نئے آرمی چیف کی نامزدگی پر وزیراعظم کے فیصلے سے جمہوریت مضبوط ھوگی
(Mian Khalid Jamil, Lahore)
وزیر اعظم میاں نواز شریف نے نئے آرمی چیف
اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کی تقرری کے بارے میں ملک و قوم کے وسیع
مفاد میں اپنے آئینی اختیارات بروئےکار لاتے ھوئےاس حوالے سے فیصلہ جاری
کرکے ملکی سطح پر جاری بحث سمیٹ دی اور بہترین فیصلہ صادر فرمادیا،
وزیراعظم نے ہفتہ کی شام جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف اور جنرل زبیر
محمود حیات کو چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف مقرر کیا اب 29نومبر2016ء کو
آرمی کی کمان کی تبدیلی تک کا تمام عمل مکمل ہو چکا ھوگا ۔ چند ہفتے قبل
سے آرمی چیف کے مستقبل اور نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں قیاس
آرائیوں کا بازار گرم تھا اور روزانہ ٹی وی ٹاکس میں بڑے نامور ’’ اینکر
پرسنز، تجزیہ کار اور دفاعی ماھرین‘‘ نئےآرمی چیف کے نام بارے اپنی اپنی
قیاس آرائیاں کرتے نظر آئےمگر تقریبا تمام اس حوالے سے بڑی خبر دینے میں
ناکام ھی رہے بالآخر وزیر اعظم ہاؤس نے نئی تقرریوں کا اعلان کرکے تمام
تجزیوں کا ستیاناس کردیا یہ بالکل ایسے ھی ھوا جیسے امریکی الیکشن میں تمام
میڈیا کے پنڈت ھیلری کلنٹن کی جیت سو فیصد قرار دے رھے تھے جبکہ نتیجہ
برعکس نکلا اور کئی روز ھیلری کلنٹن کے حق میں مثالیں دینے والوں کی زبانیں
گنگ ھوگئیں اور اب یہ دوسرا موقع ھے کہ تجزیہ کاروں کی اکثریت کے دعوے ٹھس
ھوگئے ۔ اس حوالے سے وزیراعظم نوازشریف نے نہایت ذمہ داری کا ثبوت فراھم
کرتے ھوئے نئے آرمی چیف کی تقرری بارے میں ’’رازداری ‘‘کو برقرار رکھا اس
معاملہ میں جنرل راحیل شریف سے مشاورت نہایت محدود رہی اندازہ ھے کہ اگر
کسی کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں کچھ علم تھا تو وہ صرف اور صرف
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار تھے جنہیں علم تھا جبکہ انکے علاوہ
کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا تھا اور اسحاق ڈار وزیراعظم کے انتہائی
بااعتماد ساتھیوں میں شمار ھوتے ھیں اور سابقہ ساڑھے تین سالہ دور اقتدار
میں انکی پرفارمنس نہایت شاندار رھی اور انہوں نے وزیراعظم کے تمام ٹاسک کو
پورا کردکھایا اور پاکستان کو عدم استحکام کاشکار ھونے سے بچایا، اگر کسی
کو نئے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں کچھ علم تھا تو وہ صرف اور صرف
وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر محمد اسحق ڈار تھے جنہیں علم تھا جبکہ انکے علاوہ
کوئی بھی اس بارے میں نہیں جانتا تھا اور جناب اسحاق ڈار بڑی خوبیوں
اورصلاحیتوں کے مالک ھیں یہ سچے پاکستانی ھیں اور انکے کردار کا اندازہ اس
بات سے بخوبی لگایاجاسکتاھےکہ پاکستان کی اکانومی اقتدار میں آنے کے وقت
حالت زبوں حالی کا شکار تھی اور یہ اک بڑا چیلنج تھا جو میاں نوازشریف نے
اپنے انتخابی منشور میں اکانومی کے حوالے سے قوم سے وعدہ کیاتھا اقتدار
سنبھالا تو زرمبادلہ کے ذخائر فقط صرف چھ ارب ڈالر تھے اور عالمی ادارے بات
تک سننے کیلئے تیار نہیں تھے اس مشکل چیلنج کو جناب اسحاق ڈار نے قبول کیا
اور سخت محنت کی اور عالمی بنک کے نمائندوں کو ٹیبل پر مذاکرات پر آمادہ
کرلیا اور انہیں بھرپور اعتماد میں لینے میں کامیاب ھوئے اور معیشت کی
بہتری کی جانب سفر کا آغاز شروع کردیا یہاں یہ بتانا ضروری ھے کہ اسحاق ڈار
نہایت پرہیزگار اور بزرگان دین سے نہایت متاثر انسان ھیں اور وہ داتا گنج
بخش دربار کمیٹی کے چیئرمین عرصہ دراز سے ھیں انہیں بزرگان دین سے بڑا لگاؤ
ھے اور عرصہ دراز سے وہ گاھے بگاھے داتا دربار آکر تمام امور کی ذاتی طور
پر نگرانی کرتے ھیں داتا دربار توسیعی منصوبے میں انکا قابل قدر کردار
نمایاں ھے شاید یہی وجہ ھے کہ انکو ملک و قوم کی ترقی، خوشحالی کیلئے جو
ٹاسک ملا وہ اس میں کامیاب و کامران ھوتے نظر آئے اور آج یہ وھی پاکستان ھے
جس کی بات تک سننے کیلۓکوئی عالمی مالیاتی ادارہ تیار نہیں تھا اور آج
پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چوبیس ارب ڈالر سے بھی تجاوز کرچکے ھیں اور
کراچی اسٹاک ایکسچینج سمیت ملک بھر کی اسٹاک ایکسچینجز کو یکجان کرنے کی
مربوط پالیسی اسحاق ڈار کی ھی سوچ تھی جسے عملی جامہ پہنایا تو اسقدر فائدہ
مند ثابت ھوا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کا ھنڈرد انڈیکس تینتالیس ھزار
پوائنٹس تک جا پہنچا جو اب مزید نئی سے نئی بلندیوں کو چھوتا بار بار
تاریخی ریکارڈ توڑتا نظر آئیگا، جناب اسحاق ڈار پاکستان مسلح افواج کے
دفاعی بجٹ میں اضافہ چاھتے تھے تاکہ پاکستان کا دفاع توقع سے زیادہ مضبوط
ھو اور انہوں نے پچھلے دو عدد قومی بجٹ میں دفاعی بجٹ بڑھا کر عسکری ادارے
کو مضبوط کرنے میں اھم کردار ادا کیا یوں یہ بھی اک بڑی وجہ سول ملٹری
ریلیشن میں اعتماد اور مضبوطی ثابت ھوتی ھے اور اسکے علاوہ انکی ھی تجاویز
پر گاھے بگاھے بجلی ریٹس میں کمی کے اقدامات اٹھائے گئے اور پٹرول کی
قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرانے میں بھی وہ کامیاب رھے جس سے پبلک کو انکی
امیدوں کیمطابق ریلیف ملا اور اسحاق ڈار کے معاشی انقلاب کی پیش رفت میں
حاصل ھونیوالے فوائد دراصل نوازشریف کے ویژن کی تکمیل اور انکے منشور کی
تکمیل سمیت انکے خود دار، خودمختار، خوشحال پاکستان نعرے کی تعبیر تھے اسکے
علاوہ ھر محاذ پر میاں نوازشریف کی امنگوں پر پورا اترے اور یہ اسحاق ڈار
ھی تھے جو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں واپس لانے میں کامیاب ھوئے اور
نوازشریف کے یہ بااعتماد ساتھی ھونے کیساتھ ساتھ آج انکی شخصیت کے تمام
سیاسی مخالفین بھی معترف ھیں اور اکثر و بیشتر اپوزیشن سمیت تاجران سے
مذاکرات کی کامیابی میں اسحاق ڈار کی کا کردار ھی شامل حال نظر آیا اور
انکی ملک و قوم اور نوازشریف کے قومی ویژن کی تکمیل میں اک بڑا نمایاں مثبت
کردار واضح ھے اور عسکری قیادت کے چناؤ میں بھی اسی بناء پر انکی مشاورت
شامل حال رھی اور خراج تحسین ھے وزیراعظم کیلئے جنہوں نے اس بارے کسی عجلت
یا جلد بازی کا مظاھرہ نہیں کیا اور عین جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے
تین روز قبل نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا
اعلان کردیا ۔ اس حوالے سے آخری وقت تک نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ
چیفس آف سٹاف کمیٹی کے ناموں کے بارے میں کسی کو کانوں کان تک خبر نہیں
ہوئی اور نوازشریف نے پوری قوم کو ایک اچھا سرپرائز دینے میں اھم کردار ادا
کیا اور یہ خوبی صرف جناب اسحاق ڈار میں ھی پائی جاتی ھے کہ پاکستان کی
اکانومی اقتدار میں آنے کے وقت حالت زبوں حالی کا شکار تھی اور یہ اک بڑا
چیلنج تھا جو میاں نوازشریف نے اپنے انتخابی منشور میں اکانومی کے حوالے سے
قوم سے وعدہ کیاتھا اقتدار سنبھالا تو زرمبادلہ کے ذخائر فقط صرف چھ ارب
ڈالر تھے اور عالمی ادارے بات تک سننے کیلئے تیار نہیں تھے اس مشکل چیلنج
کو اسحاق ڈار نے قبول کیا اور سخت محنت کی اور عالمی بنک کے نمائندوں کو
ٹیبل پر مذاکرات پر آمادہ کرلیا اور انہیں بھرپور اعتماد میں لینے میں
کامیاب ھوئے اور معیشت کی بہتری کی جانب سفر کا آغاز شروع کردیا یہاں یہ
بتانا ضروری ھے کہ اسحاق ڈار نہایت پرہیزگار اور بزرگان دین سے نہایت متاثر
انسان ھیں اور وہ داتا گنج بخش دربار کمیٹی کے چیئرمین عرصہ دراز سے ھیں
انہیں بزرگان دین سے بڑا لگاؤ ھے اور عرصی دراز سے وہ گاھے بگاھے داتا
دربار آکر تمام امور کی ذاتی طور پر نگرانی کرتے ھیں داتا دربار توسیعی
منصوبے میں انکا قابل قدر کردار نمایاں ھے شاید یہی وجہ ھے کہ انکو ملک و
قوم کی ترقی، خوشحالی کیلئے جو ٹاسک ملا وہ اس میں کامیاب و کامران ھوئے
اور آج یہ وھی پاکستان ھے جس کی بات سننے کیلۓکوئی عالمی مالیاتی ادارہ بات
سننے کیلئے تیار نہیں تھا اور آج پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر چوبیس ارب
ڈالر سے بھی تجاوز کرچکے ھیں اور کراچی اسٹاک ایکسچینج سمیت ملک بھر کی
اسٹاک ایکسچینجز کو یکجان کرنے کی مربوط پالیسی اسحاق ڈار کی ھی سوچ تھی
جسے عملی جامہ پہنایا تو اسقدر فائدہ مند ثابت ھوا کہ پاکستان اسٹاک
ایکسچینج کس ھنڈرد انڈیکس تینتالیس ھزار پوائنٹس تک جا پہنچا جو اب مزید
نئی سے نئی بلندیوں کو چھوتا بار بار تاریخی ریکارڈ توڑتا نظر آئیگا، جناب
اسحاق ڈار پاکستان مسلح افواج کے دفاعی بجٹ میں اضافہ چاھتے تھے تاکہ
پاکستان کا دفاع توقع سے زیادہ مضبوط ھو اور انہوں نے پچھلے دو عدد قومی
بجٹ میں دفاعی بجٹ بڑھا کر عسکری ادارے کو مضبوط کرنے میں اھم کردار ادا
کیا یوں یہ بھی اک بڑی وجہ سول ملٹری ریلیشن میں اعتماد اور مضبوطی ثابت
ھوئی اور اسکے علاوہ انکی ھی تجاویز پر گاھے بگاھے بجلی ریٹس میں کمی کے
اقدامات اٹھائے گئے اور پٹرول کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کرانے میں
کامیاب رھے جس سے پبلک کو انکی امیدوں کیمطابق ریلیف ملا اور اسحاق ڈار کے
معاشی انقلاب کی پیش رفت میں حاصل ھونیوالے فوائد دراصل نوازشریف کے ویژن
کی تکمیل اور انکے منشور کی تکمیل سمیت انکے خود دار، خودمختار، خوشحال
پاکستان نعرے کی تعبیر تھے اسکے علاوہ ھر محاذ پر میاں نوازشریف کی امنگوں
پر پورا اترے اور یہ اسحاق ڈار ھی تھے جو تحریک انصاف کو قومی اسمبلی میں
واپس لانے میں کامیاب ھوئے اور نوازشریف کے یہ بااعتماد ساتھی ھونے کیساتھ
ساتھ انکی شخصیت کے تمام سیاسی مخالفین بھی معترف ھیں اور اکثر و بیشتر جب
اپوزیشن سمیت تاجران سے ھمیشہ مذاکرات کی کامیابی میں اسحاق ڈار کی کا
کردار ظاھری یا باطنی شامل حال رھتا اور انکی ملک و قوم اور نوازشریف کے
قومی ویژن کی تکمیل میں اک بڑا نمایاں مثبت کردار واضح ھے اور عسکری قیادت
کے چناؤ میں بھی اسی بناء پر انکی مشاورت شامل حال رھی اور خراج تحسین ھے
وزیراعظم کیلئے جنہوں نے اس بارے کسی عجلت یا جلد بازی کا مظاھرہ نہیں کیا
اور عین جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل نئے آرمی چیف اور
چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کا اعلان کردیا ۔ اس حوالے سے آخری
وقت تک نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے ناموں کے
بارے میں کسی کو کانوں کان تک خبر نہیں ہوئی اور نوازشریف نے پوری قوم کو
ایک اچھا سرپرائز دیا وزیر اعظم کی وطن واپسی کے بعد فوری طور دو لیفٹیننٹ
جنرلوں قمر جاوید باجوہ اور زبیر محمود حیات کو جنرل کے عہدے پر ترقی دے کر
علی الترتیب آرمی چیف اور چیئرمین چیفس آف سٹاف کمیٹی تعینات کرنے کی
سمری فوری طور صدر مملکت ممنون حسین کو بھجوا دی گئی اور اس دوران وزیراعظم
محمد نواز شریف بغیر وقت ضائع کئے بغیر خود بھی ایوان صدر پہنچ گئے۔ انہوں
نے صدر ممنون حسین کو نئی عسکری قیادت کی تقرری کے بارے میں اعتماد میں لیا
صدر مملکت نے فوری طور پر سمری پر دستخط کردئیے آئین میں 18ویں ترمیم کی
منظوری کے بعد صدر مملکت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر عمل درآمد کرنے کا پابند
ہوتے ہیں لہذا وزیر اعظم نے ترکمانستان کے دورے سے واپسی پر نئے آرمی چیف
اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کی تقرری میں کوئی دیر نہیں لگائی
کسی کے وہم و گماں میں بھی نہ تھا کہ سینئرترین جرنیل کو چیئرمین جوائنٹ
چیفس آف سٹاف کمیٹی اور بقیہ سینئر جرنیلوں میں سے چوتھے نمبر پر آنیوالے
جرنیل کو پاک آرمی کا چیف نامزد کردیا اور یہاں اک بات کی وضاحت ضروری ھے
کہ جتنے بھی آرمی کے اندر لیفٹیننٹ جنرل ھوتے ھیں وہ تمام اپنی قابلیت کی
بناء پر اس عہدے تک پہنچتے ھیں اور چونکہ تمام لیفٹیننٹ جنرل مساوی اھمیت
کے حامل ھوتے ھیں اسلئے ان میں سے کسی کی بھی نامزدگی کا آئینی اختیار
وزیراعظم کی صوابدید ھے اور نامزد ھونیوالا کسی کیلئے قابل اعتراز نہیں
ھوتا کیونکہ سب مساوی اھمیت کے حامل تصور ھوتے ھیں جبکہ ان میں سے دو عدد
لیفٹیننٹ جنرلز کو فور سٹار بنایا جانا ضروری ھوتا ھے اور باقی تمام
جرنیلوں کی اھمیت کا اندازہ یوں بآسانی لگسیا جاسکتاھے کہ تمام فارمیشن اور
کورکمانڈرز یا جی ایچ کیو کے مختلف شعبہ جات سے منسلک ھوتے ھیں اور انہی کے
اجلاس کو نہایت اھمیت حاصل ھوتی ھے اس لئے یہ تاثر مکمل غلط ھے کہ آرمی چیف
کی نامزدگی میں پسند ناپسند کا کوئی عنصر شامل ھوتاھے کیونکہ تمام عسکری
قیادت کا حصہ ھوتے ھیں اور افسوس کہ اس ملکی دفاعی فیصلوں پر بھی میڈیا میں
فضول بحث کا آغاز نظر آتا ھے جسکی کسی بھی نقطہ نظر سے ضورت نہیں ھوتی کہ
عسکری قیادت کے تمام فیصلے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں باھمی مشاورت سے
آرمی چیف اپنے تمام سینئر ساتھیوں کیساتھ مل کر کرتے ھیں آرمی چیف کبھی کسی
سے ڈکٹیشن نہیں لیتے اور آرمی چیف ھی کورکمانڈرز اجلاس کے بعد سول قیادت کو
اعتماد میں لینے کیلئے آگاہ کرتے ھیں اور یوں یہ اک بہترین آئینی عمل ھے
اور یہی وجہ ھے کہ آج پاکستان میں جہوریت پنپ رھی ھے اور اب آئندہ آمریت
مسلط ھونے کے آثار پیدا نہیں ھوسکیں گے کیونکہ عالمی سطح پر آج پاکستان کا
ایک اچھا امیج بن کر اقوام عالم میں نمایاں ھے جو کہ ملک و قوم کیلئے باعث
عزت و افتخار کا باعث ھے، بات نئی عسکری کمان کے حوالے سے جاری تھی جس میں
لکھے گئے امور بھی رقم کرنا ضروری تھے تاکہ درست فیصلی بارے آگاھی حاصل
ھوسکے، وزیر اعظم جناب میاں نوازشریف نے گذشتہ جمعرات کی شب آرمی چیف جنرل
راحیل شریف کے اعزاز میں میں الوداعی عشائیے کا اہتمام کیا توعشائیہ کے
دوران موسیقی کی روایتی دھنوں کا اہتمام کیا گیا ان دھنوں کا انتخاب موقع
کی مناسنت سے شاندار تھا وزیراعظم محمد نواز شریف اور آرمی چیف جنرل راحیل
شریف نے سازوں سے محفل کو بارونق بنانے والے سازندوں کے پاس جاکر ان کے فن
پر داد بھی دی تقریب کے شرکاء کی مختلف ڈشز سے تواضع کی گئی قبل ازیں وزیر
اعظم ریٹائر ہونے والے چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل راشد محمود
کے اعزاز میں الوداعی ظہرانہ کا اہتمام کر چکے ہیں۔ مرکزی ٹیبل پر جہاں
مسلح افواج کے سربراہان کے بالکل ساتھ جہاں وزیر خزانہ و اقتصادی
امورسینیٹر محمد اسحقٰ ڈار کو بٹھایا گیا وہاں چاروں سینئر جرنیلوں زبیر
محمود حیات‘ اشفاق ندیم احمد‘ جاوید اقبال رمدے اور قمر جاوید باجوہ کو بھی
مرکزی ٹیبل پر بٹھایا گیا وزیر اعظم نے اس اہم تقریب میں اپنے طرز عمل یا
گفتگو سے نئے آرمی چیف اور چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے بارے
کوئی اشارہ نہیں دیا اور مرکزی ٹیبل پر تمام جرنیل وزیر اعظم سے کافی دیر
تک خوش گپیوں میں مصروف رہے لیکن کسی کو بھی فیصلے کا علم تک نہیں تھا کہ
ٹھیک دو روز بعد کسے آرمی چیف بنایا جارہا ہے؟ تاہم ایک دو اینکر پرسنز کا
دعویٰ کہ انہیں جنرل قمر جاوید باجوہ کو آرمی چیف بنانے کا فیصلہ بہت پہلے
کر لیا گیا تھا ۔ تقریب کے اس موقع پر وزیراعظم نواز شریف اور آرمی چیف کے
درمیان ون آن ون ملاقات بھی ہوئی عشائیہ تقریب کے بعد جب آرمی چیف جنرل
راحیل شریف رخصت ہونے لگے تو وزیر اعظم نے پروٹوکول کی پروا کئے بغیر ان کو
گاڑی پر الوداع کہا۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کی نئے آرمی چیف کے طور پر
تقرری اس سال کی سب سے بڑی خبر ہے کسی بھی جمہوری ملک میں فوج کے سربراہ کی
ریٹائرمنٹ غیر معمولی بات نہیں لیکن پاکستان کے مخصو ص حالات کے پیش نظر
آرمی چیف کی’’ تقرری اور ریٹائرمنٹ ‘‘ ایک بڑی خبر تصور کی جاتی ہے جب سے
جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنی مدت ملازمت میں ایک ’’ٹرم‘‘ کی توسیع لی تو
اسے ’’نظیر ‘‘ بنانے کے لئے پورے ملک میں ایک ماحول بنانے کی شعوری کوشش کی
گئی رواں سال کے اوائل میں جنرل راحیل شریف کے مقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ کے
اعلان کے باوجود ان کو مختلف حلقوں بالخصوص حکومت اور فوج کے درمیان فاصلے
پیدا کرنے کے خواہش مند عناصر نے ’’جانے کی باتیں جانے دو‘‘ کے بینر لگا کر
ان کو فیصلہ تبدیل کرانے کی ترغیب دی اور شنید ہے وزیر اعظم پاک بھارت
سرحدوں پر کشیدگی اور نامکمل ضرب عضب کے پیش نظر موجودہ آرمی چیف کی خدمات
مزید ایک سال کے لئے حاصل کرنا چاہتے تھے لیکن تمام اندازے اور قیاس
آرائیاں غلط ثابت ھوئیں۔ آرمی چیف نے مقررہ وقت پر ریٹائرمنٹ لینے کے
اعلان کی پاسداری کرتے ہوئے ’’ باوقار ‘‘ طریقے سے ریٹائرمنٹ کو ترجیح دی
وزیر اعظم محمد نواز شریف جہاun pridictable سیاست دان ہیں وہاں ان کا ماضی
میں فوج کے سربراہوں سے تعلقات کار کا ریکارڈ اچھا نہیں رہا البتہ جنرل
راحیل شریف واحد آرمی چیف ھیں جنکے ساتھ وزیراعظم کی قربت قائم رہی اور
پچھلے تین سال کے دوران دونوں کے درمیان50سے زائد ملاقاتیں ریکارڈ ہیں۔ اس
دوران نوازشریف حکومت گرانے کی ناکام کوششیں کی جاتی رہیں عمران خان بار
بار ’’ تھرڈ امپائر‘‘ کی انگلی اٹھنے کے منتظر رہے، جنرل راحیل شریف سے
مداخلت کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن تھرڈ امپائر کی انگلی اٹھی اور نہ ہی
جمہوری نظام کو لپیٹنے کی ترغیبات کو پذیرائی حاصل ہوئی جنرل راحیل شریف نے
اپنے عمل سے جہاں جمہوریت کے خلاف سازشوں کو ناکام بنا دیا اس لحاظ سے جنرل
راحیل شریف کو کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نے حکومت کی کسی کمزوری سے فائدہ
نہیں اٹھایاعمران خان کے ناکام ’’سیاسی ایڈونچرز ‘‘ نے وزیراعظم کو مضبوط
بنا دیا ہے شیخ رشید احمد تو اپنا منہ چھپائے پھر رہے ہیں ان کی تمام
پیشگوئیاں غلط ثابت ہو رہی ہیں جنرل قمر جاوید باجوہ کے دوسری جماعت سے
کلاس فیلو خلیل نون نے بتایا ہے کہ جنرل باجوہ بے پناہ صلاحیتوں کے مالک
ہیں وہ سرتاپا ایک سپاہی ہیں وہ فوج کا مورال بلند کریں گے وزیراعظم نے
جنرل باجوہ کو آرمی چیف بنایا ہے توقع ہے کہ وہ نئے آرمی چیف کے ساتھ
ایزی محسوس کریں گے حکومت اور فوج ایک ’’صفحہ‘‘ پر ہو گی جنرل باجوہ فوج کی
طرف دیکھنے والوں کو مایوس کریں گے اور اپنے عمل سے جمہوریت کو مضبوط
بنائیں گے |
|