فن کی دنیا میں وحید مراد کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا
(Fareed Ashraf Ghazi, Karachi)
(23 نومبر کواداکاروحیدمراد(مرحوم) کی 33ویں برسی کے موقع پر خصوصی تحریر) |
|
پاکستان کے مقبول ترین فلمی ہیرو،لولی ووڈ
کے پہلے سپر اسٹار عظیم اداکار وحید مراد (مرحوم) کا نام فلمی دنیا سے
دلچسپی رکھنے والے کسی بھی فر د کے لیئے تعارف کا محتاج نہیں ہے ،لولی ووڈ
فلم انڈسٹری کی تاریخ وحیدمراد کے تذکرے کے بغیر ادھوری ہی سمجھی جائے گی ۔وحیدمرا
د کے فن وشخصیت پر ان کی زندگی میں بھی بہت کچھ لکھا گیااور مرنے کے بعد
بھی ان کے بارے میں اتنا کچھ لکھاگیااور شائع کیا گیا کہ کم از کم پاکستان
میں ایسی کوئی دوسری مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔بعد ازمرگ مقبولیت کا جو
منفرد ریکارڈ وحیدمرادنے قائم کیااس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ اچھا اور
سچا فنکار کبھی نہیں مرتا ،اس کا کام اس کے نام کو ہمیشہ زندہ رکھتا ہے۔
وحیدمراد سے جومحبت و عقیدت ان کے مداحوں کو تھی اور ہے اس کی نظیر دو
رحاضر میں ملناناممکن ہے۔ وحید مراد کے مداحوں نے وحیدمراد سے اپنی بے لوث
اور سچی محبت کی جو روشن مثال قائم کی ہے اسے ہمیشہ یاد رکھا جائے گااور یہ
حقیقت ہے کہ وحیدمراد کے نام کو ان کے شاندار کام،منفرد اسٹائل اور ان کے
مداحوں کی چاہت نے زندہ رکھاہے ورنہ پاکستان کی فلم انڈسڑی میں کتنے ہی بڑے
فنکار آئے اور کامیاب بھی ہوئے لیکن وہ شہرت کی اس معراج کو نہیں چھو سکے
جووحیدمراد کو ملی۔سنتوش کمار ،درپن ،سلطان راہی،محمدعلی،اقبال حسن
،منورظریف،اسلم پرویز،رنگیلا،ننھااور علی اعجاز جیسے کتنے ہی فنکاروں نے
مقبولیت اورکامیابی حاصل کی لیکن انہیں انتقال کر جانے کے کچھ ہی عرصہ بعد
بھلا دیا گیا جبکہ وحیدمراد کا انتقال 23 نومبر1983 کوہوا تھا اور اب جبکہ
ملک بھر میں 23 نومبر کو ان کی 33 ویں برسی منائی جارہی ہے لیکن اس طویل
عرصہ میں وحیدمراد ہی وہ واحد پاکستانی اداکار ہیں جن کے مداح ان کی برسی
کادن ہر سال مناتے ہیں اور اس موقع پر ان کے لیئے قرآن خوانی کااہتمام کرکے
ایثال ثواب کے لیئے دعا کی جاتی ہے۔
پاکستان کے مایہ ء ناز اداکار وحیدمراد (مرحوم)کے انتقال کو33سال ہوچکے ہیں
لیکن انہیں آج بھی اس طرح یاد کیاجاتا ہے کہ جیسے وہ زندہ ہوں،ان کی شہرت
اور مقبولیت میں وقت گزرنے کے ساتھ کمی نہیں آئی بلکہ بعد از مرگ جو
مقبولیت اور چاہت وحیدمراد کو ملی ،شاید ہی ایسی مقبولیت کسی اور فنکار کو
نصیب ہوئی ہوکم ازکم لولی ووڈ کا کوئی بھی فنکار اس بات کا دعویٰ نہیں
کرسکتا کہ وہ وحیدمراد سے زیادہ مقبول ہے ،وحید مراد کو نہ صرف پاکستان کا
پہلا سپر اسٹار ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ وہ تقریباًًتمام پاکستانی
فنکاروں کے بھی پسندیدہ فنکار ہیں۔
وحیدمراد، 2 ۔اکتوبر1938 بروزبدھ کراچی میں نامور فلمساز ادارے ’’فلم آرٹس
‘‘ کے روح روں فلم پروڈیوسر اور ڈسٹری بیوٹر نثا ر مراد کے گھر پیدا ہوئے
،وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے اس لیئے بچپن سے ہی بہت لاڈلے تھے۔ ان
کے گھرانے کا شمار پاکستان کے بہت امیر اور باعزت خاندانوں میں ہوتا تھاان
کی والدہ شیریں مراد اور والد نثار مراد دونوں ہی وحیدمراد سے بہت زیادہ
پیار کیا کرتے تھے ۔وحیدمراد نے ابتدئی تعلیم کراچی میں صدر کے علاقے میں
واقع مشہور اسکول ’’میری کلاسو‘‘میں حاصل کی اور یہیں سے انہوں نے 1952 میں
میٹرک کا امتحان پاس کیااس کے بعد انہوں نے ایس ایم سائنس کالج سے بی اے
کیااورپھر 1968 میں جامعہ کراچی سے ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔وحیدمراد کی
شادی ایک اعلی ٰ خاندان کی لڑکی سلمیٰ بیگم سے 17 ستمبر 1964 بروز جمعرات
وحیدمراد کی طارق روڈ کراچی میں واقع کوٹھی پر ہوئی اس تقریب کی ایک خاص
بات یہ بھی تھی کہ اس شادی میں اداکار ندیم نے گانے سنائے ،واضح رہے کہ اس
زمانے میں ندیم ادا کار نہیں بنے تھے بلکہ ایک گلوکار کے طور پر شوقیہ گانے
گایا کرتے تھے ۔وحیدمر اد کے دو بچے ہیں ایک بیٹی عالیہ مراد جو23
دسمبر1969 کو پیدا ہوئی اور ایک بیٹا عادل مراد جو13 نومبر 1976 کو پیدا
ہوا۔وحیدمرا د کی بیٹی عالیہ مراد کی شادی 12فروری 1987 کوجناب سید سجاد
حسین شاہ کے ساتھ بخیروخوبی انجام پائی ۔وحیدمراد 1969 تک کراچی میں مقیم
رہے لیکن جب پوری فلم انڈسٹری نے لاہورکو اپنا مرکز بنا لیا تو وحیدمراد
بھی اپنی فیملی کے ہمراہ لاہور شفٹ ہوگئے لیکن انہوں نے کراچی میں بھی دو
فلیٹ’’سدکو ایونیو‘‘ نزد کراچی پریس کلب خرید رکھے تھے جہاں انہوں نے اپنی
زندگی کے آخری دن گزارے۔
وحیدمراد نے اپنے فلمی کیرئیر میں کل 126 فلموں میں کام کیا جن میں زیادہ
تر فلمیں اردو تھیں ان کے کریڈٹ پر پلاٹینم جوبلی،گولڈن جوبلی اور سلور
جوبلی کی بے شمار فلمیں ہیں لیکن انہیں پنجابی فلموں میں بھی کافی پسند کیا
گیا انہوں نے9 پنجابی فلموں میں کام کیااور ایک پنجابی فلم’’مستانہ ماہی‘‘
خود بھی پروڈیوس کی انہوں نے صرف ایک پشتوفلم’’پختون پہ ولایت کنہ‘‘ میں
کام کیا جو درحقیقت وحیدمراد اور آصف خان کی کامیاب اردوفلم’’کالا دھندا
گورے لوگ ‘‘ کا پشتو ورژن تھی۔ان کی ایک فلم’’شبانہ ‘‘ نے ڈائمنڈ جوبلی
منائی۔وحیدمراد کی ذاتی فلم ’’ہیرو‘‘ تکمیل کے آخری مراحل میں تھی کہ فلم
ہیرو کا ہیرو اس دنیا سے چل بسا۔وحیدمراد کی بطور اداکار پہلی
فلم’’اولاد‘‘1962 میں ریلیز ہوئی جبکہ ان کی زندگی میں ریلیز ہونے والی
آخری فلم’’مانگ میری بھر دو‘‘ تھی جو1983 میں ہی ریلیز ہوئی جبکہ دو
فلمیں’’ہیرو‘‘ اور فلم’’زلزلہ‘‘ ان کے انتقا ل کے بعد ریلیز کی گئیں۔فلم
ہیرو11 جنوری 1985 کو ریلیز ہوئی جبکہ فلم زلزلہ3 مارچ 1987 کو ریلیز ہوئی
جبکہ ان کی دو فلمیں مکمل ہونے کے باوجود آج تک ریلیز نہ ہو سکیں جن میں
فلم’’ہم بھی توپڑے ہیں راہوں میں‘‘ اور فلم’’ میرے جیون ساتھی‘‘ شامل
ہیں۔وحیدمراد نے اپنی23 سالہ فلمی زندگی میں عمدہ کردار نگاری پر 32
،ایوارڈ حاصل کیئے جن میں4 نگار ایوارڈ بھی شامل ہیں۔
وحیدمراد کی بطور اداکار پہلی فلم’’اولاد‘‘1962 میں ریلیز ہوئی جبکہ ان کی
زندگی میں ریلیز ہونے والی آخری فلم’’مانگ میری بھر دو‘‘ تھی جو1983 میں ہی
ریلیز ہوئی جبکہ دو فلمیں’’ہیرو‘‘ اور فلم’’زلزلہ‘‘ ان کے انتقا ل کے بعد
ریلیز کی گئیں۔فلم ہیرو11 جنوری 1985 کو ریلیز ہوئی جبکہ فلم زلزلہ3 مارچ
1987 کو ریلیز ہوئی جبکہ ان کی دو فلمیں مکمل ہونے کے باوجود آج تک ریلیز
نہ ہو سکیں جن میں فلم’’ہم بھی توپڑے ہیں راہوں میں‘‘ اور فلم’’ میرے جیون
ساتھی‘‘ شامل ہیں۔
وحیدمرا د کی بطور اداکار پہلی فلم’’اولاد‘‘ تھی اور بطور ہیرو پہلی
فلم’’ہیرا اور پتھر ‘‘ تھی جبکہ ان کی آخری ریلز شدہ فلم ’’زلزلہ ‘‘ تھی جو
ان کے انتقال کے کئی سال بعد ریلیز ہوئی۔انہوں نے اپنے انتقال سے قبل جن
فلموں کی شوٹنگ میں حصہ لیا ان میں ان کی ذاتی فلم’’ہیرو‘‘کے علاوہ بھی کئی
فلمیں شامل تھیں لیکن ان تمام زیرتکمیل فلموں میں سے صرف فلم’’ہیرو ‘‘ ہی
ریلیز ہو سکی اس فلم میں وحیدمراد کی کئی زیرتکمیل ادھوری فلموں کے سین بھی
ڈالے گئے کیونکہ جس وقت وحیدمراد کا انتقال ہوا فلم ’’ہیرو‘‘ کی فلمبندی
مکمل نہیں ہوئی تھی اور ایک گانا اور کچھ سین باقی تھے جن کو فلمانے کا
موقع وحیدمراد کو نہ مل سکا۔فلم ہیرو بھی وحیدمراد کے انتقال کے کئی سال
بعد ریلیز ہوئی اس فلم کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس فلم میں وحیدمراد
کے بیٹے عادل مراد بھی چائیلڈ اسٹار کے طور پر ایک مختصر کردار ادا کرکے
اداکاروں کی فہرست میں شامل ہوگئے ۔
وحیدمراد کی بطور فلمساز اور اداکار نمایاں فنی کارکردگی ،منفرد
اسٹائل،سونگ پکچرائیزیشن اور بے مثال مقبولیت کی وجہ سے ان کو بہت پہلے ہی
پرائیڈآف پرفارمنس مل جانا چاہیئے تھا لیکن ان کے انتقال کو ایک طویل عرصہ
گزر جانے کے بعدسابق صدرپاکستان آصف علی زرداری نے 2010 میں وحیدمراد کوبعد
از مرگ’’ تمغہ امتیاز ‘‘کا اعزاز عطا فرماکروحیدمراد کے لاکھوں مداحوں کا
دیرینہ مطالبہ پورا کرکے ان کے دل جیت لیئے۔یہ ایوارڈ ایک پر وقار تقریب
میں وحیدمراد مرحوم کی بیوہ سلمیٰ مراد نے اس وقت کے صدر پاکستان سے وصول
کیا۔واضح رہے کہ صدر پاکستان کی کرسی پرفائز رہنے والے آصف علی زرداری ماضی
میں ایک فلم’’ سالگرہ ‘‘ میں وحیدمراد کے بچپن کا کردار بھی اداکرچکے ہیں۔
پاکستان کے پہلے سپر اسٹاروحیدمراد کا شمار فلم انڈسڑی کے سب سے زیادہ پڑھے
لکھے اداکاروں میں ہوتا تھا ،انہوں نے پاکستانی فلموں میں اپنے کیرئیر کا
آغاز ایک فلمساز کے طور پر1960 میں کیا اوربطورفلمساز 12 فلمیں پروڈیوس کیں
جن میں سے 4فلموں کی کہانیاں بھی انہوں نے خود تحریر کیں جبکہ اپنی ذاتی
فلم ’’اشارہ ‘‘ کی ہدایتکاری بھی کی اور اسی فلم میں ایک گانا بھی بطور
گلوکار انہوں نے گایا،بطور فلمساز ان کی پہلی فلم’’انسان بدلتا ہے‘‘تھی جس
کے بعد انہوں نے فلم پروڈیوسر کی حیثیت سے اپنی دوسری فلم ’’جب سے دیکھا ہے
تمہیں ‘‘ بنائی اس کے علاوہ وحیدمراد نے بطور فلمساز ایک پنجابی
فلم’’مستانہ ماہی ‘‘ بھی پروڈیوس کی جس کے ہیرو بھی یہ خود ہی تھے ۔گنڈاسہ
کلچر پر مبنی فلموں کے دور میں انہوں نے ایک صاف ستھر ی رومانی پنجابی فلم
’’مستانہ ماہی ‘‘بنا کرفلموں کا ٹرینڈ بدلاان کی پہلی ہی پنجابی فلم نے سپر
ہٹ کامیابی حاصل کرکے ان کو اردو فلموں کے ساتھ ساتھ پنجابی فلمو ں کا بھی
کامیاب اداکار بنا دیا جس کے بعد ان کو متعدد پنجابی فلمو ں میں کاسٹ کیا
گیا۔فلمساز کی حیثیت سے اپنی بنائی ہوئی ابتدائی دونوں فلموں’’فلم جب سے
دیکھا ہے تمہیں اورفلم انسان بدلتا ہے‘‘ میں یہ خود ہیرو نہیں آئے بلکہ
انہوں نے اپنی ان دونوں فلموں میں اداکار درپن کو ہیر و لیا تھا،وہ صرف ان
فلموں کے پروڈیوسر تھے لیکن بطور فلمساز ان دونوں فلموں کی تکمیل کے دوران
انہیں اداکار درپن نے بہت زیادہ پریشان کیا تھا جس کی وجہ سے انہوں نے
فلمساز کی حیثیت سے جب اپنی تیسری فلم ’’ہیرا اور پتھر ‘‘ شروع کی تو اس
فلم کے لیئے انہوں نے کسی دوسرے ہیرو کو کاسٹ کرنے کے لیئے سوچنا شروع کیا
اسی دوران ان کے قریبی دوستوں نے ان کو مشورہ دیا کہ چونکہ وہ خود بھی
اسمارٹ اور خوبصورت ہیں لہذا وہ اس فلم میں خود ہی ہیرو کا کرداراداکریں۔یہ
بات وحیدمراد کے دل کو بھائی اور بطورفلمساز انہوں نے اپنی تیسری فلم
’’ہیرا اور پتھر‘‘میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کافیصلہ کیا اور اس فلم میں
نہ صرف وہ خود ہیرو آئے بلکہ اپنے دوستوں کو بھی اس فلم کے ذریعے فلمی دنیا
میں متعارف کروایاجن میں ہدایتکار پرویز ملک،موسیقار سہیل رانا،نغمہ نگار
مسرور انور،تدوین کار ایم عقیل خان اور کئی نئے فنکارشامل تھے ،فلم
’’ہیرااور پتھر‘‘ کی شاندار کامیابی نے نہ صرف وحیدمراد کو فلمی ہیرو
بناڈالا بلکہ فلم انڈسٹری کو کئی ایسے نامور فنکار دیے جنہوں نے آگے جاکر
بڑا نام اور مقام پیدا کیا۔ 1961 میں وحیدمراد کوہدایتکارایس ایم یوسف نے
اپنی فلم ’’اولاد‘‘ میں ایک اہم رول میں پہلی بار کاسٹ کیا اور یوں بطور
اداکار وحیدمراد کی پہلی فلم ’’اولاد‘‘اگست 1962 میں ریلیز ہوئی اور 50
ہفتے چل کرگولڈن جوبلی کرنے کا اعزازحاصل کیالیکن وحیدمراد کو اصل شہرت اور
کامیابی اپنی ذاتی فلم ’’ہیرا اور پتھر‘‘ سے ملی جس میں انہوں نے پہلی بار
بطور ہیرو کام کیا اور بہت پسند کیئے گئے،یہ فلم4 دسمبر1964 میں ریلیز ہوکر
شاندار کامیابی سے ہمکنا رہوئی اس فلم میں وحیدمراد کی ہیروئن اداکارہ زیبا
تھیں،اس فلم کی کامیابی سے لولی ووڈ کو ایک اسیا اسٹائلش رومانی ہیرو مل
گیا جس نے آگے چل کر پاکستان فلم انڈسٹری کا نام دنیا بھر میں مشہور
کیا۔وحیدمرا د کو پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم’’ارمان‘‘ کا
مصنف،فلمساز اور ہیرو ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے یہ فلم 1965 میں ریلیز
ہوئی اس فلم میں بھی وحیدمراد کی ہیروئن اداکارہ زیبا تھیں۔فلم ہیرا اور
پتھر کے بعد فلم ارمان کی فقیدالمثال کامیابی سے وحیدمراد اور زیبا کی فلمی
جوڑی راتوں رات سپرہٹ ہوگئی اور ان دونوں کا نام ہی فلموں کی کامیابی کی
ضمانت بن گیااور ان دونوں کو متعدد فلموں میں ایک ساتھ کاسٹ کیا گیاجن میں
سے تقریباًً تمام ہی فلمیں کامیابی سے ہمکنار ہوئیں جبکہ انہوں نے متعدد
فلموں میں اداکارہ روزینہ، اداکارہ دیبا اور اداکارہ نشو کے ہمراہ ہیرو کا
کردار ادا کرکے کامیابی بھی حاصل کی لیکن وہ چاہتے تھے کہ کسی ایسی اداکارہ
کے ساتھ اپنی جوڑی بنائیں جو زیبا کا نعم البدل ثابت ہوسکے چنانچہ انہوں نے
بنگلہ دیش (سابقہ مشرقی پاکستان )کی فلموں میں کام کرنے والی ایک اداکارہ
شبنم کو مغربی پاکستان بلاکر اپنی ذاتی فلم ’’سمندر ‘‘ میں اپنے ساتھ بطور
ہیروئن کاسٹ کیااور ان کا یہ تجربہ بہت کامیاب ثابت ہوا فلم سمندر نے بھی
سپر ہٹ کامیابی حاصل کی اور یوں ان کی جوڑی اداکارہ شبنم کے ساتھ بھی ہٹ
ہوگئی جس کے نتیجے میں ان دونوں کی متعدد فلموں نے سپرہٹ کامیابی حاصل کی
جن میں خاص طور پر فلم عندلیب،بندگی،نصیب اپنا اپنااور لاڈلا جیسی فلمیں
شامل ہیں جن کو آج بھی شوق سے دیکھا جاتا ہے۔بہت سے لوگوں کو وحیدمراد نے
انگلی پکڑ کر چلنا سکھایاتھا ،شبنم کو مغربی پاکستان میں وحیدمراد نے ہی
انٹروڈیوس کروایا،پرویز ملک ،سہیل رعنا اور مسرور انورکو فلمی دنیا میں
متعارف کروانے اور بام عروج پر پہچانے والا وحیدمراد اپنے ہی دوستوں کی بے
رخی اور احسان فراموشی کا شکار ہوا تو وہ یہ غم برداشت نہ کرسکااور چونکہ
وہ ایک حساس دل رکھتا تھا اس لیئے وہ بہت زیادہ دلبرداشتہ ہوگیا جس کا اثر
ان کی صحت پر بھی پڑا اوراسی دوران وحیدمراد کے والد نثار مراد کا بھی
انتقال ہوگیا ،وحیدمراد اپنے والد سے بہت پیار کرتے تھے وہ اس صدمے کو
برداشت نہ کرپائے اور شدید ڈپریشن کا شکار ہوگئے جس کی وجہ سے وہ دن بدن
کمزور ہوتے چلے گئے اور آخری دنوں میں اسی ڈپریشن کی وجہ سے ان کے کئی
ایکسیڈینٹ بھی ہوئے جن میں ان کے چہرے پر بھی زخم آئے جن کے علاج اور سرجری
کے لیئے وہ کراچی آئے ہوئے تھے جہاں ان کے ساتھ صرف ان کا بیٹا عادل مراد
موجودتھا جس کی عمر اس وقت صرف 13 سال تھی۔وحیدمراد کی وائف سلمیٰ مراد اور
ان کی بیٹی عالیہ مراد ان دنوں ہوسٹن امریکہ میں مقیم تھیں۔اپنے انتقال سے
چند روز قبل وہ کراچی میں پریس کلب کے قریب’’سدکو ایونیو‘‘ میں واقع اپنے
ذاتی فلیٹ سے اپنی منہ بولی بہن بیگم ممتاز ایوب کے گھر منتقل ہوئے تھے
،انہوں نے انتقال سے 10 دن قبل اپنے بیٹے عادل مراد کی سالگرہ بھی بنائی
تھی جس کے بعد وہ اپنے چہرے پرلگے ہوئے زخموں کی پلاسٹک سرجری کے لیئے سرجن
سے ٹائم لے چکے تھے کہ 23 نومبر 1983 کو وہ کراچی میں اپنی منہ بولی بہن
بیگم ممتاز ایوب کی رہائش گاہ پراچانک انتقال کرگئے اور ان کی وفات کے ساتھ
ہی فلمی دنیا کے ایک سنہری دور کا خاتمہ ہوگیا،ان کے انتقال سے دو ہفتے قبل
کراچی میں راقم الحروف نے ان سے’’ سدکو ایونیو‘‘ نزد کراچی پریس کلب میں
واقع ان کے فلیٹ میں ان سے ملاقات کی تھی جس کے دوران ان کا پرانا ملازم
سکندر بھی موجود تھا اس یادگار ملاقات میں وحیدمراد صاحب کو میں نے اپنے
مضامین اور ان کی تصاویر پرمشتمل ایک البم بھی پیش کی جسے دیکھ کر وہ بہت
خوش ہوئے لیکن مجھے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ وہ وحیدمراد جس کی ایک جھلک
دیکھنے کے لیئے لوگ بے قرار رہتے تھے اور جس کی خوبصورتی اوراسمارٹنس کے
چرچے گھر گھر ہوا کرتے تھے اس ملاقات میں وہ کسی شاندار عمارت کا کھنڈر
دکھائی دے رہا تھا،ڈپریشن اور مایوسی نے وحیدمراد کی خود اعتمادی اور قابل
رشک جوانی کو دیمک کی طرح کھا لیا تھااور میں سمجھتا ہوں کہ یہی مایوسی اور
ڈپریشن لاکھوں فلم بینوں کے پسندیدہ فنکار وحیدمراد کی موت کی وجہ بنا۔
وحیدمراد پاکستانی فلموں کے پہلے ڈانسگ ہیرو اور پہلے سپر اسٹار تھے ان کے
ہئیر اسٹائل ،چال ڈھال،لباس ،لب ولہجے،اداکاری اورخاص طر پر گانوں کی
فلمبندی کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی جس کی وجہ سے ان کے اسٹائل کو نہ صر
ف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی عام لوگوں اور فلمی دنیا کے نامورسپر اسٹارز
نے کاپی کیا۔وحیدمراد پاکستان کے وہ واحد فنکار تھے جن کے مداحوں نے سب سے
پہلے ان سے منسوب ایک فین کلب’’آل پاکستان وحیدی کلب‘‘ قائم کیاکسی بھی
فنکار کے مداحوں کی جانب سے بنایا گیا یہ پاکستا ن کا پہلا فین کلب تھا اس
سے قبل پاکستان میں ایسی کوئی روایت نہیں تھی ،آل پاکستان وحیدی کلب کے
علاوہ ان کے مداحوں نے آل پاکستان پرنس وحیدی کلب اور آل پاکستان وحیدمراد
آرٹ سرکل جیسی فعال ثقافتی تنظیمیں قائم کیں جنہوں نے وحیدمراد کے نام اور
کام کو زندہ رکھنے کے لیئے نمایاں خدمات انجام دیں۔وحیدمراد وہ پہلے
پاکستانی اداکار تھے جن کے نام پرسب سے پہلے کسی روڈ کا نام رکھا گیا
،کراچی میں سابقہ مارسٹن روڈ کا نام بدل کر باقاعدہ سرکاری طور پر
’’وحیدمراد روڈ ‘‘ رکھا گیا۔وحیدمراد وہ واحد پاکستانی اداکار ہیں جنہوں نے
اپنے زمانے کی تقریباًً تمام ہیروئنز کے ساتھ کام کیا بلکہ وحیدمراد کو یہ
منفرد اعزاز بھی حاصل ہے کہ ان کے ساتھ فلموں میں ہیروئن آنے والی اداکارہ
شمیم آراء ،نغمہ اور بہار نے بعد میں کئی فلموں میں وحیدمراد کی ماں کا
کردار بھی اداکیا ۔اداکارہ شمیم آراء نے فلم ’’وقت ‘‘ اور فلم ’’جیواورجینے
دو‘‘ میں اور اداکارہ نغمہ نے فلم’’آواز‘‘ میں وحیدمراد کی ماں کے کردار
ادا کیئے۔وحیدمراد پاکستان کا وہ واحد فلمی ہیرو تھا جس نے کبھی ینگ ٹو
اولڈ کردار ادا نہیں کیا وہ کسی فلم میں کسی کا باپ نہیں بنا وہ فلموں میں
ہیرو بن کر آیا تھا اور ایک ہیرو کے طور پرہی اس فانی دنیا سے رخصت
ہوگیابلکہ اس کے ساتھ کام کرنے والے اداکار محمدعلی اور ندیم کئی فلموں میں
وحیدمرادکے بھائی اور باپ بن کرآئے جن میں خاص طور پر فلم’’آواز‘‘ جس میں
اداکار محمدعلی نے وحیدمراد کے باپ کا کردار اداکیا اور فلم’’جیواور جینے
دو‘‘ جس میں اداکار ندیم نے وحیدمراد کے باپ کا کردار اداکیاجبکہ محمدعلی
نے بہت سی فلموں میں وحیدمراد کے بڑے بھائی کا کردار اداکیا۔وحیدمراد نے
یوں تو بہت سے مرد فنکاروں اور فلمی ہیروئینز کے ساتھ کام کیا لیکن ان کو
سب سے زیادہ اداکار محمدعلی اور اداکار ہ رانی کے ساتھ پسند کیا گیااور ان
دونوں فنکاروں کے ساتھ ریلیز ہونے والی وحیدمراد کی اکثر فلمیں کامیابی سے
ہمکنار ہوئیں۔جس دور میں وحیدمراد فلموں میں کام کیا کرتے تھے اس دور میں
کسی بھی نئی اداکارہ کو فلموں میں انٹرو ڈیوس کروانا ہو تا تو فلمساز اور
ہدایتکار ہمیشہ اس اداکارہ کو سب سے پہلے وحیدمراد کے ساتھ ہی ہیروئن کے
طور پر کاسٹ کیا کرتے تھے جیسے اداکارہ انجمن کو فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ میں
وحیدمراد کی ہیروئن بنا کر متعارف کروایا گیا اور اسی طرح اداکارہ روحی
بانو کو فلم ’’ضمیر‘‘ میں وحید مراد کی ہیروئن بنا کر انٹروڈیوس کروایا گیا
،غیرملکی اداکارہ ثمینہ سنگھ کو فلم ’’ کالا دھندہ گورے لوگ ‘‘ میں
وحیدمراد کی ہیروئن کے کردار میں فلم بینوں سے متعارف کروایا گیا۔اداکارہ
سائرہ کو فلم ’’پھول میرے گلشن کا‘‘ میں وحیدمراد کی ہیروئن بنا کر متعارف
کروایا گیا ،اداکارہ نیلم کوفلم’’بندھن ‘‘ میں وحیدمراد کی ہیروئن بنا کر
منظر عام پر لایا گیا غر ض یہ کہ اس طرح کی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں
کہ جب بھی کسی اداکارہ کو لولی ووڈ میں پہلی بار چانس دیا گیا تو اس کے مد
مقابل ہیرو کے کردار کے لیئے ہمیشہ وحیدمراد کو ہی چنا گیا۔وحیدمراد نے تما
م فلموں میں بطور ہیرو ہی کام کیالیکن صرف ایک فلم ’’شیشے کا گھر‘‘ میں
انہوں نے اداکار شاہد کے مدمقابل’’ ولن‘‘ کا کردار ادا کیا۔وحیدمراد کے
آخری دور کی فلم’’آہٹ ‘‘ وہ واحد فلم ہے جس میں وحیدمراد پر کوئی گانا
پکچرائز نہیں کیاگیا جبکہ ان کی آخری فلم’’ ہیرو ‘‘ وہ واحد فلم ہے جس میں
وحید مراد نے اپنے ایک کردار کو نبھانے کے لیئے اپنے مشہور زمانہ ہئیر
اسٹائل کو تبدیل کرکے بال ماتھے سے اوپر کرکے بنائے۔
وحیدمراد کو ان کے خاندان میں پیار سے سب ’’ویدو‘‘ کہہ کر بلاتے
تھے۔وحیدمراد چٹ پٹے مصالحہ دار کھانے بہت شوق سے کھاتے تھے خاص طور پر
جھینگا،مچھلی اور نہاری ان کے پسندیدہ کھانے تھے جبکہ لہسن کی چٹنی ان کے
دستر خوان کا لازمی حصہ ہوا کرتی تھی ۔وحیدمراد بہت صاف گو اورنفیس انسان
تھے جو ان سے ایک بار مل لیتا وہ ان کا گرویدہ ہوجایا کرتا تھا۔وحیدمراد کی
بیٹی عالیہ مراد اور بیٹا عادل مراد دونوں ہی نے شوبز کی دنیا میں قدم رکھا
لیکن عالیہ مراد لیڈیز کپڑے بنانے والی ایک کمپنی کے اشتہار میں اداکارہ
انیتا ایوب کے ہمراہ ماڈلنگ کرنے کے کچھ ہی عرصہ بعد شادی کرکے شوبز کی
دنیا سے دور چلی گئیں جبکہ عادل مراد نے شوبز کی فیلڈ میں خاصی کامیابی
حاصل کی اور اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے آپ کو منوایا، وہ مقامی ٹی وی
چینل کے ایک مقبول پروگرام’’سچ کا سامنا‘‘ کے ہوسٹ بھی بنے اور ان کے اس
پروگرام نے پسندیدگی کی سند حاصل کی۔کل کا چائیلڈ اسٹارعادل مراد آج ایک
کامیاب اداکاراور پروڈیوسر بن چکا ہے جس کی بنائی ہوئی ٹیلی فلمیں اور ٹی
وی ڈرامے ناظرین میں مقبولیت حاصل کررہے ہیں، پروڈکشن اور ڈائریکشن کے ساتھ
بعض ٹیلی فلموں اور ڈراموں میں عادل مراد نے عمدہ اداکاری کرکے اپنے مداحوں
کا ایک حلقہ بنالیا ہے اس لیئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے مقبول ترین
فلمی ہیرو وحیدمراد کا شروع کیا ہوا سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے کہ عادل مراد
کی شکل میں ایک باصلاحیت پروڈیوسر،ہدایتکار ،ہوسٹ،اور اداکار لولی ووڈ فلم
انڈسٹری اور ٹی وی چینلز پر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پرکامیابی کے سفر پر
گامزن ہے۔
وحیدمراد کا شاندار کام ان کے نام کو فن کی دنیا میں ہمیشہ زندہ رکھے گا کہ
وحید مراد جیسے منفرد،اسٹائلش اور باصلاحیت اداکار صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں
اور صدیوں تک یاد رکھے جاتے ہیں جب تک فن ،فنکار اور فنکاروں کے قدردان
موجود ہیں وحیدمراد کا نام فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ ان جیسا فنکار نہ ان
کے زمانے میں کوئی تھا نہ آج ہے اور نہ ہی آنے والے کل میں پیدا ہوگا جس کا
سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ان کے انتقال کر جانے کے33 برس بعد بھی کوئی دوسرا
پاکستانی فنکار ان جیسی بے مثال اور ریکارڈ ساز مقبولیت حاصل نہیں کرسکا
،بہت سے فنکاروں نے وحیدمراد کے اسٹائل کو کاپی کیا لیکن کوئی بھی وحیدمراد
کی جگہ لینے میں کامیاب نہ ہوسکا کہ بعض لوگوں کے چلے جانے سے جو خلا پیدا
ہوتا ہے وہ کبھی پورا نہیں ہوتا ۔اﷲ تعالیٰ وحیدمراد مرحوم کی مغفرت فرماتے
ہوئے ان کو جنت الفردوس میں جگہ عطافرمائے (آمین) |
|