کہانی ۔آمنہ نسیم ۔لاہور
سکول میں ہر طرف خوشی کا سماں تھا آج سکول نویں اور دسویں کلاس کے درمیان
میچ ہونا تھاپورے سکول کے بچوں کی زبان پر طلحہ کا نام تھا کیونکہ جب سے
طلحہ اس سکول میں آیا تھا وہی ہر بار میچ جیت رہا تھا ۔میچ سے پہلے طلحہ
اور حامد کا جب آمنا سامنا ہوا تو طلحہ نے مسکراتے ہوئے حامد کو دیکھ کر
کہا ہارنے کے لیے تیار رہو ۔حامد نے بس خاموشی سے دکھا اور کہا ہار جیت اﷲ
تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔
پھر کچھ دیر بعد سکول کے گراونڈ میں یکا یک سب لوگ جمع ہونا شروع ہوگئے ۔استاتذہ
صاحب کے آتے ہی کھیل شرع ہوگیا ۔طلحہ اور حامد کے مابین مقابلہ عروج پر تھا
۔آخرکھیل تقریبا دو گھنٹے تک چلتا ہوا آخری مرحلے میں پہنچ گیا ۔پانچ اسکور
اور دو گیند کی دوری پر حامد کی ٹیم جیت کی دوری پر تھی ۔گراونڈ میں حامد
کے نام کی پکاریں اس کی ہمت بڑھا رہی تھی ۔طلحہ کے ماتھے پرپیسنے کے قطرے
نمودار ہو نا شروع ہوگئے تھے ہمیشہ سے جیت کا تغمہ اپنے سر سجانے والے طلحہ
سے شکست ہوتی برداشت نہ ہورہی تھی اس کے ذہن میں کھیل شروع ہونے سے پہلے
حامد کے کہے ہوئے الفاظ مسلسل گونجنے لگ گئے تھے کہ ـ’’ہار جیت اﷲ تعالی کے
ہاتھ میں ہے ‘‘وہ اسی سوچ میں گم تھا جب سکول کے گراونڈمیں شور برپا ہوگیا۔
اس نے دیکھا کہ سب لوگ حامد کو مبارک باد پیش کر رہے ہیں اس کے والدین بھی
حامد کو گلے لگاتے ہوئے دعائیں دیں رہے ہیں ۔اس کو اب اپنے والدین پر غصہ
آنے لگا گیا وہ وہاں غصے سے اپنی کلاس کے کمرے میں جاکر بیٹھ گیا ۔اورہارنے
کی شرمندگی سے رونے لگ گیا ۔اسی وقت اس کے ماں باپ وہاں آگئے اور طلحہ کو
سمجھنے لگ گئے کہ تمہارے مخالفوں کو تمہاری وجہ سے دفاعی لائن میں ایک
زبردست شگاف مل گیا ہے اور وہ شگاف تم ہی ہو۔
زندگی کی سب سے بڑی حقیقت اعتراف ہے۔ ایمان ایک اعتراف ہے۔ کیونکہ ایمان لا
کر آدمی اپنے مقابلہ میں خدا کی بڑائی کا اقرار کرتا ہے۔ لوگوں کے حقوق کی
ادائیگی اعتراف ہے۔ کیونکہ ان پر عمل کر کے ایک شخص بین انسانی ذمہ داریوں
کا اقرار کرتا ہے۔
بیٹاتم کو حامدکی خوشی میں خوش ہونا چاہیے اور اس کواس کی جیت پر مبارک
آباد دینی چاہیے ۔اعتراف کرنا چاہیے کہ اس نے کھیل اچھا کھیلا ہے ۔اور یہی
اعتراف تمہاری جیت ہوگئی ْ۔اصل خوشی دوسروں کی خوشی میں خوش ہونا ہے ۔
حامد نے اپنی آنکھوں سے آنسو پونچھے اور چلتا ہوا گراونڈمیں بنے سٹیج پر
چڑھتا ہوا حامد کے سامنے جاکھڑا ہوا جہاں پر سب استاتذہ اکرام حا مد کے
ساتھ ساتھ اس کا بھی نام لے کر بلا رہے تھے۔سب سے پہلے اس نے حامد کو مبارک
باد پیش کی۔ پھر مائیک پکڑے حامد کے ساتھ جاکھڑا ہوا وہاں موجود سب لوگ
خاموشی سے اسے سننے لگا ۔
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ پچھلے سالوں سے میں ہی سکول میں جیتتا آرہا ہوں
اور اس بار یہ بازی حامد لے گیا ہے میں اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ حامد
نے اس بار مجھے سے زیادہ اچھا کرکٹ کھیلا ہے اس بار حامداس کھیل کا ’’
چمپین ‘‘ ہے ۔
میں نے آج سیکھا ہے کہ اعتراف تمام ترقیوں کا دروازہ ہے۔ مگر بہت کم ایسا
ہوتا ہے کہ آدمی اپنے آپ کو اعتراف کے لیے آمادہ کرسکے۔ جب بھی ایسا کوئی
موقع آتا ہے تو آدمی اس کو اپنی عزت کا سوال بنا لیتا ہے۔ وہ اپنی غلطی
ماننے کے بجائے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
کہ خرابی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ حتیٰ کہ وہ وقت آ جاتا ہے کہ جس غلطی کا صرف
زبانی اقرار کر لینے سے کام بن رہاتھا اس غلطی کا اسے اپنی بربادی کی قیمت
پر اعتراف کرنا پڑتا ہے۔اور میں بربادی کی کسی قیمتی پر آکر اعتراف نہیں
کرنا چاہتا ہوں۔
بے شک ہار جیت اﷲ کے ہاتھ میں ہے اس نے یہ جملہ بولتے ہوئے حامد کی طرف
دیکھا اور اسی وقت حامد نے طلحہ کی طرف دیکھا تو وہ دونوں مسکرانے لگے
مسکراتے ہوئے طلحہ نے کہا کہ آخری بات جو میں آپ سب کہنا چاہتا ہوں وہ یہ
ہے میں اپنے استاتذہ اپنے ماں باپ اور حامد کا شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھے
اپنے علم و حکمت سے سمجھا کر بتایا کہ غرور و تکبر اور اپنی غلطی پر پردہ
ڈالنے یا ہارنے پر حسد کرنے کی بجائے دوسروں کی خوشی میں خوش ہوکر اپنی ہار
کو جیت بنا کر خوش رہنا چاہیے شکریہ ۔
پورے حال میں تالیوں کی گونج گھوم رہی تھی طلحہ پرسکون ہوکر اپنی ناکامی کو
بھول کر دوبارہ سے کامیابی حاصل کرنے کوشش میں مگن ہوگیا۔طلحہ کا یہی
اعتراف اس کی جیت بن گیا تھا۔ |