وہ بال بکھیرے ڈھول کی تھاپ پہ دیوانہ وار رقصاں تھی جانے کیسا
جنوں تھا جوبابا پگڑی شاہ کے مزار پہ آکے اس پہ طاری ہو گیا تھا۔اس کی ماں اس کی
حالت دیکھ کے بدحواس ہو رہی تھی۔جوان جہاں بیٹی ۔اور یہ دیوانہ پن ۔ماں نے ادھر
ادھر نظریں دوڑائیں ا سے اپنا شوہر نیاز لینے والوں کی قطار میں کھڑا نظر آیا۔ڈھول
کی تھاپ رکتے ہی آمنہ کا گھومتا وجود ساکت ہو گیا اور وہ گر گئی۔فاطمہ کی اوپر کی
سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی وہ اس کی طرف لپکی دوپٹے سے بے نیاز وجود ۔دھونکنی
کی طرح چلتی سانس مگر آنکھیں ایک نقطے پہ ساکن ۔فاطمہ نے اس کے سینے پہ دوپٹہ
پھیلایا اور اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ ایک ہاتھ پانی کا گلاس لیے سامنے آن
ٹھہرا فاطمہ نے گلاس تھام کے آمنہ کے لبوں سے لگایا۔آمنہ نے غائب دماغی میں چند
گھونٹ بھرے اس کی آنکھیں ان دو آنکھوں سے ٹکرائیں ۔اور وہیں ٹھہر گئیں ۔فسوں پھونکا
جا چکا تھا کاتب تقدیر مسکرایا ۔یہ کیا ہوا ؟ دنیا ساکت ہو گئی آتش عشق کی چنگاری
بھڑکی ۔نظر ملانے والے نے گھبرا کے نظر چرائی اور پلٹ گیا اس کے قدموں میں برسوں کی
تھکن تھی جھکے کندھے اور جھک گئے۔طلب کی نظر ابھی بھی حیرت زدہ تھی وہ اس کے تھکے
قدموں سے لپٹ گئی جانے والا لڑ کھڑایا پلٹا رکا اور بے بسی سے مڑ گیا۔ لمحہ گذر چکا
تھا سب یوں رواں دواں ہوا گویا کچھ ہوا ہی نہ تھا۔فاطمہ کے جھنجوڑنے پہ آمنہ نے ایک
لمبی سانس کھینچی اور اٹھ بیٹھی ۔پتر کیا ہوا تجھے ؟فاطمہ نے پوچھا۔کک کچھ نئیں زرا
سر بھاری ہو رہا۔ |