پاکستان کے جنریل اور ہماری قوم

میں اسوقت تیسری جماعت میں اپنے گھر کی قریبی ایک سرکاری اسکول میں پڑھا کرتا تھا۔ میں تعلیم میں تو شاید پورا سورا ہی تھا مگر میری یاد داشت بہت قوی تھی اور میں کافی سوجھ بوجھ رکھتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جنرل ایوب کی آمرانہ اور فوجی حکومت تھی۔ پوری قوم اس جنریل کے گن گاتی تھی ۔ دفاتر میں ، دکانوں میں اور ہمارے اسکول کی دیواروں پر اسکی بڑی بڑی تصاویر آویزاں تھیں اور لوگ اسکی پیر کی طرح پرستش کرتے تھے۔مجھے یاد ہے کہ جب ہمارے ٹیچر نے ہمیں کلاس میں بچوں سے کلاس میں چارٹ لانے کا کہا تو 95فیصد مختلف پوز کی فوجی وردی میں ملبوس جنرل ایوب کی تصاویر ہی تھیں اور میں بھی جنرل ایوب کی ایک بڑی سی تصویر اخبار سے کاٹ کر چارٹ پر چسپاں کرکے اسکے ارد گرد سنہری گوٹا لگا کر لے گیا تھا اور یہ چارٹ بنانے میں میری اماں جی نے میری مدد کی تھی۔ہمیں معلوم نہیں ہوا کرتا تھا کہ مارشل لاء کیا ہوتا ہے۔ ہم تو بس اسے فوجی وردی میں ملبوس دیکھ کر خوش ہوا کرتے تھے۔ مگر میں آ ج یہ بات وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ اس قوم نے جنرل ایوب کو نہ صرف محبت دی بلکہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ لوگ جنرل ایو ب کے دیوانے ہیں۔ اسکی وجہ شاید قوم میں سول حکومت کی اپنی قوم کے مسائل سے عدم توجہی، بے وفائی اور عدم دلچسپی تھی۔ پھر میں نے دیکھا کہ جب محترمہ فاطمہ جناح جو کہ قائد آعظم محمد علی بانی پاکستان کی بہن تھیں وہ 1962ء میں جنرل ایوب کے مقابلے میں انتخابات لڑنے کیلئے مد مقابل ہوئیں تو وہ بری طرح شکست سے دو چار ہوئیں اور وہ جنرل ایوب جو روز بروز اپنے طرز عمل سے اپنی مقبولیت کھو رہا تھا قوم نے اسے انتخابات میں بد دیانتی اور دھاندلی پر نا پسندیدہ قرار دیکر محترمہ فاطمہ جناح کی شکست کا ذمہ دار ٹھہرایا کیونکہ عوام محترمہ فاطمہ جناح سے لگاؤ رکھتے تھے اور قائد اعظم کی بہن ہونے کے ناطے اکثریت نے ووٹ دئے مگر جب لوگوں پر جنرل ایوب کی بے ایمانی آشکار ہوگئی تو لوگوں نے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے اسے کتا کہہ کر مسند سے کھینچ کر ایسا نیچے گرا یا کہ پوری دنیا نے اسکا انجام دیکھا۔ جنرل ایوب نے اپنا استعفیٰ دیکر عنان حکومت جنریل یحییٰ کو سونپ دی۔ شومئی قسمت کہ یہ شخص انتہائی بد کردار، اپنے ایوان میں رنڈیوں کو لاتا تھا، شراب و کباب کی محافل سجا کر ڈانس سے لطف اندوز ہونا اسکا روز مرہ کا شغل تھا شراب کے نشے میں اتنا مدہوش ہو جایا کرتا تھا کہ بعض اوقات اسکا پیشاب تک نکل جایا کرتا تھا ۔ اسکی انہیں سیاہ کاریوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان کا حادثہ رو نما ہوا اس میں کچھ ان سیاستدانوں کا بھی بھیانک کردار تھا جو اسوقت اسکی کابینہ کا حصہ تھے۔جنرل ضیاء الحق نے ذولفقار علی بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر 1977میں مار شل لاء نافذ کر دیا۔ اسنے عوام سے 90روز کے انتخابات کا جھوٹ بول کر گیارہ سال تک اسلام کے نام پر اس ملک کی بساط پر ایسے ایسے کھیل کھیلے کہ پوری قوم اسکی باتوں میں آ کر بے وقوف بنی رہی۔ اسکے دور حکومت میں جماعت اسلامی اور دوسری سلفی جماعتوں نے خوب خوب عیاشیاں کیں وہ ایک خاص مکتبہ فکر سے تعلق رکھتا تھا اور اسنے اپنے پسندیدہ مسلک کے ملاؤں کو خوب خوب نوازا۔ اسنے اسلام کا نام لیکر پاکستان کے عوام اور افواج کو ایک ایسی جنگ میں جھونکا جسکا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ اسنے پاکستا ن میں کلاشنکوف، دہشت گردی، منافرت، مذہبی فرقہ واریت اور ہیروئن کے نشے کو پھیلانے میں مجرمانہ کردار ادا کرتے ہوئے اربوں روپے کمائے اور اپنے ساتھ دوسرے جنریلوں کو بھی خوب خوب نوازا۔ اوجڑی کیمپ کا ڈرامہ رچا کر 1300سے ذیادہ لوگوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد میں موت کے گھاٹ اتارنے میں اپنا سفاکانہ کردار ادا اور ظالمانہ کردار ادا کیا۔ سینکڑوں لوگ اپاہج ہو گئے۔ ان دونوں جڑواں شہروں میں اس افرا تفری میں بے شمار خوبصورت خواتین لا پتہ ہو گئیں جنکا آجتک کچھ پتہ نہ چل سکا۔ ضیاء الحق نے اسلام کے نام پر روس سے افغانستان کی سر زمین پر امریکہ کے کہنے پر نام نہاد جہاد شروع کیا جس میں ہمارے سیکڑوں فوجی شہید ہوئے۔ اس نام نہاد جہاد کا خمیازہ پوری قوم کو تا حال بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جنرل ضیاء الحق نے اسلحے کی خرید فروخت میں اربوں روپے کمائے ۔ ہیروئین کے کارخانے قائم کئے اور پوری یورپین اور مغربی دنیا میں پھیلایا اور خوب خوب پیسہ بنایا مگر کسی کو اتنی جراّ ت نہ ہوئی کہ اسکی اس کرپشن کو آشکار کر سکے۔ یہ شخص بہاولپور کے مقام پر دوسرے جنریلوں کے ساتھ ہوائی جہاز کے حادثے کا شکار ہوکر آگ سے جل مرا۔ اور قوم کو اسکے عذاب سے چھٹکارہ نصیب ہوا۔

جنرل پرویژ مشرف نے 1999ء میں نواز شریف جو کہ جنرل ضیاء الحق کی گود میں انگوٹھا چوستا ہو اسکی انگلی پکڑ کر سیاست کے میدان میں اترااسپر اپنی ہی زمین تنگ کرنے اور جہاز کے اغوا کے سلسلے میں اسکی حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ جنرل پرویژ مشر ف نے نواز شریف کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جو بعد ازاں سعودی عرب کی آشیر واد سے ایک معاہدے پر دستخط کرکے ملک بدر کر دیا گیا۔پاکستان کی قوم اور سیاستدانوں نے مشرف کو خوش آمدید کہا ۔ اسکی کابینہ میں بہت سے سیاستدان آج بھی ایسے ہیں جو مسلم لیگ (ن) اور ق اور اسی طرح دوسری سیاسی جماعتوں میں موجود ہیں کل کے حواری آج جنرل پرویژ مشرف کو الیکٹرانک میڈیا اور اخبارات میں مغلظات بکتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور خوب خوب زہر افشانی کرتے ہیں۔ جب تک ساتھ تھے خوب کھایا پیا اور کرسی کے مزے اڑائے اسکے جائے ہی گرگٹ کی طرح رنگ بدل لیا اور اب اسکے مخالف ہیں۔

جنرل راحیل خاندانی طور پر عسکری جاہ و جلال کے مالک ہیں جو 29نومبر کو اپنے منصب سے سبکدوش ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کو ختم کرنے میں اپنا خوبصورت کردا ر ادا کیا۔ہماری قوم بنیادی طور پر انتہائی جلد باز اور خواہ مخواہ کسی سے بھی بہت ذیادہ امیدیں وابسطہ کرنے والی قوم ہے۔ ہماری قوم کو ان سے بہت سی امیدیں وابسطہ تھیں مگر لوگوں کو نہ صرف مایوسی ہوئی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو کسی طور غلط نہ ہوگا کہ جنرل راحیل شریف انتہائی چابکدست اور اپنی قابلیت اور مہارت کے لحاظ سے بہت ہر دلعزیز واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے پوری قوم کو یہ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ نواز شریف کی ٹیم کا ہی حصہ ہیں جو پنجاب میں اپنے آخری دنوں تک دہشت گردی کے خلاف کوئی واضح پالیسی مرتب نہ کر سکے اور نہ ہی انہوں نے پنجاب میں دہشت گردی کے حوالے سے کوئی اہم اور قابل تعریف کام کئے کیونکہ نواز شریف یہ نہیں چاہتے تھے کہ پنجاب میں دہشت گردی کیخلاف کوئی بڑا آپریشن ہو۔پنجاب میں کھلے عام دہشت گردوں کا چلنا پھرنا ، مدرسوں میں دہشت گردوں کی پنیری اور پھر انکا دوسرے صوبوں میں جا کر کارروائیاں کرنا کسی سے چھپا ہوا نہیں مگر جنرل راحیل شریف نہ جانے کیوں خاموش رہے۔ کھلے عام پھرنے والے دہشت گرد ، انکی مالی امداد، سیاستدانوں کا ان سے گٹھ جوڑ، انتخابات میں ان کالعدم جماعتوں سے امداد لینا ایک سوالیہ نشان ہے۔جبکہ پنجاب کے وزی اعلیٰ کا دہشت گردوں سے کھلے عام یہ کہنا کہ پنجاب میں کچھ مت کرنا ہم تمہیں نہیں چھیڑتے اور ان سے گارنٹی لیکر ملک کے ہزاروں شہریوں اور عسکری اور پولیس کے نوجوانوں کو مروا دیا گیا اور یہ وہ سوالات ہیں جو پوری قوم کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جنرل راحیل شریف نے دہشت گردوں کی مالی امداد کرنے والوں کیخلاف کوئی راست قدم نہیں اٹھایا یہاں تک کہ آرمی کے ہیڈ کوارٹر پر دہشتگردانہ حملے میں بیسیوں عسکری جوان شہید ہوئے اور بہت سے زخمی ہوئے ۔ان دہشت گردوں سے مذاکرات کروانے کیلئے بھی دہشت گرد تنظیم کی مدد لی گئی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔ اسی طرح کرپشن کے ناسور کو ختم کرنے میں جنرل راحیل نے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ جبکہ پوری قوم کی نظریں ان پر لگی ہوئی تھیں۔ جنرل راحیل شریف نے فوج کے کرپٹ افسران کو کرپشن کے الزامات میں پکڑا اور انہیں برطرف کیا مگر انہیں سزائیں کیا دیں یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ جو جنرل راحیل کیلئے ہمیشہ اٹھتا رہیگا۔

اس قوم نے جنرل راحیل شریف کو بہت عزت دی، احترام بخشا، انکی تصاویر ہر جگہ آویزاں کرکے یہ بتایا گیا کہ قوم ان سے کتنا پیار کرتی ہے اور کتنی امیدیں رکھتی ہے ، قوم نے انکی تصاویر اپنے سینے پر آویزاں کرکے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ انکے پسندیدہ جنریل ہیں۔ عوام نے انہیں وہ مقام دیا جو آجتک کسی جنریل کو نہیں ملا، جنرل راحیل شریف کو ہر بات پر لبیک کہا، ہر طرح کی اخلاقی سپورٹ کی، اور اپنے آپکو قربانی کیلئے پیش کیا۔ انکے کاندھے کیساتھ کاندھا ملا کر چلے مگر وہ بھی مصلحتوں کا شکار ہو کر پاکستان کے بدکار، کرپٹ، بد دیانت، لٹیروں اور طاقتور مافیا سے خوفزدہ ہو کر انکے خلاف کچھ نہ کر سکے جو اس قوم کیلئے بہت بڑا المیہ ہوگا۔ قوم تا حال بد حال ہے ، کرپشن اور دہشت گردی کی دلدل میں پھنسی ہوئی قوم جو انہیں اپنا مسیحا قرار دیتی تھی اب مایوسی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب چکی ہے اور اسے کوئی کنارہ نہیں دکھائی دے رہا کیونکہ انکی آخری امید بھی دم توڑ چکی ہے، چراغ بجھ چکے ہیں اور ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے کچھ سجھائی نہیں دے رہا کہ یہ قوم ان خرافات سے کیسے بچ نکلے گی۔ دہشت گردی اور کرپشن نے اس ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کرکے رکھ دیا ہے۔ ملکی معیشت کا قتل کرکے سیاستدان دندناتے پھر رہے ہیں اور اس ملک کی عوام معاشی جنازے کو اپنے کاندھوں پر اٹھائے پھر رہی ہے۔ ماڈل ٹاؤن کے 14معصوم لوگوں کا قتل اوران سے کئے گئے ایفائے عہد کے تقاضے تا حال پورے نہ ہوئے ہیں۔انکا کیا ہوگا کہاں ہیں وہ وعدے؟؟ راحیل شریف کا یہ کہنا کہ ملک نا قابل تسخیر بن چکا ہے تو حقیقت تو یہ ہے کہ ملک داؤ پر لگا ہوا ہے۔ ہر طر ف افراتفری ہے، لوگ انصاف کیلئے دھکے کھاتے پھر رہے ہیں، تعلیم دم توڑ رہی ہے، صحت اپنی آخری سانسیں ہے رہی ہے، قانون کی خرید و فروخت عروج پر ہے، ملک کی لوٹ کھسوٹ جاری ہے، جس ملک میں صرف ایک کلاس محفوظ ہو اور باقی طبقات محرومی کی زندگی سے دوچا ر ہوں بھلا ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ہم نا قابل تسخیر ہیں جو قوم بیمار، جاہل اور لاچار ہوگی اس سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے۔ ملک کو نا قابل تسخیر کہنا ملک کیساتھ ایک بہت بڑا مذاق اور جھوٹ ہے۔ اب جبکہ جنرل راحیل شریف رخصت ہو رہے ہیں تو نہ جانے انکا پیش رو جنریل انکے اس نا قابل تسخیر ملک سے کیا انصاف کرتا ہے۔ اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ بھی اپنی پگڑی کو بچانے میں مصروف رہینگے اور مصلحتوں کا شکار رہینگے یا پھر اس قوم کیلئے کچھ کرینگے۔
Syed Anis Bukhari
About the Author: Syed Anis Bukhari Read More Articles by Syed Anis Bukhari: 136 Articles with 138512 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.