گزشتہ ماہ ۲۵/ربیع الاول ۱۴۳۱ھ
مطابق ۱۱/مارچ ۲۰۱۰ء پونے دس بجے شب عقیدہ ختم نبوت کے پاسبان، قافلہ امیر
شریعت کے حدی خواں، دین کے ڈاکوؤں، لٹیروں اور راہزنوں کے لئے تیغ بے نیام
،مرشد العلماء حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری، ان کے بیٹے حافظ محمد
حذیفہ، آپ کے خادم خاص مولانا فخر الزمان اور آپ کے مرید ومعتقد الحاج عبد
الرحمن کو سفاک قاتلوں نے اندھا دھند فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ اور آپ کے
ایک ساتھی مولانا محمد خطیب صاحب کو زخمی کردیا۔
پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے دین اور اہل دین کے خلاف بڑی منصوبہ بندی
سے خفیہ منظم سازشیں ہو رہی ہیں، جس کے نتیجے میں ہر طبقہ، مسلک اور برادری
کے اکابر اہل علم اور قابل فخر ہستیوں کو چن چن کر راستے سے ہٹایا گیا اور
شہید کیا گیا اور اب تک تسلسل کے ساتھ یہ سلسلہ جاری ہے۔
لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ جان لیوا حملے ایسی قد آور شخصیات پر ہورہے ہیں جو
خالص علمی اور اصلاحی خدمات میں مصروف اور اس حوالے سے حلقہ عوام وخواص میں
معروف تھیں۔ پاکستان کی سرزمین پر بلاامتیاز مسلک ومذہب جن اکابر شخصیات
وحضرات کا ناحق خون بہایا گیا ان کی ایک لمبی اور طویل ترین فہرست وجود میں
آچکی ہے، صرف کراچی میں جن اکابر علماء کرام کو شہید کیا گیا ان میں عالم
اسلام کی عظیم اسلامی یونیورسٹی جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے
رئیس حضرت مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اللہ مختار شہید، حضرت مولانا مفتی عبد
السمیع شہید، حکیم العصر حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید، حضرت
مولانا مفتی نظام الدین شامزئی شہید شیخ الحدیث جامعہ علوم اسلامیہ علامہ
بنوری ٹاؤن، حضرت مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید نائب مہتمم اقرأ روضة
الأطفال ٹرسٹ، حضرت مولانا نذیر احمد تونسوی شہیدمبلغ عالمی مجلس تحفظ ختم
نبوت کراچی، جامعہ بنوریہ کے استاذ حدیث حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید،
جامعہ فاروقیہ کے استاذ حدیث حضرت مولانا عنایت اللہ شہید، حضرت مولانا
حمید الرحمن شہید، حضرت مولانا مفتی محمد اقبال شہید، جامعہ انوار القرآن
کے شیخ الحدیث حضرت مولانا انیس الرحمن درخواستی شہیداور اب حضرت مولانا
سعید احمد جلال پوری شہید، مدیر ماہنامہ بینات جامعہ علوم اسلامیہ علامہ
بنوری ٹاؤن وامیر عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کراچی، حضرت مولانا عبد الغفور
ندیم شہید مرکزی راہنما اہلسنت والجماعت کے نام نمایاں ہیں۔ یہ وہ نام ہے
جو نوک قلم پر آگئے۔
اسی طرح بریلوی مسلک کی تنظیم سنی تحریک کے بانی محمد سلیم قادری کو گولیوں
سے بھون ڈالا گیا، اس کے کچھ ہی عرصہ بعد اسی جماعت کے سربراہ محمد عباس
قادری اور اس جماعت کے صف اول کے کئی راہنماؤں کو نشتر پارک کے جلسہ عام
میں بموں سے اڑایا گیا۔ شیعہ برادری کے علامہ حسن ترابی ، اور اسی سال محرم
کے جلوس پر بم حملہ کرکے کئی قیمتی انسانوں کو ضائع کیا گیا، پھر ان کے
چہلم کے جلوس پر خودکش حملہ کیا گیا جس میں کئی لوگ موقع پر جان کی بازی
ہار گئے اور کئی زخمی ہوئے، جب ان زخمیوں کو طبی امداد کے حصول کی خاطر
جناح ہسپتال کی ایمرجنسی وارڈ لے جایا گیا اور کئی افراد انسانی ہمدردی کے
جذبہ کے تحت خون کے عطیات دینے کے لئے جمع ہوئے تو وہاں بم بلاسٹ کر کے کئی
ماؤں اور بہنوں کے سہاگ اجاڑ دیئے گئے۔ یہ سب کاروائیاں بڑی سلیقہ بندی،
منظم سازش اور منصوبہ بندی سے کی گئیں لیکن تاحال کسی کے قاتلوں کو بے نقاب
کیا گیا اور نہ گرفتار کیا گیا اور نہ ہی ان کے قاتلوں کے سراغ لگانے کی
زحمت گوارا کی گئی۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں دین کا کام کرنا،
مخلوق خدا کو دین سے جوڑنا، دین کی بات کرنا اور دینی اقدار کو پروان
چڑھانا جرم بنتا جارہا ہے۔
ہماری دینی قیادت، اکابر علماء کرام ،دانشورانِ قوم اور بااثر حضرات کو
سوچنا چاہیئے کہ اگر بات کسی ایک فرد یا ادارے کی ہوتی تو ہماری بے توجہی
اور لاتعلقی کی شاید کوئی تاویل یا توجیہ ہوسکتی تھی، لیکن یہ سب مکتبہ
فکر، تمام طبقات اور سارے مسلکی حلقوں کا معاملہ ہے۔ اس لئے کہ حاملین دین
پر حملہ خود دین پر حملہ ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ان حادثات و واقعات کے سدباب اور روک تھام کے لئے
مشاورت سے کوئی واضح لائحہ عمل مرتب کیا جائے، تاکہ آئندہ ایسے حادثات کا
اعادہ نہ ہو۔ اگر اب بھی ہم نے وقت کھو دیا اور اس طرح اپنے اکابر کے خون
میں لت پت لاشے اٹھاتے رہے تو دنیائے اسلام اپنے ان علمی سپوتوں اور قوم کی
پیشوائی و راہنمائی کرنے والی عظیم شخصیات سے محروم ہوجائے گی، جس کا نتیجہ
سوائے دین سے محرومی کے اور کچھ نہ ہوگا۔
حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری اور آپ کے رفقاء کی شہادت اگرچہ خود ان
شہداء کے لئے، ان کے اہل خانہ اور اعزہ اقرباء کے لئے ایک اعزاز اور سعادت
ہے، مگر حلقہ اہل علم اور جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کے لئے عظیم
نقصان ہے۔ جب کہ انتظامیہ کے لئے لمحہ فکریہ، مسلمانان پاکستان کے لئے
عموماً اور اہل کراچی کے لئے خصوصاً ایک چیلنج ہے کہ دین دشمنوں کی ریشہ
دوانیاں اس حد تک بڑھ گئی ہیں کہ وہ جب چاہیں، جہاں چاہیں اور جس کو چاہیں
اپنے نشانے پر رکھ لیتے ہیں اور کوئی ان سے بازپرس کرنے والا اوران کو لگام
دینے والا نہیں۔ حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہیداپنی کتاب میں
رقمطراز ہیں: ”دینی ادارے مسلمانوں کے دین وایمان کی بقاء اور حفاظت کے ذمہ
دار ہیں، ان کے دم قدم سے گلشن اسلام کی آبیاری ہوتی ہے اور انہی اداروں نے
ہر دور میں ایسے رجال کار تیار کئے ہیں جنہوں نے کفر کی آنکھوں میں آنکھیں
ڈال کر ان کا مقابلہ کیا اور اپنی جان پر کھیل کر گلستان نبوی کی حفاظت کا
فریضہ سرانجام دیا“۔
انہی دینی اداروں کے تربیت یافتہ وہ علمائے حقانی تھے جنہوں نے انگریز
بہادر کو بستر بوریا لپیٹنے پر مجبور کیا۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی ہو یا شاملی
کا میدان۔ تحریک آزادی ہو یا تحریک ریشمی رومال۔ ۱۹۴۷ء کی تحریک پاکستان ہو
یا ۱۹۵۳ء کا معرکہ، ہر موقع پر ان متوالوں سرفروشوں اور جانبازوں نے داد
شجاعت دی اور موت کو گلے لگایا۔
اسلام دشمن قوتوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ وہ علمائے حق اور علمائے ربانیین
کو ان اوچھے ہتھکنڈوں سے اپنے نصب العین سے نہیں ہٹایا جاسکتا۔
ان رفقاء کی شہادت نے اپنے اخلاف کو عظمت رفتہ کا احساس اور بھولا ہوا سبق
یاد دلایا کہ ہماری تاریخ قید وبند اور جہاد وشہادت سے عبارت تھی، ہمیں
اعلائے کلمة اللہ اور دین کی حفاظت وصیانت کے لئے موت سے ڈرنے کی بجائے موت
کو گلے لگانا چاہئے۔
ان حضرات کا جام شہادت نوش کرنا انشاء اللہ! اسلام دشمن قوتوں کی بربادی کا
پیش خیمہ ثابت ہوگا اور اس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوں گے۔ نئی نسل کو
اسلام بیزار قوتوں کی دین کش سرگرمیوں پر غور وفکر کا موقع ملے گا۔
(اربابِ اقتدار سے کھری کھری باتیں ج:۱،ص:۲۴۲)
افسوس ناک امر یہ ہے کہ حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری اور آپ کے رفقاء
کی شہادت کو ایک مہینہ سے زیادہ دن ہوگئے ہیں لیکن تادم تحریر ملزموں کو
گرفتار نہیں کیا جاسکا، عوام الناس ارباب اقتدار سے یہ پوچھنے کا حق رکھتے
ہیں کہ ایسے کون سے عوامل اور وجوہات ہیں جن کی بنا پر، حکومت، انتظامیہ
اور اس کی ایجنسیاں اس معاملے میں سرد مہری کا مظاہرہ کر رہی ہیں، کیا
سمجھا جائے کہ حکومت، انتظامیہ اور اس کی ایجنسیاں ملزم کی پشت پناہی کررہی
ہیں یا انہیں ان شہید علماء کے جسموں سے بہنے والے لہو سے کوئی دلچسپی
نہیں۔
موجودہ صورتحال سے عوام الناس میں بجا طور پر یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ حکومت
اور انتظامیہ کو اس کیس کی سنگینی کا اندازہ نہیں یا پھر وہ لیت ولعل کے
حربوں سے اسے بھی سرد خانے کی نذر کرنا چاہتی ہے۔
ہم ارباب اقتدار سے گزارش کرنا چاہیں گے کہ اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دہی
اور اس کے قہر وغضب کو سامنے رکھتے ہوئے قاتلوں کو فی الفور گرفتار کر کے
انہیں کیفر کردار تک پہنچائے، تاکہ آئندہ اس قسم کے واقعات کا اعادہ نہ ہو،
اور اگر حکومت نے اپنی روایتی سستی کا مظاہرہ کیا تو وہ خدائی قہروغضب اور
عوامی غم وغصہ اور احتجاج سے نہیں بچ سکے گی۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمد وآلہ واصحابہ اجمعین۔ |