ارکان ِ اسمبلی کی حکومتی سطح پر غریب پروری

 ایک روایت کے مطابق خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا ’’ بطور خلیفہ میری ماہانہ تنخواہ اُتنی ہوگی جتنی مدینہ کے ایک محنت کش کی ہوگی۔اگر میرا اور میرے بال بچوں کا اس تنخواہ میں گزارہ نہ ہوسکا تو میں مدینہ کے محنت کش کی تنخواہ بڑھا دوں گا‘‘ مگر وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان میں جمہوریت کی چھتری تلے عوام کے ساتھ جوسلوک روا رکھا جاتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواوں میں جس تناسب سے اضافہ کیا جاتا ہے ۔اس فراخدلی اور ٖفیاضی پر حاتم طائی کی روح بھی تڑپ کر رہ جاتی ہے۔مہنگائی اور بے روزگاری نے عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے۔پاکستانی قوم کا حال یہ ہے کہ غریب کو اپنی جان اور روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں اوروہ اسی پریشانی میں ہی گھومتے پھر رہے ہیں۔ حکمرانو ں نے اس قوم کو روٹی روزی کے حصول کی جدوجہد میں اس حد تک پھانس کر رکھ دیا ہے کہ عوام کو کوئی دوسرا خیال آنے ہی نہیں دے رہے۔فیکٹریوں ،کارخانوں میں کام کرنے والے مزدور 12سے 18گھنٹے کام کے بعد معاشی تنگدستی کا شکار ہیں۔ ان کو اپنے گھروالوں کے لیے روٹی روزی کے حصول کی کوششیں اور بھوک اور افلاس میں گھری صورتحال ہی سر اٹھانے نہیں دیتی۔بھوک وافلاس کی ماری قوم ذہنی غلام بن چکی ہے۔جس میں غلامی سے آزادی کی حس ہی نہیں رہی۔یہی وجہ ہے کہ اسی چیز کو دیکھتے ہوئے حکمران طبقہ تمام تر عوامی احتجاج اور سنگین صورتحال کو بالائے طاق رکھتے ہوئے چین کی بانسری بجا رہاہے اور حلوہ کھانے میں مگن ہے۔انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ ہماری ذمہ داری کیا ہے اور رعایا ہم سے کیا چاہتی ہے؟ ان حالات میں ارکان ِ اسمبلی اور وزراء کی تنخواوں میں اضافے کو عوام کس نظر سے دیکھتی ہے ۔اس سلسلے میں محترم جناب ڈاکٹر ایم ایچ بابر صاحب کا مراسلہ موصول ہوا ۔ ڈاکٹر ایم ایچ بابر صاحب لکھتے ہیں مکرمی و محترمی جناب رشید احمد نعیم صاحب !دو دن پہلے یہ خبر اچانک نظر سے گزری کہ حکومت نے خط افلاس سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے والے’’ بیچارے لاچار و مجبور وزراء اور غرباء ممبران پارلیمنٹ‘‘ کی تنخواہوں میں اضافہ کر کے دکھی انسانیت کی گراں قدر خدمات سر انجام دی ہیں۔ اس حکومتی اقدام سے ملک میں بسنے والے کروڑوں’’ جھگی نشین رؤساء ‘‘اور’’ بے روزگار امراء ‘‘کی’’ خوشی قابل دید‘‘ ہے کہ چلیں حکومت کو کوئی تو ایسی نیکی کرنے کی اﷲ پاک نے توفیق دی ۔دیکھنے والی بات یہ ہے کہ کچھ’’ جمہوریت کش‘‘ لوگ جن کو اس خوبصورت نظام سے خدا واسطے کا بیر ہے بلا وجہ شور ڈالتے رہتے ہیں کہ حکومت غریبوں کا خیال نہیں رکھتی۔ بھلا عام مزدور کو پورے چودہ ہزار ماہانہ کیا کم ہیں ؟مفت میں غربت کا راگ الاپتے رہتے ہیں اور اوپر سے ان لوگوں کے بچے بھی تو کماتے ہیں۔کوئی کسی چائے والے کے برتن دھو کر دو سو روپیہ یومیہ لے رہا ہے۔ کوئی گلے میں بیگ ڈالے سڑکوں پر لوگوں کے بوٹ پالش کر کے دو سے تین سو دیہاڑی لے آتا ہے ۔کسی کا بچہ ورکشاپ سے استاد سے مار کھا کر ڈیلی سو پچاس لانے کے ساتھ ساتھ ایک ہنر مند بھی تو بن رہا ہے۔ پھر یہ غربت غربت کا ماتم کیوں کر رہے ہیں؟ اصلی غریب تو اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں بیچاروں کی گردن پر وزارت کا بوجھ بھی ہے۔ اپنے ناتواں کندھوں پہ جاگیر داری کی مزدوری کاوزن بھی اٹھائے پھر رہے ہیں اور کچھ لوگ تو اتنے غریب بھی اسمبلیوں میں بیٹھے ہیں جن پر کئی کئی فیکٹر یوں اور ملوں کی ملکیت کا اضافی بوجھ بھی ہے۔ اندرون اور بیرون ملک پھیلے ہوئے بزنس نے بھی ان کی کمر توڑ رکھی ہے ۔کس قدر غربت کی چکی میں پس رہے ہیں یہ وزراء اور ممبران پارلیمنٹ۔۔۔ اس بات کا احساس ہی نہیں پاکستان کی’’ رئیس عوام‘‘ کو۔۔۔ ان کی تو عادت بن چکی ہے شور مچانے کی۔ حکومت’’ غریب وزراء ‘‘ اور ’’مسکین ممبران‘‘ کی تنخواہوں کو بڑھا کر اس شور کو آف کرنا چاہتی ہے مگر یہ آف شور آف شور کر کے دراصل شور کو آن کر رہے ہیں اب دیکھیں ! اگر کسی وزیر کی ماہانہ تنخواہ پونے تین لاکھ روپے یا اڑھائی لاکھ روپے کر دی گئی ہے تو وہ بھی بہت کم ہے۔ ان مساکین کے اخراجات تو دیکھے عوام۔ پھر شور مچاتی ہوئی بھی اچھی لگے۔ ہماری عوام کو اگریہ معلوم ہو جائے کہ بیچارے وزراء کس قدر کسمپرسی میں زندگی گزار رہے ہیں تو یہ لوگ اپنی چودہ ہزار کی بیش بہا تنخواہ میں سے بطور عطیہ کچھ رقم ان معزز ممبران کی امدادکرنے پر مجبور ہو جائیں گے ان لوگوں کی امداد کرنا ہماری عوام کو اپنا قومی اور ملی فریضہ لگنے لگے گا ۔اس عوام کو ابھی معلوم ہی نہیں کہ’’ غرباء پارلیمنٹ‘‘ کتنی مشکل سے اپنی روٹی روزی چلا رہے ہیں بلکہ اس نیک کام کے کرنے پر حکومت کو داد تحسین پیش کرنا چاہئے کہ اس گورنمنٹ نے یہ اقدام اٹھا کر کتنا کار ثواب سر انجام دے ڈالا ہے ۔آفرین آفرین آفرین ۔ایک طرف وہ ’’ امراء ‘‘پاکستان میں آباد ہیں جن کا چار چار دن چولہا فریج کی طرح ٹھنڈا رہتا ہے۔ بھوک سے جن کے ہونٹ صحرائے چو لستان کا منظر پیش کرتے ہیں۔ جن کی بیٹی جوان ہو جائے تو جہیز کی لعنت پاس نہ ہونے کی وجہ سے وہ پیا گھر سدھارنے کی بجائے بالوں میں چاندی سجائے موت کی سیج پر بیٹھ جاتی ہے ۔خود کشی کی شہنائیوں کی گونج میں ان لوگوں کے بچے سرکاری سکولوں میں عیش سے پڑھتے ہیں۔ فیس کی مد میں بھی ماہانہ صرف بیس روہے تو دینے پڑتے ہیں۔ کتابیں گورنمنٹ مفت دیتی ہے۔ اگر بیمار ہو جائیں تو سرکاری اسپتالوں میں جا کر پانچ روپے کی پرچی پر اپنا علاج کروا لیتے ہیں۔ انکو کون سا بیرون ملک جا کر علاج کی کوفت اٹھانی پڑتی ہے۔ چودہ ہزار ماہانہ کیا کم ہیں ان کے لیئے؟؟؟ آخر ان کے خرچے ہی کیا ہیں؟؟ ؟اگر انکی بیٹی کی شادی ہو بھی جائے تو دس بیس لوگ برات میں آتے ہیں ۔ ان پر کون سا خرچہ کرنا پڑتا ہے؟ اگر کہیں قسمت کی ستم ظریفی سے انکی کوئی بیٹی یا ان کا کوئی بیٹا پڑھ لکھ جائے تو کیا ضرورت ہے انکو سرکاری ملازمت کی؟ کسی فیکٹری یا مل میں جا کر کسی’’ بیچارے غریب وزیر‘‘ یا ممبر پارلیمنٹ کی ’’غربت‘‘ دور کرنے کے لیئے وہاں جا کران کاہاتھ کیوں نہیں بٹاتے؟؟ پاکستان بھر میں سوائے اسمبلیوں کے ہر جگہ رئیس اور امیر ہی تو رہتے ہیں۔ صرف غربت کی چکی میں پس رہے ہیں تو لاچار و مجبور وزراء اور ممبران۔ انکی غریب پروری پوری قوم کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ پھر یہ لوگ کیوں اپنے فرض کے احساس سے عاری ہیں ؟ وزراء تو بیچارے اتنے مجبور ہیں کہ دو سے اڑھائی لاکھ کی قلیل تنخواہ میں سے ان کے پاس اتنے پیسے نہیں بچتے کہ بیچارے اسمبلی کے اجلاسوں میں ہی شرکت کر سکیں ۔بھائی انکے پاس اسلام آباد پہنچنے کا کرایہ تک تو بچتا نہیں کیسے کریں وہ اجلاسوں میں شرکت ؟اسمبلی کے ہونے والے اجلاسوں میں انکی حاضری انکی غربت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ 289 اجلاسوں میں کوئی 64 بار پہنچا کوئی 56 کوئی 53کوئی 48اور ایک وزیر پر تو اتنی غربت چھائی ہوئی تھی کہ وہ مسکین صرف 28بار اجلاسوں میں شرکت کے قابل ہو ا ۔اتنی قلیل تنخواہ میں وہ موصوف کس طرح شرکت کرتا اجلاسوں میں ؟یہ امیر قوم اتنا بھی نہیں سوچتی کہ ہم نے ان بیچاروں، غربت کے ماروں، قوم کے دلاروں پر کوئی رحم بھی کرنا ہے۔ اسی واسطے تو چاروناچار حکومت کو ہی ان کی غربت کا احساس ہوا۔ ہماری رئیس عوام سیدھے طریقے سے ان وزراء اور ممبران کی مدد نہیں کرتی اسی لئے اس امیر قوم سے چھپی ہوئی دولت نکلوانے کے لئے ایک ٹافی سے لیکر تمام اشیاء خوردنی پر ٹیکس کی صورت میں’’ چندہ برائے غرباء اسمبلی‘‘ لگا دیا گیا ہے۔ بجلی گیس اور پانی کے بلوں پر بھی ٹیکسز کی بھر مار کر کے اس قوم کی چودہ ہزار ماہانہ میں سے بچائی ہوئی دولت اگلوا کر’’ غرباء پارلیمنٹ‘‘ کی امداد کا فنڈ قائم کر رکھا ہے۔ آخر کار انہی’’ غرباء ‘‘نے اس عوام کا بھلا سوچنا ہوتا ہے۔ انکو زکام ہو جائے تو لندن جانا پڑ سکتا ہے ۔ انکے بچوں کو بھی تو پڑھنے کا حق ہے۔ انہیں پردیس میں جا کر علم حاصل کرنا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ جو دوسرے ممالک میں بزنس کا عذاب ہے، اسے دیکھنے کے لئے بھی باہر جانا پڑتا ہے۔ اسی رئیس اور امیر قوم کی خاطر اتنے کام سر انجام دینے کے لئے پیسے کی ضرورت تو ہوتی ہی ہے ۔ اسی وجہ سے عوام سے مختلف مدوں میں وہ پیسہ نکلوایا جاتا ہے۔ آخر غریب پروری بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔ اگر عوام یہ سوچ لے کہ آخر ان کی ضرورتیں ہی کتنی ہیں ؟تو وہ کبھی بھی مہنگائی ، بیروز گاری ،تعلیم اور صحت کے مسئلے پر بحث نہ کرے۔ ساری سہولتیں تو ہیں اس عوام کے پاس۔ پورا پورا دن اسپتالوں میں لائینوں میں لگ کر بیٹھے رہتے ہیں کبھی کسی نے اعتراض کیا کہ سرکاری عمارت میں اتنی دیر سے کیوں فارغ بیٹھے ہو؟؟؟ مزے ہی مزے ہیں اس قوم کے کہ ہسپتالوں کے فرشوں پر بیٹھیں یا پلاٹوں کی نرم گھاس پر شب بھر سوے رہیں۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بھی کیا جا سکتا ہے اس قوم کے لئے؟؟ گورنمنٹ کے تعلیمی ادارے اسی عوام کے لئے ہی تو بنائے گئے ہیں ۔کبھی کسی بیچارے ’’غریب ممبر اسمبلی‘‘ یا وزیر کا بچہ دیکھا ہے وہاں؟ وہ تو بیچارے لندن ، امریکہ ، فرانس ،کنیڈا ،آسٹریلیا جا کر پردیس میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان کی عوام اتنی امیر ہے کہ سارا دن کسی راج کے پیچھے تگاری اٹھائے کام کر کے شام کو اپنے گھروں میں آرام سے آکر سو جاتے ہیں۔ غربت تو بیچارے وزراء کے لئے ہے کہ پردیسیوں کی سی زندگی گزارنی پڑ رہی ہے۔ وہ آج لندن ہوتے ہیں تو کل ماسکواور پھر اگلی رات واشنگٹن۔ کتنے غریب ہیں؟؟؟ کتنے مجبور ہیں؟؟؟ کس قدر غربت اور سفروں کے مارے ہوئے ہیں؟؟؟ ۔ عوام کو چاہئے کہ فیصلہ اب خود کر لیں ان معزز غرباء کا اور انکی حسب توفیق مدد لازمی کریں کوئی ایسا حل نکالیں کہ بیچارے ہم جیسے امیر ہو جائیں اسمبلی کی ممبر شپ نے اور وزارت نے تو انکو غربت کی اٹھاہ گہرائیوں میں لا پھینکا ہے ان کی غربت کو ختم کر دینا پوری قوم کی ذمہ داری ہے ۔
Rasheed Ahmed Naeem
About the Author: Rasheed Ahmed Naeem Read More Articles by Rasheed Ahmed Naeem: 126 Articles with 122308 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.