیپلز پارٹی کی سیاسی ساکھ کو شدید
نقصان پہنچایا بلکہ نواز شریف کو شریف سمجھنے والوں کی امیدوں پر بھی پانی
پھیر دیا ۔
عمران خان کے حوالے سے یہ کالم لکھتے ہوئے نواز شریف اور آصف زرداری کی
سیاست اور میثاق جمہوریت کا مختصر تذکرہ اس لیے کیا گیا تاکہ پاکستان کی
سیاست میں نواز شریف اور آصف زرداری کے ایک دوسرے کے سپورٹر بن جانے کے بعد
جو تبدیلیاں رونما ہوئیں ان کے اثرات کا ادراک کیا جاسکے ۔پاکستان میں
سیاست کرنے والے ہر سیاستدان اور اس کے چاہنے والوں کوزمینی حقائق کا علم
ہونا بہت ضروری ہے کہ بڑی بڑی باتیں اور دعوے کرنے سے کامیابی نہیں ملتی جب
تک کہ پاکستان میں ووٹ حاصل کرکے اقتدار حاصل کرنے کے مراکز کی حمایت حاصل
نہ کی جائے اور ان مراکز میں لوگ باگ امریکہ اور فوج کے بعد جاگیر داروں
اور وڈیروں کے اثرورسوخ کو بہت اہم گردانتے ہیں ۔
عمران خان جیسا سچا اور کھرا پاکستانی لیڈر جو امریکہ کو بھی کھری کھری سنا
دیتا ہے اور جو اﷲ کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتا ،جو اپنے ضمیر کی آواز پر
لبیک کہتے ہوئے ہر وہ بات کہتا ہے جو پاکستانی عوام کے دلوں کی آواز ہے وہ
کرپشن کے خلاف علم بغاوت بلند کرتے ہوئے سر پر کفن باندھ کر اس ملک اور قوم
کو کرپٹ اور مفاد پرست سیاستدانوں سے نجات دینے کا مشکل ترین مشن لے کر
میدان سیاست میں کودا ہے نہ اس کے ساتھ امریکہ ہے نہ فوج اور اسے ان دونوں
میں سے کسی سے کوئی توقع بھی نہیں ہے ہاں البتہ پاکستانی عوام اورملک کی
اعلیٰ ترین عدالت سے وہ بہت امیدیں رکھتا ہے کہ جب کرپٹ ترین حکومت وقت کے
خلاف کوئی بھی جمہوری طریقہ کارگر ثابت نہ ہورہا ہو تو پھر کسی بھی سیاست
دان کے پاس صرف احتجاج کا راستہ ہی باقی بچتا ہے جو عمران خان ایک طویل
عرصہ سے کر رہا ہے لیکن برسراقتدار جماعت کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی
یہی وجہ ہے کہ عمران خان بار بار عوام کو سڑکوں پر لے کر آتا ہے تاکہ
حکمرانوں کو یہ بات بتا سکے کہ ان کی کرپشن کو اگر ساری دنیا بھی بھول جائے
تو عمران خان نہیں بھولے گا اور ساتھ ہی عمران خان یہ جائزمطالبہ بھی کر
تارہتا ہے کہ پانامہ لیکس میں ثابت ہوجانے والی نواز شریف خاندان کی کرپشن
کی وجہ سے نوازشریف اب وزیراعظم کے عہدے کے اہل نہیں رہے لہذا وہ اپنے عہدے
سے فوری طور پر استعفیٰ دیں۔
اعلیٰ قائدانہ صلاحیت ،عمدہ سیاسی بصیرت ،مثالی قابلیت ،حب الوطنی کے جذبہ
،سچائی ،خلوص،ہمت ،محنت ،جدوجہد اورپاکستانی عوام کو کرپٹ سیاستدانوں کے
چنگل سے نکال کر پاکستان کے مسائل کو حل کرکے پاکستان کی ترقی اور استحکام
کے لیئے کام کرنے کے عزائم لے کر میدان سیاست میں کودنے والے عمران خان
اپنے ناقابل شکست ،چٹان جیسے عزم وحوصلے کی وجہ سے بجا طور پر اس بات کا
حقدار ہے کہ اسے پاکستان کا وزیر اعظم بنایا جائے لیکن افسوس ہماری سیاست
پرقابض کرپٹ اور مفاد پرست سیاست دان ایک طویل عرصے سے ایوان اقتدار میں
رہنے کی وجہ سے اتنے زیادہ طاقتور ہوچکے ہیں کہ انہوں نے ملک میں انصاف
اورقانون کی حکمرانی قائم کرنے والے مراکز کے اہم افرادکو بھی اپنی گرفت
میں لیا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ اس ملک کی بنیادوں کو دیمک کی طرح چاٹ کر
کھوکھلا کررہے ہیں اور جب عمران خان ان کرپٹ سیاسی کھلاڑیوں کی بدعنوانی
اور کرپشن کا پردہ چاک کرکے عوامی شعور بیدا رکرنے کے لیئے اپناعیش وآرام
چھوڑ کر صرف عوامی حققوق کی پاسداری کے لیئے انصاف مانگنے کے لیئے سڑکوں پر
نکلتا ہے تو مفاد پرست سیاست دان اور ان کے چیلے ایک سچے اور کھرے پاکستانی
سیاستدان عمران خان کا مذاق اڑاتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ عمران خان ،وزیر
اعظم بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیں ۔۔۔
مفاد پرستی کی سیاست کے علم بردار خواہ کتنے ہی طاقتور اور بااثر کیوں نہ
ہو جب اﷲ کی لاٹھی حرکت میں آتی ہے تو بڑے بڑے فرعونوں کو دھول چٹادیتی ہے
،عمران خان بھی اﷲ کی لاٹھی کے حرکت میں آنے کی امید لے کر متعدد جلسوں
،جلوسوں اور دھرنوں کے بعد 30 ستمبر کو ایک بار پھر باطل سیاسی قوتوں کے
خلاف عوامی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک
بہت بڑا اور تاریخ سازجلسہ عام کرکے یہ دکھا چکا ہے کہ اگر نیت صاف ہو اور
حوصلہ نہ ہارا جائے تو کامیابی ضرور ملتی ہے ۔عمران خان اکیلا تھا اس نے
کسی بھی سیاسی جماعت کا سہارا لیے بغیر ایک کامیاب سولوفلائٹ کرتے ہوئے
عوامی طاقت کا شاندار مظاہر ہ پیش کرکے ایک بار پھر ثابت کردیا کہ بقول
شاعر: مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی ۔۔۔۔30 ستمبر کو نواز شریف کے
گھر کے قریب رائے ونڈ کے مقام پر عمران خان کے کامیاب پاور شو نے ان تمام
سیاسی قوتوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا جو سمجھ رہی تھیں کہ اگر عمران خان
کو تنہا کردیا جائے تو وہ ناکام ہوجائے گا۔
اس مفاد پرست اور کرپشن میں گلے تک ڈوبے ہوئے پاکستانی معاشرے میں عمران
خان جیسے محب وطن ،دلیر،فعال اورقائدانہ صلاحیتوں سے مالا مال سیاست دان کا
میدان سیاست میں اپناوجود برقراررکھتے ہوئے مسلسل سیاسی جدوجہد جاری رکھنا
یہ بات ثابت کرتا ہے کہ ابھی دنیا اچھے لوگوں سے خالی نہیں ہوئی ہے اور جب
تک پاکستانی قوم میں ایمان کی حرارت باقی ہے اس ملک میں عمران خان جیسے
گوہر نایاب پیدا ہوتے رہیں گے ۔ بندے کا کام جدوجہد کرنا ہے جو عمران خان
کر رہا ہے ،کامیابی یا ناکامی دینا اﷲ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے لہذا عمران
خان کو ناکام سیاست دان کہنے والے ہوشیار رہیں کہ اﷲ کی لاٹھی بے آواز ہے
اور جب بھی وہ لاٹھی حرکت میں آئی عمران خان اس ملک کا وزیراعظم ہوگا۔ |
|