ہنسنے پر ٹیکس!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
نور محل برقی قمقموں سے جگمگا رہا
تھا، رنگ ونور چار سو بکھرا ہوا تھا، محل کے سامنے وسیع لان میں ایک ٹی وی
پروگرام کا سیٹ تھا، تیز روشنیوں سے آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ سیٹ کو بہاول
پور کی ثقافتی علامتوں سے سجایا گیا تھا، مہمان چار پائیوں پر جلوہ گر تھے،
چار پائیوں پر چولستان کی رنگ برنگے کپڑے سے بنی چادریں بچھی تھیں۔ ایک
لکڑی زمین میں گڑی تھی، جس کی کٹی ہوئی شاخوں پر ہانڈیاں لٹک رہی تھیں، یہ
چولستان کا برتن رکھنے کا خاص طریقہ ہے۔ لکڑی کے ایک سٹینڈ پر گھڑے پڑے تھے،
ایک طرف چرخا رکھا تھا، روٹی کو محفوظ رکھنے کے لئے کھجور کے پتوں کی بنی
چنگیریں بھی رکھی تھیں،ایک جانب ایک ٹوکرا تھا، جس کے قریب ایک سفید رنگ کا
مرغا اور مرغی موجود تھے۔ مہمانوں اور میزبانوں نے بھی اجرکوں سے خود کو
ثقافتی رنگ میں رنگنے کی کوشش کی تھی۔ جھومر شو بھی ہوا، چولستانیوں کے ایک
گروپ نے روایتی رقص بھی پیش کیا، جس میں رقص کے ساتھ منہ سے آگ نکالنے کا
مظاہر ہ کیا جاتا ہے۔ یہ ٹی وی کے لئے ایک شو کی ریکارڈنگ کا منظر تھا، ایک
طرف مہمان تھے تو دوسری طرف ان کے سامنے پروگرام کو قہقہوں سے مزین کرنے کے
لئے مزاحیہ فنکار بھی تیار بیٹھے تھے۔ پروگرام چونکہ کلچر اور میلوں ٹھیلوں
کے بارے میں تھا، اس لئے مزاحیہ فنکاروں میں سے ایک نے جوکر کا روپ دھار
رکھا تھا، دوسرا فوک گلوکار بنا ہوا تھا اور تیسری سرکس میں رسے پر چلنے
والی کے روپ میں تھی۔
پروگرام کے آغاز میں میزبان نے مہمانوں کو مخاطب کرکے کچھ ضروری باتیں کیں،
جن کا تعلق ریکارڈنگ کی تکنیک سے تھا، تاہم ایک خاص بات جو انہوں نے کہی وہ
یہ تھی کہ ’’ہنسنے پر ٹیکس ختم کردیا گیا ہے‘‘۔ گویا پروگرام میں لوگوں کو
کھل کر ہنسنے کی ترغیب دی گئی تھی۔ حقیقت ہے ہنسی تو کہیں کھو گئی ہے، کسی
جگہ چلے جائیں، کسی تقریب میں بیٹھ جائیں، کسی ماحول کو دیکھ لیں، چہروں پر
کشیدگی کے اثرات نمایاں دکھائی دیتے ہیں، پیشانی شکن آلود، آنکھوں میں غصے
کے انگارے اور ناامیدی کی راکھ۔ زبان پر گلے شکوے، بددعائیں، الزامات،
اعتراضات، تنقید۔ دل میں خوف، مرض کا خوف، مالی معاملات کا ڈر، چوری چکاری،
دہشت گردی، غنڈہ گردی کا ڈر۔ مہنگائی، بے روز گاری اور غربت کا غم۔ رشتے
ٹوٹنے اور گھروں میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر دوریوں کی پریشانی۔ کتنے ہی غم
ہیں جنہوں نے انسانوں کو اپنے آہنی شکنجوں میں جکڑ رکھا ہے، انسان ایک سوچ
سے نکلتا ہے تو دوسری ایک مسئلہ اور عذاب کی صورت سامنے کھڑی ہوتی ہے۔
حکومتوں او رسیاستدانوں کے معاملات عوام کے غم وغصے میں مسلسل اضافے کا
موجب ہوتے ہیں۔ حکومتی عیاشیوں پر عوام کا خون کھولتا اور جلتا ہے،
پروٹوکول اور ہٹو بچو کاکلچر عوام کے دلوں پر چھریاں چلاتا ہے، لوٹ مار کی
بھیانک وارداتیں سن کر دل ڈوبنے لگتا ہے۔ چاروں طرف غموں اور پریشانیوں کے
گہرے سائے انسان کو گھیرے رکھتے ہیں۔
ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیں، خبروں کا کوئی منظر، کوئی ٹاک شو دیکھ لیں،
سیاستدان آپس میں دست وگریباں نظر آئیں گے، بظاہر مہذب اور پڑھے لکھے لوگ
ٹاک شو کے آغاز کے ہی چند منٹ برداشت اور تحمل سے کام لیتے ہیں، لگتا ہے،
بہت سلجھی ہوئی اور معقول گفتگو کریں گے، مگر چند ہی منٹ میں کام گرم ہو
جاتا ہے ، پھر ایسا موقع بھی آتا ہے کہ ایک ہی وقت میں کئی مہمان اپنی پوری
قوت سے بول رہے ہوتے ہیں، تین یا چار مہمان تک بھی مسلسل بولتے ہیں، سننے
والا کوئی بھی نہیں ہوتا، کیونکہ میزبان سمیت ناظرین کے پلے بھی کچھ نہیں
پڑتا۔ گویا ٹی وی بھی تفریح اور معلومات کی بجائے لوگوں کے لئے پریشانی کا
موجب ہے، بہت سے لوگوں نے ٹاک شوز دیکھنا ہی ترک کر دیئے ہیں۔ مگر ٹی وی
چینلز پر ایک چیز اب خوش آئند ہے کہ ہر چینل نے ایک یا دو شو ایسے ترتیب دے
لئے ہیں، جن سے عوام کو حقیقی معنوں میں تفریح فراہم ہوتی ہے، ایسے
پروگراموں میں معلومات بھی ہوتی ہیں اور مزاحیہ فنکار بھی اپنے فن سے
ناظرین کو قہقہے لگانے کا موقع فراہم کرتے ہیں۔ ان کی باتیں سن کر کشیدگی
اور بورئیت سے تنے ماتھوں پر چمک آجاتی ہے، انسان کچھ دیر کے لئے خود پر
مسلط ہو جانے والی پریشانیوں کو بھول جاتا ہے، ایسے پروگرام کرنے والے بھی
مبارکباد کے مستحق ہیں اور ان پروگراموں میں لوگوں کو ہنسانے اور ہنسی پر
لگنے والے ٹیکس کو منسوخ کروانے والے بھی لائق تحسین ہیں، یہ فنکار موجودہ
حالات میں غنیمت ہیں، کسی نعمت سے کم نہیں۔ |
|